ہمسایوں سے جنگ یا حسن سلوک

تحریر: مجاہد حسین وسیر
پاکستان اور ایران دو ہمسایہ اور اسلامی برادر ملک ہیں ۔ پاکستان اور ایران کی سرحد کی لمبائی 909 کلومیٹر ہے جو پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور ایران کے صوبہ سیستان کو آپس میں ملاتی ہے۔ ایرانی اور پاکستانی دونوں اقوام کی تہذیب، زبان کی جڑیں، اعتقادات اور ثقافت مشترکہ ہے جو ایک دوسرے کو آپس میں جوڑے رکھتی ہےمگر ان سب کے باجود ایرانی فورسز نے بلوچستان کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بلوچستان میں میزائل اور ڈرون حملے کیے گئےجس کے نتیجے میں ایرانی سکیورٹی فورسز کے ڈرون اور میزائل حملوں میں دو بچیاں شہید اور 3 زخمی ہو گئیں۔ایران اس سے ایک دن پہلے عراق اور شام پر بھی فضائی حملے کر چکا ہے۔ ایرانی سکیورٹی فورسز کے مطابق پاکستان کے صوبے بلوچستان میں جیش العدل نامی تنظیم کے دو ٹھکانوں پر میزائل اور ڈرون حملے کیے گئےہیں ۔ ایرانی حملے کی صورت میں دفتر خارجہ نے احتجاج کیا اور ایران سے پاکستانی سفیر کو واپس بلاتے ہوئے سفارتی تعلقات کو بھی منقطع کر لیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایران میں گئے تجارتی وفود نے بھی اپنی میٹنگز کو ادھورا چھوڑ کر واپسی کا فیصلہ کر لیا جس سے پاکستان اور ایران کے درمیان کشیدگی کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان نے ایرانی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستانی فضائی حدود کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے اور تہران کو خبردار بھی کیا کہ اس طرح کی خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور اس کے سنگین نتائج کی دھمکی دینے کے بعد پاکستان نے ایران کے صوبہ سیستا ن میں جوابی وار کیا اور کہا یہ یہاں دہشتگردوں کی پناہ گاہیں تھیں جن کو نشانہ بنایا گیا ہے کسی سویلین یا فوجی ہدف کو نشانہ نہیں بنایا ن اس کے ساتھ ہی پاکستان نے نتائج کی ذمہ داری پوری طرح سے ایران پر عائد کی ہے۔اس سے پہلے بھی پاکستان ، ایران کے ساتھ اپنے تحفظات کا اظہار کر چکا ہے اور متعدد بار ڈوزئیرز بھی ایران کے ساتھ شئیر کیے جا چکے ہیں۔یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔ بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد ‘را’ کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ ایرانی سر زمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کےلیے استعمال ہونے پر اگر پاکستان چاہتا تو ایران کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کر سکتا تھا مگر پاکستان نے ایسا نہ کیا اس کی وجہ کہ پاکستان نے ہمیشہ سے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو ترجیح دی ہے مگر ہمسایہ ممالک نے پاکستان کے برادرانہ جذبات کی کبھی بھی قدر نہیں کی چاہے وہ ہندوستان ہو یا افغانستان۔ پاکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ دہشت گردی خطے کے تمام ممالک کے لیے ایک مشترکہ خطرہ ہے جس کے لیے مربوط کارروائی کی ضرورت ہے۔ اس طرح کی یکطرفہ کارروائیاں اچھے ہمسایہ تعلقات کے مطابق نہیں ہیں اور یہ دو طرفہ اعتماد کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ایران اور پاکستان کے عوام میں بہت ساری چیزیں مشترک ہیں اور دونوں اقوام کی مشترکہ تہذیب، زبان کی جڑیں، اعتقادات اور ثقافت ایک ہے۔پوری تاریخ میں ایران اور پاکستان کے تعلقات دوستانہ رہے ہیں پاکستان نے دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور کمرشل تعلقات کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا ہے مگر یران پاکستان کی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے کیونکہ پاکستان نے ایران سے قدرتی گیس کی ترسیل کے لیے 2,775 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر کے لیے جو معاہدہ کیا تھا اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے معاہدہ میں موجود جرمانے کی شق کے تحت ایران اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کر چکا ہے اور پاکستان اپنی سرزمین پر پائپ لائن کی تعمیر مکمل کرنے میں ناکامی پر یکم جنوری 2015 سے ایران کو 10 لاکھ ڈالر یومیہ ادا کرنے کا پابند ہے۔ اگر ایران کیس کو ثالثی عدالت میں لے جاتا ہے تو پاکستان کو اربوں ڈالر جرمانے کے طور پر ادا کرنے پڑیں گے۔ ایران پر عالمی پابندیوں کے طور پر پاکستان اور ایران نے اس معاہدہ پر ایک مرتبہ پھر دستخط کیے جس کے نتیجے میں منصوبہ سال 2024 تک مکمل نہ ہوا تو ایران کو حق حاصل ہوگا کہ وہ پاکستان کے خلاف 18 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ ایران اپنے حالات کو پاکستان سے خراب کر کے عالمی عدالت میں لے کر جانے کا بہانہ بنا رہا ہو۔ مگر اس سے پہلے ایران کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ عالمی طاقتیں مخالف ہونے کے علاوہ اس کے تعقات دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ مثالی نہیں ہیں۔امریکہ نے پاکستان پر ایرانی حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو اپنے اندرونی معاملات بہتر کرنے پر زور دنیا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ ایران کے اندرونی حالات بھی اس قابل نہیں کہ ہمسایوں سے بھی بگاڑ لی جائے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی ایسی کسی صورت کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ انڈیا اور افغانستان کے ساتھ پہلے ہی کشیدگی چل رہی ہے ۔پاکستان ، ایران ایک دوسرے کے ہمسایہ اور برادر اسلامی ممالک ہیں ، اسلام میں تو ہمسایوں کے ساتھ حسن سلوک اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ کیسا ہمسایا پن ہے کہ ایک مسلمان ہمسایہ ملک دوسرے ہمسایہ ملک کا مشکل وقت میں سہارا بننے کی بجائے اس کا ہی دشمن بن جائے۔
==============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC