گنجائش


میاں صاحب کو صرف اتنی گنجائش ملی ہے کہ اگر تنگ نا کریں تو قوم کی خدمت کرنے کی راہ میں دشواری پیدا نہیں کی جاے گی۔
اب ان کے خطے میں وسیع تجربے کے حامل سیاست دان ہونے کی بنا پر چیلنج یہ ہے کہ کیسے متنجن نما حکومت کے ساتھ اس ملک کے مسائل حل کر پائیں گے ۔
اگر میاں صاحب نے اپنی گزشتہ سیاسی غلطیوں کو نا دوہرایا تو امید کی جا سکتی ہے کہ ملک اپنے لیے نیا راستہ تلاش کرے۔ اس کے لیے یہ ضروری ہے کی اتحادی پارٹیاں بھی ملکی مفاد کو سامنے رکھیں اور میاں صاحب سمیت سب نوجوان قیادت کو سامنے لائیں اور جمہوریت کو پروان چڑھانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں!

دوسرا پہلو گنجائش کی اس تصویر کا پیپلز پارٹی کا ہے جو مفاہمت اور سیاست میں ماہر ہے اور بلاول بھٹو کی قیادت کا خواب شرمندہ تعبیر کرنا چاہتی ہے۔ چیلنج ان کا بھی وہی ہے جو میاں صاحب کے لیے ہے۔

اگر اس سکے کا تیسرا رخ بھی ہے تو چیلنج میں ایک اور پتا ہے جو کھیلنا مشکل ضرور ہے مگر تحریک انصاف کھیل سکتی ہے آخ گاندھی نے بھی تو یہ کیا تھا۔
بہر کیف شطرنج کی یہ بساط بچھائی گئی ہے تو اس کے کچھ پوشیدہ مقاصد اور بھی ہو سکتے ہیں !

البتہ یہ صورتحال گھمبیر اس لیے نہیں ہے کیوں کہ یہ ہمیشہ سے گھمبیر ہی رہی ہے۔ خداتعالیٰ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے آمین!
تحریر عامر مجید