پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا قدرتی پارک کیرتھر نیشنل پارک


رب کا جہاں
نوید نقوی
=============


صاحب صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ قارئین اس بار ہم رکشے کا رخ پاکستان کے صوبہ سندھ کی طرف کرتے ہیں تاکہ ہم پاکستان کے سب سے بڑے اور بلوچستان کے عظیم ہنگول نیشنل پارک کے بعد پاکستان کے دوسرے بڑے اور سندھ کی شان کیرتھر نیشنل پارک کی سیر کر سکیں۔ میرا ارادہ اس بار بھی کسی خوبصورت دارالحکومت کی سیر کروانا تھا لیکن ایک خبر نے مجھے رکشے کا رخ کیرتھر نیشنل پارک کی طرف موڑنے پر مجبور کر دیا۔ وہ خبر یہ ہے کہ کراچی سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور واقع اندرونِ سندھ کے شہر کوٹڑی کی ایک عدالت میں 24 جنوری کو اس وقت غیر معمولی صورتحال پیش آئی جب کمرۂ عدالت میں ایک تیندوے کی لاش پیش کی گئی۔ عدالت میں میرے جیسے انسانوں کی حاضریاں تو روز لگتی رہتی ہیں لیکن کسی چیتے کی وہ بھی مردہ کی عدالت میں حاضری، یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ محکمہ جنگلی حیات کے مطابق کچھ روز قبل گاؤں کے لوگوں نے ایک نایاب نسل کے نر چیتے کو کیرتھر کی پہاڑیوں میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ جس پر انہوں نے تحفظ جنگلی حیات ایکٹ 2020 کے تحت چیتے کے غیر قانونی شکار کا مقدمہ درج کیا اور ثبوت کے طور پر چیتے کی لاش کو بھی عدالت میں پیش کیا۔ جس پر معزز عدالت نے ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس تیندوے کی لاش کو سائنسی بنیاد پر حنوط کرنے کے بعد وائلڈ لائف میوزیم میں رکھنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیتے کی موجودگی وہ بھی سندھ میں جہاں جنگلات کا تیزی سے خاتمہ کیا گیا ہے۔ کیرتھر نیشنل پارک صوبہٴ سندھ کے دامن میں موجود پاکستان کا دوسرا نیشنل پارک ہے۔ کیرتھر پارک میں کرچات سینٹر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوہ تراش کی وادی آج بھی انسانی تہذیب کو اپنے دامن میں لپیٹے ہوئے ہے۔ کوہ تراش فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں تراشنے والوں کا پہاڑ، اس پہاڑی سلسلے کے نواح میں 3500 قبل از مسیح کے انسانی تہذیب کے آثار ملے ہیں۔ یہ آثار ایک مکمل آبادی اور تہذیب کے بھر پور شواہدات فراہم کرتے ہیں۔ کیرتھر پارک کا علاقہ جغرافیائی لحاظ سے خشک خطوں میں شمار کیا جاتا ہے اور بنیادی طور پر یہ علاقہ بارانی رہا ہے تاہم یہاں پر سالانہ بارش کی اوسط 6 سے 8 انچ رہی ہے۔ 1994 سے یہ علاقہ مکمل طور پر خشک سالی کا شکار ہے۔ پہاڑوں پر سے گھاس پھونس، ترائی میں درختوں سے سبزہ اور موسمی ندی نالوں میں پانی خشک ہو گیا ہے اور صورت حال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ کیرتھر نیشنل پارک کو عالمی حیثیت کے حامل ہونے کے علاوہ ملکی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے۔ کیرتھر نیشنل پارک کراچی، جام شورو، دادو اور بلوچستان کے حب کے پہاڑی علاقوں پر پھیلا ہوا کیرتھر پہاڑی سلسلے پر مشتمل ہے جو 3,087 مربع کلومیٹروں پر پھیلا ہوا ہے۔ اس قدرتی پارک کو 1974 میں محفوظ مقام یا پروٹیکٹو ایریا قرار دیا گیا تھا۔ بلوچستان کے ہنگول نیشنل پارک کے بعد یہ پاکستان کا دوسرا بڑا قومی پارک ہے۔ کیرتھر کے بیس لائن سروے کے مطابق اس پہاڑی و نیم پہاڑی سلسلے میں ہرن، جنگلی بکروں، پرندوں اور رینگنے والے جانوروں کی 200 اقسام پائی جاتی ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس وقت کیرتھر نیشنل پارک میں 30 ہزار سندھ آئی بیکس، 14 ہزار اڑیال، دو ہزار چنکارا کے علاوہ کالے ہرن، 500 سے زائد اقسام کے چرند، پرند، ممالیہ، پرندے، اور کئی اقسام کے کیڑے مکوڑے بھی پائے جاتے ہیں۔ کیرتھر نیشنل پارک گیدڑ، جنگلی مور، لیپوریڈ کی نسل کے بلیک نیپڈ خرگوش، بھیڑیے، سانپوں کی کئی اقسام، تیتر، سفید پیر والی لومڑی سمیت لومڑیوں کی کئی اقسام، چوہوں کی کئی اقسام، جنگلی بلیوں اور پرندوں میں عقاب، چیل اور مصری گدھوں سمیت کئی اقسام کے جانوروں کا قدرتی مسکن ہے۔ پاکستان کا صوبہ سندھ حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے ایک اہم خطہ سمجھا جاتا ہے۔ عالمی معاہدے رامسر کنونشن کے تحت حیاتیاتی تنوع کے لحاظ سے اہمیت والی آب گاہوں کو رامسر سائٹ قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کل 19 رامسر سائٹس ہیں، جن میں سے 10 صرف صوبہ سندھ میں ہیں۔ اس کے علاوہ روس، سائبیریا اور دیگر ممالک سے دنیا کے دوسروں خطوں میں جانے والے پرندوں کے راستے انڈس فلائی زون پر واقعے ہونے کے باعث ہر سال بڑی تعداد میں مہمان پرندے سندھ کی آب گاہوں پر اترتے ہیں۔ سندھ کے مختلف قدرتی علاقوں میں موجود انواع و اقسام کے چرند، پرند کے قدرتی مساکن موجود ہیں۔ اس علاقے میں انسانی آبادی زیادہ نہیں ہے اور چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جبکہ روڈ نیٹ ورک بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مختلف مصنفین اور محققین نے لکھا ہے کہ اس علاقے میں کئی بار چیتوں کو دیکھا گیا ہے۔ کیرتھر کی کرچات پہاڑیوں میں اور قلات و مکران (بلوچستان) کے پہاڑی سلسلوں میں یہ تیندوے آج بھی پائے جاتے ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات کے افسران بھی یہ کہ چکے ہیں انہوں نے کئی بار چیتے کے قدموں کے نشان دیکھے لیکن اب ثابت بھی ہو گیا ہے کہ کیرتھر نیشنل پارک میں نایاب نسل کے چیتے بھی موجود ہیں۔ محکمہ جنگلی حیات سندھ کے افسران کے مطابق 1976 میں ایک شکاری نے کیرتھر نیشنل پارک میں ایک تیندوے کو ہلاک کیا تھا، جس کے 48 سال بعد یہ تیندوا نظر آیا جسے منگل کو ہلاک کر دیا گیا۔ بلوچستان کا جو دہریجی اور کنراچ کا علاقہ ہے وہاں سے لے کر مکران کے ساحلی علاقے تک تیندوا پایا جاتا تھا اور وہاں سے یہ سفر کرتا کرتا نکل جاتا ہے کیونکہ یہ جانور بہت سفر کرتا ہے۔ اب گاؤں کے لوگوں کے ہتھے یہ چیتا کس طرح چڑھ گیا ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ گذشتہ چند سال سے کیرتھر پر اچھی بارشیں ہوئی ہیں جس سے وافر مقدار میں شکار دستیاب ہے اس لیے تیندوے جیسے جانور سامنے آ رہے ہیں۔ سردیوں اور برفباری کے موسم میں بھی تیندوا اپنے شکار اور خوراک کی تلاش میں بلندی سے نیچے آتا ہے۔ پاکستان میں تیندوؤں کی صرف چار اقسام پائی جاتی ہیں جن میں ہمالین اور پرشیئن نسل کے تیندوے بھی شامل ہیں۔ ماحول کی بقا کے لیے کام کرنے والے ادارے آئی یو سی این کی معدوم ہونے والے چرند پرند کی فہرست میں یہ تیندوے بھی شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق چیتا انسانوں کے لیے ایک ماحول دوست جانور ہے۔ تیندوے ہمارے ماحولیاتی نظام کے سب سے بڑے شکاری ہیں اور وہ ماحول کی صحت کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سبزی خور جانوروں کی آبادی پر کنٹرول رکھتے ہیں اور غیر صحت مند جانوروں کو اس کے مسکن سے ہٹا دیتے ہیں۔ یوں ہم کہ سکتے ہیں کہ اس دوست جانور کو مارنے کی بجائے اس کی حفاظت کی جائے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان اور سندھ کو چاہیئے کہ مقامی سیاحت کی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ یہاں سیاحت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی مناسب قیام و طعام کی سہولتوں کا فقدان اور کچے راستوں پر سفر کے لیے مناسب نشانوں کی عدم موجودگی بھی شامل ہیں۔ اگر سندھ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اور حکومت سندھ فروغ سیاحت سے متعلق اداروں کے تعاون سے کرچات تک پہنچنے کے لیے پختہ سڑک، سیاحوں کے لیے مناسب کرائے پر قیام و طعام کی فراہمی اور بجلی کے لیے شمسی توانائی کا پلانٹ لگایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ فروغ سیاحت کے لیے ذرائع ابلاغ کی مدد سے مہم چلائیں تو کیرتھر نیشنل پارک سیاحت کے فروغ کی بہترین مثال بن سکتا ہے۔ پہاڑی سلسلوں سے بھرے ہوئے اس نیشنل پارک میں میدانی علاقے بھی ہیں اور بنجر علاقے بھی ہیں تاہم گھنے جنگلات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حکومت اس علاقے میں جنگلات نئے سرے سے لگا کر ملک کے لیے اربوں ڈالرز حاصل کر سکتی ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC