قابل تجدید توانائی میں چین کی عالمی برتری

اعتصام الحق ثاقب
============

توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے چین نے گزشتہ دو دہائیوں میں بے انتہا کام کیا ہے ،کئی بڑے منصوبوں کا آغاز کیا اور کئی منصوبوں کی تکمیل کے بعد اب بھی اس میں مستقبل کے اضافے کی کوششوں پر کام کر رہا ہے۔اس سلسلے میں دنیا کی بلند ترین ونڈ ٹربائنز ہوں یا زمسی توانائی کی پیداوار کے لئے چین کی وسیع و عریض زمین کا استعمال ۔موسموں اور جغرافیائی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے اس شعبے میں بے انتہا کام کیا ہے اور اب اس کے نتائج بر آمد ہو رہے ہیں ۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق گزشتہ سال قابل تجدید توانائی کی پیداواری صلاحیت میں تیزی سے توسیع میں چین اہم قوت تھا جس نے اس میں 50 فیصد کا اضافہ کیا ۔ادارے نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ چین میں تیزی سے ترقی کی وجہ سے گزشتہ سال عالمی سطح پر قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں اضافہ ہوا، جس سے گزشتہ چند دہائیوں کے دوران زیادہ تیزی سے گرین پاور پیدا ہوئی۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ چین، جو قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ایک غالب قوت بن چکا ہے، اگلے پانچ سالوں میں اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرے گا کیونکہ کوئلے اور گیس کی بجلی کی پیداوار کے مقابلے میں کم لاگت شمسی توانائی زیادہ پرکشش ثابت ہو رہی ہے ۔
چین نے گزشتہ سال شمسی اور پون توانائی کے لئے گرین پاور سرٹیفکیٹ کے قواعد و ضوابط اور خاکے میں کچھ تبدیلیاں بھی کی ہیں جو ان شعبوں میں ڈویلپرز کے لئے اضافی آمدنی کا باعث بنیں گی ا ور قابل تجدید توانائی کی ترقی کو مزید تیز بھی کریں گی ۔ چین میں ہوا سے بجلی سمیت صاف توانائی کو ترجیح دی جا رہی ہے، نہ صرف اس لیے کہ یہ “سبز” ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ یہ کوئلے سمیت روایتی ایندھن کے مقابلے میں سستی ہے۔اس کے علاوہ معاون صنعتی پالیسیوں نے گزشتہ چند سالوں میں چین کی قابل تجدید توانائی کی تیز رفتار ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ، جس نے اسے قابل تجدید توانائی کی صلاحیت اور تکنیکی ترقی کے لحاظ سے عالمی رہنما بنا دیا ہے۔
چین کی نیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں چین کی قابل تجدید توانائی کی تنصیب شدہ صلاحیت نے 1.45 بلین کلو واٹ سے تجاوز کیا جو ملک کی کل انسٹال شدہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے 50 فیصد سے زیادہ ہے۔قابل تجدید توانائی سال 2023 میں ملک کی سبز توانائی کی منتقلی کے منصوبوں کے دوران بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ایک نئی قوت بنی اور قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا ہونے والی بجلی اب چین کی بجلی کی کل کھپت کا 15 فیصد سے زیادہ ہے۔
پالیسی سپورٹ اور پاور مارکیٹ میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ توانائی کی اسٹوریج ترقی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری، جیسے پاور گرڈ کو اپ گریڈ اور توسیع دینا، چین کی سبز اور کم کاربن توانائی کی تبدیلی کو تیز کرنے میں مزید اہم کردار ادا کرے گا۔
آئی ای اے کے مطابق، حال ہی میں امریکہ اور یورپ کے ممالک کی طرف سے متعارف کرائی گئی پالیسی اور مالی مدد کے باوجود، چین اب بھی قابل تجدید توانائی کی تنصیب میں باقی دنیا کے مقابلے میں اپنے فرق کو بڑھانے کی راہ پر گامزن ہے۔
چین کی شمسی فوٹو وولٹک مینوفیکچرنگ صلاحیتوں نے جنوری سے دسمبر 2023 تک مقامی ماڈیول کی قیمتوں میں تقریبا 50 فیصد کمی کی ہے ، جس سے یوٹیلیٹی اسکیل اور تقسیم شدہ سولر پی وی منصوبوں کی معاشی کشش میں اضافہ ہوا ہے۔
چین کے پاس بہت سی ایسی برتریاں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں، جن میں ٹرانسمیشن گرڈ اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو زیادہ موثر طریقے سے منظور کرنے اور تعمیر کرنے کی صلاحیت اور پالیسی ترجیحات کی بدولت منصوبوں کو زیادہ آسانی سے مالی اعانت فراہم کرنا شامل ہے۔آئی ای اے کی رپورٹ کے مطابق چین نے 2023 میں شمسی توانائی کی صلاحیت کو دوگنا سے زیادہ کیا ہے اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں 66 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ حالات اور موجودہ پالیسیوں کے تحت قابل تجدید توانائی کی صلاحیت 2028 تک 7,300 گیگاواٹ تک پہنچ جائے گی، جس میں دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت چین دنیا بھر میں شامل ہونے والی نئی قابل تجدید صلاحیت کے تقریبا 60 فیصد کا ذمہ دار ہوگا ۔آئی ای اے کی پیش گوئی کے مطابق، 2028 تک، چین کی بجلی کی پیداوار کا تقریبا نصف قابل تجدید توانائی کے ذرائع سے آئے گا.