مقبوضہ کشمیر میں نئی گم نام قبریں اور آزاد کشمیر کے عوام ۔

ai

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی

مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبروں کا دریافت ہونا نئی خبر نہیں لیکن نئی خبر یہ ہے کہ گم نام قبروں کی دریافت کا یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ 02 فروری 2024ء کو میڈیا نے “دی ہندو” اخبار کی رپورٹ کے حوالے سے خبر جاری کی کہ مقبوضہ کشمیر میں 2700 گم نام نئی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں جن میں 2900 افراد کی باڈی ملی ہیں اس خبر نے دنیا بھر میں انسانیت سے پیار کرنے والے افراد پر سکتا طاری کر دیا۔ لیکن آزاد کشمیر کی قیادت اور عوام پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، نہ کوئی بیان نہ عوامی بے چینی نہ غم و غصہ نہ کوئی افسردگی بس سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا ہے۔ آزاد کشمیر میں مقبوضہ کشمیر کے بھائی بہنیں پر ہونے والے مظالم پر اتنی بے حسی اور خاموشی ہے کہ اس پر اب کچھ لکھنا ہی بے اثر ہو چکا۔ نام نہاد قیادت ریاستی وسائل کے ہمراہ پاکستان میں اپنے آقاؤں کی انتخابی مہم میں مصروف ہے۔ فرنچائز کا ریاستی وسائل اور لاو لَشْکَر کے ہمراہ اپنے مرکز میں پہنچنا تو بنتا ہے، ورنہ دوکان بند ہونے کا خطرہ تھا، مریم باجی یا آدھی آنکھ جھپکا دیتی تو آزاد کشمیر میں طوفان کھڑا ہو جاتا، لیکن سردار عتیق احمد خان اپنی پوٹلی نما جماعت کے ہمراہ پاکستان کی سیاست میں کس واسطے کودے توجہ طلب ہے۔ ممکن ہے بڑوں نے نواز شریف صاحب سے کہہ دیا ہو کہ خان دانی اپنا بندہ ہے آگئیں ایڈجسٹ کرنا ہے۔ اس لیے انہیں نے دربار پر آنے کی اجازت دی ہو، ورنہ میاں صاحب کو خاص ضرورت نہیں تھی۔ ضرورت کس بات کی ہوتی بندے کے پاس پلے کچھ ہو تو سامنے والا دعوت دیتا ہے۔ پہنجاب میں کتنے مسلم کانفرنسی ہوں گے جو سیاست کی بساط لپیٹے کی سکت رکھتے ہیں۔ جو تھے وہ پہلے ہی مسلم لیگ میں جا چکے۔ میں دعوی سے کہہ سکتا ہوں کہ ایڈجسٹ منٹ کے حوالے سے بہت زور زبردستی بھی ہوئی تو سردار صاحب کو اسپیکر شپ سے زیادہ کچھ نہیں ملے کا، لیکن بھاگتے چور کی لنگوٹی سہی کے مصداق بے روزگاری تو ختم ہو گی اگر نیت یہی ہے تو پھر مناسب فیصلہ ہے۔ سردار عتیق احمد خان اور ان کی جماعت ہمیشہ سے ہی آزاد کشمیر میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں اور سیاست کی مخالف اور نالاں رہی ہے۔ اس دوغلی پالیسی سے ہی کشمیری سیاست اور ریاست کو نقصان پہنچا کہ کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو صبر و تحمل سے تھوڑی دیر انتظار کر لے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسرے کے گھر میں پتھر مار کر اپنے گھر کو محفوظ سمجھا جائے۔ آپ مسلم لیگ کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو دوسرے کیوں نہ آپ کی مختلف کریں ۔ ریاستی جماعتوں کو پاکستان کی ہر سیاسی مذہبی اور سماجی جماعت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات استور کرنا چاہیے۔ ریاست کشمیر کو تحریک آزادی کے لیے پاکستان کے ایک ایک فرد کا تعاون اور ریاستی جماعتوں کو بطور جماعت پاکستانی سیاست میں غیر جانبدار رہنے کی ضرورت ہے۔ سردار عبدالقیوم خان نے جب سے پاکستانی سیاست میں مداخلت کی تب سے ریاستی سیاست کا بیڑا غرق اور ریاستی تشخص تباہ اور تحریک آزادی کو افادہ مختتم گا گئیر لگ گیا۔ نواز شریف نے مسلم کانفرنس کا جو حشر کیا تھا اس کے بعد بھی مسلم کانفرنس کو اس کے دروازے پر سیاست کی بھیک مانگنا اچھا نہیں لگا۔ گویا اب آزاد کشمیر میں ایک ہی ریاستی جماعت رہ گئی ہے جموں و کشمیر لبریشن لیگ، جو نقار خانے میں توطی کی آواز ہے۔ نہ کوئی تنظیم نہ کارکن متحرک نہ قیادت امیر، لیکن ہے ایک آواز، بلکہ ایک ہی آواز ہے۔ اسی دئیے میں تیل پڑھے گا تو روشنی ہو گی۔ کسی صلے کی پرواہ کئے بغیر یہ آواز موجود رہتی ہے تو کبھی حالات تبدیل اور یہ آواز توانا بن سکتی ہے۔ امید پر دنیا کھڑی ہے، لبریشن لیگی بھی اس امید کے ساتھ کھڑے رہ سکتے ہیں کہ کبھی حالات بہتر ہوں گے اور کشمیری اپنے اصل مقصد کی طرف پلٹیں گے، جو تحریک آزادی کشمیر ہے۔ لیکن جس رفتار اور انداز سے جموں و کشمیر لبریشن لیگ کی قیادت اور کارکن چل رہے ہیں بقول راجہ فاروق حیدر خان 750 سال میں بھی ممکن نہیں ہے۔ برحال میڈیا کے مطابق انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کورٹ اور کشمیر میں عدالتِ انصاف (آئی پی ٹی کے) نامی این جی او کی جانب سے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ شمالی کشمیر کے 55 دیہاتوں میں کھدائی کے دوران 2 ہزار 700 نئی قبریں دریافت ہوئی ہیں ۔ یہ
مقبوضہ جموں کشمیر میں قابض بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم کی تازہ کہانی ہے، جس کو بھارتی سرکار نے منظر عام پر نہ آنے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن عدالت انصاف نامی این جی او کے بہادر اور ناڈر رضا کار اس صورت حال میں بھی منظر عام پر لے آئے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جہاں لگ بھگ ایک لاکھ افراد کو بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے وہاں بھارتی فوج کا مظالمانہ پہلو یہ بھی ہے کہ چھاپوں کے دوران جن افراد کو پکڑ کر لے جاتے ہیں ان میں سے اکثریت کو تشدد کے بعد قتل کر دیتے ہیں، اکثریت کی نعشیں ورثاء کے حوالے نہیں کی گئیں۔ ایسے رپورٹس ہیں کہ بھارتی فورسز گھڑے کھود کر شہید کئے گئے کشمیریوں کو اجتماعی طور پر ان گھڑوں میں ڈھونس دیا جاتا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارتی اخبار “دی ہندو” کے مطابق، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کورٹ اور کشمیر میں عدالتِ انصاف (آئی پی ٹی کے) نامی این جی او نے رپورٹ شائع کی کہ شمالی کشمیر کے علاقے بانڈی پورہ، بارہ مولہ اور کپواڑہ کے 55 دیہاتوں میں دوران کھدائی 2 ہزار 700 قبروں میں سے 2 ہزار 900 افراد کی نعشوں دریافت ہوئی ہیں۔ اس این جی او نے اس دریافت سے بھارت کے قومی انسانی حقوق کمیشن اور جموں کشمیر ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی مطلع کیا ہے۔ یہ اطلاع اس لیے بھی قابل اعتبار ہے کہ اطلاع دینے والی این جی او کے سربراہ مسلمان نہیں جس پر من گھڑت اور جھوٹی باتیں پھیلانے کا الزام لگایا جا سکے۔ آئی پی ٹی کے، کی بانی آنگنا چیترجی نے کہا ہے کہ شناخت شدہ 2 ہزار 700 قبروں میں سے 2 ہزار 373 گمنام، 154 قبروں میں 2 لاشیں ، 23 قبروں میں 3 سے 17 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ وہ لوگ ہیں جو فورسز نے گرفتاری کے بعد قتل کئے، ان کے ورثاء ان کی آمد کی انتظار میں ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر ابھی تک کوئی ردعمل نہیں آیا۔