یوم یکجہتی کشمیر

کشمیر جو کبھی ایشیا کا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا تھا آج دنیا کے خطرناک ترین تنازعے کا مرکز بن چکا ہے۔ اس کی وجہ سے اسلامی دنیا کی بڑی قوت پاکستان اور خطے کے اہم ترین ملک ہندوستان کے مابین تین جنگیں ہو چکی ہیں۔ اور دونوں ممالک کے عوام کے سروں پر ایٹمی جنگ کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں۔کشمیر کا نام سنتے ہی جنگ ، لاشیں، حراستیں ، جبری گمشدگیاں ، حراستی قتل ، املاک کی تباہی و بربادی ، پیلٹ گن سے چھلنی ، بے بینائی لوگ، ظلم وجبر کے سائے میں پلتی ہوئی زندگیاں، لاپتہ شوہروں کی منتظر “نصف بیوہ خواتین”، انتظار میں بیٹھی وہ ماں جس کا بیٹا قابض فوج کے تاریک عقوبت خانوں میں مار دیا گیا، اجتماعی قبریں اور عصمت دری کا شکار زندہ لاشیں ذھن میں آتیں ہیں۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت ماﺅنٹ بیٹن اور نہرو نے پاکستان کو اندھیرے میں رکھا اور کشمیر کو بھارت کے ساتھ شامل کرنے کا خفیہ پلان بنا لیا۔ مہاراجہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ معاہدے پر ثبت خالی لکیروں پر دستخط کر دے اس کے بعد بھارت کے فوجی دستے 27 اکتوبر 1947ءکو براستہ گورداسپور کشمیر میں اتر گئے ادھر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے انگریز کمانڈر انچیف کو 12 اکتوبر حکم دیا کہ وہ دو بریگیڈ کشمیر میں داخل کرکے سری نگر اور بارہ مولا پر قبضہ کر لیا جائے۔ جنرل ڈگلیس گریسی نے بھارت اور پاکستان کے سپریم کمانڈر سے ٹیلی فون پر بات کی۔ اس طرح لاہور میں 29 اکتوبر کو میٹنگ رکھی گئی پنڈت نہرو بیماری کا بہانہ کرکے لاہور نہ آئے۔ 30 اکتوبر کو لارڈ ماﺅنٹ بیٹن اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان معاہدہ ہوا کہ کشمیر کا فیصلہ کشمیریوں کی رائے کے مطابق ہوگا کشمیر سے الحاق کے وقت بھارت نے اعلان کیا ”جونہی کشمیر میں امن و امان بحال ہو گا تو ریاست کے الحاق کا فیصلہ کرنے کیلئے ریاست کے عوام سے رجوع کیا جائے گا۔“ بہت دنوں کی تاخیر کے بعد 30 اکتوبر 1947ءکو نہرو نے لیاقت علی خان کو ایک تار کے ذریعے مطلع کیا ”جونہی امن و امان بحال ہو گا تو ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام پر چھوڑ دیا جائے گا ہمارا یہ وعدہ صرف آپ کی حکومت سے ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام اور ساری دنیا سے بھی ہے۔بھارت یکم جنوری 1948ءکو تنازعہ کشمیر، اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل نمبر 35 کے تحت، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا۔ سکیورٹی کونسل نے اس پر ”قرار دادیں پاس کیں۔ پہلی قرار داد 13 اگست 1948ءکو پاس کی گئی اور دوسری 5 جنوری 1949ءکو۔ بھارت اور پاکستان دونوں نے یہ قراردادیں منظور کر لیں۔ دونوں قرار دادوں میں کہا گیا تھا کہ کشمیر کے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کا مسئلہ صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ لیکن یہ تنازع ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔دوسری جانب ریاست کشمیر اس وقت تین حصوں میں منقسم ہے ۔ بھارت اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر قابض ہے جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر علاقہ رکھتے ہیں ۔ پاکستان کے زیر انتظام علاقوں کے برعکس ہندوستان کی مقبوضہ وادی میں بے چینی اور مظاہرے اس بات کے غماز ہیں کہ کشمیری اکثریت ہندوستانی تسلط کو نا پسند کرتی ہے۔ جس کو دبانے کے لئے ہندوستان کی پر تشدد انسانیت سوز کاروائیاں جاری ہیں۔انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں کے مطابق 1989 سے لے کر اب تک تقریبا 1،00000 کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ جموں کشمیر کی سماجی تنظیموں کے اتحاد کے مطابق جھوٹے مقدمات میں پھنسائے گئے افراد کی تعداد 8000 سے زائد ہو چکی ہے۔جبکہ 143،185 افراد حراست میں لے کر ہراساں کئے گئے جن میں سے تقریبا 8000 زیر حراست ہلاک کر دئے گئے۔خواتین کی اجتماعی بے حرمتی کے 110،042 واقعات سامنے آئے اور 103،043 سے زائد افراد بے گھر ہوئے۔ 10،000 سے زیادہ افراد لا پتہ ہیں۔پاکستان میں 5 فروری کو منقسم کشمیر کے سبھی حصوں میں بسنے والے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن منایا جاتا ہے ۔ یہ دن منانے کا سسلہ کئی سالوں سے جاری ہے جس میں پاکستان اور دنیا کے کئی ممالک میں بسنے والے پاکستانیوں کی سیاسی اور میبی جماعتیں احتجاجی جلسے منعقد کرتی ہیں اور سرکاری سطح پر تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ 1975 میں ذوالفقار علی بھٹو نے 28 فروری کو کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منانے کا اعلان کیا۔ اس دور کی میڈیا رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ احتجاج اس قدر سخت تھا کہ پورا پاکستان بند ہو گیا اور لوگوں نے مویشیوں کو پانی تک نہیں پلایا۔جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے کشمیر میں مسلح عسکری تحریک کی حمایت کا اعلان کیا اور 5 فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت پہلے ہی اپوزیشن کے نشانے پر تھی لہذا محترمہ بے نظیر بھٹو نے بغیر تاخیر کے اس اعلان کی تائید کی اور آنے والے سالوں میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا سلسلہ باقاعدہ شروع ہو گیا۔ اس حوالے سے 35 ارکان پر مشتمل قومی کشمیر کمیٹی کا کردار بھی پریس ریلیز، یادداشتوں اور ہر سال 5 فروری کو انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنانے سے آگے نہیں بڑھ سکا۔کشمیر آزاد ہو ، اسے اس کا حق خود ارادیت ملے ہر صورت میں مسئلے کے تمام فریقوں خصوصا کشمیری عوام کی مرضی کے مطابق ہونا چاہئے۔مگر ایسا تبھی ممکن ہوگا جب بھارت اس کے حل پر آمادہ ہو۔ اس کے لئے عالمی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لئے ہر ممکن طریقہ استعمال کرنا چاہئے۔ اس کے لئے آزاد کشمیر کے عوام کو مجموعی طورپرمتحرک کریں، برطانیہ میں مقیم کشمیری عوام کی جانب سے جاری “بلیڈنگ پیراڈائز” مہم یورپی برادری کو باور کرانے کے لئے اچھا اقدام ہے۔ معاشی بائیکاٹ بھی اہم حربہ ہے۔ اقوام عالم اور خصوصا او آئی سی میں شامل تمام مسلمان ممالک کو بھارت کے ساتھ معاشی تعلقات ختم کرنے پر آمادہ کرنا چاہئے۔ رسمی طورپر کشمیر ڈے منانے سے آگے جاکر حکومتی اور سفارتی سطح پر کشمیریوں کیلئے مؤثر اقدامات کرنا ہوں گے