بھارت عالمی دہشت گرد۔ بین الاقوامی روپورٹس میں انکشاف ۔

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی
============\

ai
گزشتہ ہفتہ بھارت کے مختلف ریاستوں، خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے دو خطرے ناک رپورٹس منظر عام پر آئی ہیں۔ جس میں بھارتی جمہوریت کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ایک رپورٹ میں ہیومن رائٹس واچ واشنگٹن نے گزرے سال کے دوران انسانی حقوق کا جائزہ پیش کیا جس کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ جب کہ دوسری رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی آرمی کی اقدامات کو ظلم تشدد اور بربریت قرار دیا گیا ہے ۔ ان دونوں رپورٹس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں قبضہ کو حتمی شکل دے رہا ہے جب کہ اس کے جواب میں کشمیری واضح حکمت عملی ترتیب نہیں دے رہے نہ ان کا وکیل منصوبہ بندی کر رہا ہے ۔ بھارت کی جانب سے،قبضہ کا یہ آخری اقدام کیا جا رہا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اس کے بعد اس کا کشمیر پر قبضہ کا یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔ واشنگٹن میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی حکام نے گزشتہ سال مقبوضہ جموں کشمیر میں آزادیِ اظہار ، پرامن اجتماع اور دیگر بنیادی حقوق پر مکمل پابندیاں جاری رکھیں جو گزشتہ 33 سال سے لگا رکھی ہیں۔ بھارتی فورسز نے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ 2023ء کے دوران بھی جاری رکھا۔ سیاسی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر گرفتاریوں اور چھاپوں کا سامنا رہا۔ خرم پرویز اور احسن انتو ان میں سے ایک مثال ہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بولنے کی پاداش میں جیلوں میں قید ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 22 مارچ کو کشمیری میں انسانی حقوق کے ممتاز کارکن خرم پرویز جو پہلے ہی نومبر 2021ء سے دہشت گردی کے الزامات کے تحت نظربند ہیں ، پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالا قانون یو اے پی اے کے تحت دہشت گردی کی مالی معاونت کے الزامات پر فردجرم عائد کی گئی۔ اسی روز خرم پرویز کی انسانی حقوق کی تنظیم سے وابستہ صحافی عرفان مہراج کو بھی اسی کیس میں گرفتار کیا گیا ۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بارہا خرم پرویز کی رہائی کا مطالبہ اور سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو نشانہ بنانے کے لیے کالے قانون کے استعمال کی مذمت کی ہے، لیکن بھارتی فاشسٹ ہندوتوا حکومت نے اس بین الاقوامی مطالبہ کو کبھی بھی اہمیت نہیں دی چوں کہ بھارت کی فاشسٹ ہندوتوا مودی حکومت کو امریکا کی حمایت ہے اس لیے اس نے بین الاقوامی مطالبے کو کبھی اہمیت نہیں دی۔۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال اپریل میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے 6 ماہرین نے انسانی حقوق کے علمبردار محمد احسن اونتو کی مبینہ جبری گرفتاری اور ان کے ساتھ ناروا سلوک پر بھارتی حکومت کو خط لکھا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کی نظربندی کا مقصد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خوف زدہ کرنا اور حراست میں لیکر سزا دینا ہے۔ مئی میں گروپ 20 کے سیاحتی ورکنگ گروپ کے مقبوضہ کشمیر میں منعقدہ اجلاس میں اقلیتی امورکے بارے میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے کہا تھا کہ مقبوضہ علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں لیکن اس پر بھی بین الاقوامی برادری خاص طور پر دنیا کے نام نہاد چوہدری امریکا نے اپنے بغل بچہ کو کوئی تنبیہ نہیں کی۔۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم کی رپورٹ میں مودی حکومت کی طرف سے بھارت میں اقلیتوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں پر ظلم و ستم اور تشدد سے کچلنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق مودی حکومت نے 2023ء کے دوران انسانی حقوق کا احترام کرنے والی جمہوری روایات کی پابندی نہ کر کے عالمی قیادت کی اپنی پالیسیوں اور طرز عمل سے مایوس اور اس حوالے سے ان کی خواہشات کو مجروح کیا ہے۔ جو مذہبی اور لسانی اکائیوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والے امتیازی سلوک کی وجہ سے بھارت کے لیے بدنامی کا باعث ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیرقیادت مودی حکومت نے انسانی حقوق کے کارکنوں ، صحافیوں ، اپوزیشن لیڈروں اور حکومت کے دیگر ناقدین کو بھی دہشت گردی سمیت مجرمانہ الزامات میں گرفتار کیا۔ ہیومن رائٹس واچ میں ایشیاء کی ڈپٹی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے کہا کہ بی جے پی حکومت کی امتیازی اور نفرت انگیز پالیسیوں کی وجہ سے بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی ناقدین کو خوفزدہ کرنے کے لئے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کارروائیوں میں ملوث عناصر کو احتساب کے کٹہرے میں لانے کے بجائے، حکام نے متاثرین کو سزا دینے کا انتخاب کیا۔ بھارتی حکام نے چھاپوں، مالی بے ضابطگیوں کے الزامات اور غیر سرکاری تنظیموں کی غیر ملکی فنڈنگ کو کنٹرول کرنے والے فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ کے استعمال کے ذریعے صحافیوں، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور ناقدین کو ہراساں کیا۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ فروری میں ، بھارتی ٹیکس حکام نے نئی دلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر پر چھاپے مارے جس نے ریاست گجرات میں مسلم مخالف فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے کردار سے متعلق ایک دستاویزی فلم جاری کی تھی ۔ مودی حکومت نے ملک کے انفارمیشن ٹیکنالوجی قوانین کے تحت ہنگامی اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے جنوری میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کو ہندوستان میں بلاک کر دیا تھا۔31 جولائی کو ریاست ہریانہ کے ضلع نوح میں ہندو کارکنوں کے ایک جلوس کے دوران فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا اور تیزی سے کئی ملحقہ اضلاع میں پھیل گیا۔ حکام نے مبینہ طورپر تشدد کا الزام لگا کر مسلمانوں کی سینکڑوں جائیدادوں کو غیر قانونی طور پر مسمار اور متعدد مسلمانوں کو حراست میں لیا۔ اس کارروائی پر مجبوراً پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹس کو یہ کہنا پڑا کہ بی جے پی کی زیرقیادت ریاستی حکومت “نسل کشی” میں ملوث ہے۔ اس دوران 200 سے زیادہ لوگ ہلاک ،ہزاروں بے گھر ، سینکڑوں گھر اور گرجا گھر تباہ کر دئے گئے اور کئی مہینوں تک انٹرنیٹ بند کر دیا گیا۔ مئی میں ریاست منی پور میں اکثریتی میتی اور اقلیتی کوکی برادریوں کے درمیان تشدد شروع ہوئے ۔ تشدد کے واقعات میں سو سے زائد افراد ہلااک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔ بی جے پی کے ریاستی وزیر اعلی این بیرن سنگھ نے کوکی برادری پر منشیات کی اسمگلنگ میں ملوث ہونے اور میانمار کے پناہ گزینوں کو پناہ گاہ دینے کا الزام لگا کر فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دی ۔ہیومن رائٹس واچ نے مذید کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کے دور میں، بھارت میں جمہوریت آمریت میں منتقل ہو رہی ہے ۔بھارت میں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کے انسانی حقوق کے بگڑتے ہوئے ریکارڈ پر عالمی برادری کی خاموشی نے مودی حکومت کو سرحد پار اپنے جابرانہ ہتھکنڈوں کو بڑھانے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ بھارت بیرونِ ملک مقیم کارکنوں اور ماہرینِ تعلیم کو دھمکانے اور ان کے خلاف کارروائیوں میں بھی ملوث ہے ۔بین الاقوامی دہشت گردی میں مودی حکومت کے ملوث ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے کینیڈا میں مقیم سکھ لیڈر کے قتل میں بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔جس کے بعد بھارت اور کینیڈا کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔گزشتہ سال نومبر میں امریکی حکام نے ایک اور سکھ لیڈر کے قتل کی سازش ناکام بنائی تھی اور اس سازش میں ملوث ہونے پر ایک بھارتی پر فردجرم عائد کی تھی ۔بھارت کے 76 ویں “آرمی ڈے” کے موقع پر جاری کی گئی ایک اور بین الاقوامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوجی مقبوضہ علاقے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے سے متاثرہ بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو نہتے کشمیریوں کی نسل کشی اور جرائم کی تربیت دی گئی ہے۔ علاقے میں بدنام زمانہ محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کے دوران بے گناہ لوگوں کے قتل، اغواء اور گرفتاری میں ملوث ہونے کے بعد قابض فوجیوں کے پاس آرمی ڈے منانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ متنازعہ جموں کشمیر کے علاوہ، بھارتی فورسز بھارتی ریاستوں میں بھی معصوم شہریوں کو گولیاں مار کر قتل کر رہی ہیں۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ضلع پونچھ میں حال ہی میں تین بے گناہ شہریوں کا قتل بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں بھارتی فوج نے گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران 4000 سے زائد شہریوں کو قتل کیا ہے جن میں زیادہ تر دلت، عیسائی اور مسلمان شامل ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جعلی مقابلوں میں قتل کرنا بھارتی فوج کا معمول بن چکا ہے۔ مقبوضہ جموں کشمیر کی قتل گاہوں نے بھارتی فوج کا اصل چہرہ بے نقاب کر دیا ہے جو مقبوضہ علاقے میں جعلی مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل میں ملوث ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ قابض بھارتی فوج نے 2023ء میں 41 کشمیریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا جبکہ گزشتہ 35 سال میں 96 ہزار 285 کشمیری بھارتی فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان ظالمانہ کارروائیوں پر بھارتی فوج کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ امریکا سمیت یورپی ممالک جو اپنے ملکوں میں انسانی حقوق کا بہت خیال رکھتے ہیں ذاتی مفادات کی خاطر بھارت میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر بھی خاموش ہیں یہ دورہ معیار اور قول و فیل میں کھلا تضاد ہے۔
======================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC