کیا الیکٹرک گاڑیاں پاکستان میں سموگ کا مسئلہ ختم کر دیں گی۔ الیکٹرک کار کی لائف کتنی ہوگی ؟ ایک چارج میں کتنا فاصلہ طے کرے گی ؟

پاکستان میں مختلف کمپنیاں الیکٹرک کاروں کی نمائش بھی کر رہی ہیں اور پرکشش اعلانات بھی ۔ کچھ گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی ہوئی نظر ارہی ہیں اور کچھ اور روم میں کھڑی ہیں ۔ الیکٹرک گاڑیوں کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے اور پبلیسٹی بھی زیادہ ہو رہی ہے لوگ مختلف سوالات پوچھ رہے ہیں اور انہیں اکثر سوالوں کے جواب مل بھی رہے ہیں انے والا وقت ان الیکٹرک گاڑیوں کا ہوگا اب اس میں کوئی شک نہیں ۔ دنیا کی بڑی بڑی کار کمپنیاں اب الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں بھرپور توانائی خرچ کر رہی ہیں اور ساری توجہ ای وی ٹیکنالوجی پر ہے الیکٹرک وہیکلز ہی مستقبل کی گاڑیاں ہیں اور اس کے لیے

سب کو خود کو تیار کر لینا چاہیے جو لوگ خود کو جتنی جلدی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے تیار کر رہے ہیں وہ سکھی رہیں گے اور جو لوگ ابھی ذہن بنا رہے ہیں یا ان کا ذہن ابھی الیکٹرک گاڑیوں کو قبول نہیں کر رہا انہیں ایک وقت ائے گا جب یہ احساس ہوگا کہ وہ دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں اور باقی لوگ ان سے اگے نکل گئے ہیں ۔ہر دور میں ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی میں تبدیلیاں اتی ہیں اپ جن چیزوں کو استعمال کرنے کی عادی ہوتے ہیں وہ پرانی ہونے کی وجہ سے نئی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتی ہیں صحیح ٹیکنالوجی کی وجہ سے نئی چیزیں سامنے اتی ہیں اور لوگ ان سے استفادہ کرنے لگتے ہیں اور وہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں بہت تیزی کے ساتھ الیکٹرک گاڑیاں بھی ہماری زندگی میں داخل ہو چکی ہیں اور ہوتی جا رہی ہیں اور بہت جلد منظر بدلنے والا ہے سڑکوں پر الیکٹرک گاڑیاں ہی نظر ائیں گی
=====================================

کراچی میں الیکٹرک گاڑی کی نمائش، جو ’ایک چارج میں 220 کلومیٹر‘ چلے
یہ ٹو ڈور فور سیٹر منی الیکٹرک کار ہے اور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ گاڑی ایک چارج پر ’220 کلومیٹر‘ کی رینج دے گی

کراچی میں اتوار کو گاڑیاں بنانے والی کمپنی گوگو موٹرز نے پاکستان میں الیکٹرک گاڑی نمائش کے لیے پیش کی ہے۔

گو گو موٹرز کی جانب سے اس نئی کار کو ’جی جی 220‘ کا نام دیا گیا ہے۔ کمپنی کے مطابق جلد ہی اس منی الیکٹرک کار کا لاہور اور اسلام آباد میں بھی افتتاح کیا جائے گا۔

یہ ٹو ڈور فور سیٹر منی الیکٹرک کار ہے اور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ گاڑی ایک چارج پر ’220 کلومیٹر‘ کی رینج دے گی۔

اس گاڑی کی تعارفی قیمت 46 لاکھ 50 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔

ڈائریکٹر گوگو موٹرز سمیر بن عامر انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مہنگائی کے دور میں جب پیٹرول کی قیمت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، ایسے میں یہ منی الیکٹرک کار کسی بھی فیملی کے اندرون شہر سفر کے لیے انتہائی کارآمد ہے۔

سمیر بن عامر کے مطابق یہ گاڑی چار گھنٹوں میں مکمل طور پر چارج ہو جاتی ہے اور اسے چارجنگ کے لیے کسی چارجنگ سٹیشن کے بجائے گھر، آفیس یا کسی بھی جگہ 220 واٹ کے پلگ کی مدد سے چارج کیا جاسکتا ہے۔

ان کے مطابق اس گاڑی کو چلانے کا خرچ چار روپے فی کلومیٹر ہے جبکہ اس کی ٹاپ سپیڈ 110 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔

سمیر بن عامر کے مطابق ’اگر آپ گاڑی کی سپیڈ 80 کلومیٹر فی گھنٹہ رکھتے ہیں تو ایک چارج سے 220 کلومیٹر کی رینج ملتی ہے۔ 80 کلومیٹر فی گھنٹہ سے سپیڈ زائد ہونے پر آپ کو 200 سے 190 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رینج ملے گی۔‘

کمپنی کی جانب سے اس گاڑی کی وارنٹی ایک لاکھ کلومیٹر یا تین سال دی گئی ہے جبکہ کمپنی کے مطابق گاڑی کی بیٹری لائیف آٹھ لاکھ کلومیٹر ہے۔

بیٹری کی قیمت سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے سمیر بن عامر نے کہا کہ اس وقت نئی بیٹری کی قیمت 20 لاکھ روپے ہے۔

اس نئی الیکٹرک گاڑی کے آٹو پارٹس کی مارکیٹ میں موجودگی کے سوال کے جواب میں سمیر بن عامر نے کہا کہ اس گاڑی کی موٹر اور بیٹری کی وارنٹی کمپنی دیتی ہے مگر گاڑی کی لائیٹ یا دیگر پارٹس کی ضرورت پڑنے پر کمپنی کے پاس تمام پارٹس موجود ہیں۔
https://www.independenturdu.com/node/151186
=======

پاکستان کی ’پہلی‘ الیکٹرک کار جس کا ڈیزائن ’ہاتھ‘ سے بنایا گیا
پاکستان کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے پر امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک تنظیم ڈائس فاؤنڈیشن نے کراچی میں جدید الیکٹرک کار ’نور ای-75‘ متعارف کروائی ہے۔

پاکستان کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے پر امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک تنظیم ڈائس فاؤنڈیشن نے کراچی میں رواں ماہ ایک الیکٹرک کار متعارف کروائی ہے۔

ڈائس فاﺅنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر خورشید قریشی کا کہنا ہے کہ ’اس الیکٹرک گاڑی کا ڈیزائن ہاتھ سے بنایا گیا ہے اور یہ گاڑی پاکستان میں تیار ہونے والی پہلی الیکٹرک کار ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر خورشید قریشی نے بتایا: ’اس سے پہلے پاکستان میں شاید اِکا دُکا الیکٹرک گاڑی بنی ہو، مگر اس سطح پر بننے والی یہ جدید کار ’نور ای-75‘ پاکستان کی پہلی الیکٹرک گاڑی ہے، جسے پاکستان میں بنایا گیا ہے۔‘

ڈاکٹر خورشید قریشی کے مطابق اس گاڑی کی تیاری میں مختلف اداروں اور جامعات نے مدد کی ہے۔

’گاڑی کا چارجر سرسید یونیورسٹی آف انجینیئرنگ، بیٹری پیک این ای ڈی یونیورسٹی جبکہ نیشنل کالج آف آرٹس (این سی اے) نے گاڑی کا ڈیزائن تیار کیا ہے۔‘

ان کے مطابق پانچ سیٹوں والی اس گاڑی میں سائیڈ مرر کے بجائے کیمرے لگائے گئے ہیں، جن کا منظر گاڑی کے اندر ڈرائیور کے سامنے لگی سکرینز پر دیکھا جا سکے گا۔ اس جدید گاڑی کی فروخت کے لیے بکنگ کا آغاز 2024 کے آخر میں کیا جائے گا۔

ڈاکٹر خورشید قریشی کے مطابق وائی فائی اور سکرین کے ساتھ پش بٹن سے سٹارٹ ہونے والی یہ گاڑی مکمل طور پر بجلی پر چلے گی، جو 220 وولٹ بجلی کنکشن پر آٹھ گھنٹے میں ایک ہزار روپے کے خرچ پر مکمل چارج ہو گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ یہ گاڑی ’ایک چارج کے ساتھ 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 210 کلومیٹر فاصلہ طے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

ڈاکٹر خورشید قریشی کے مطابق: ’چوںکہ اس گاڑی میں کوئی کلچ یا مینوئل گیئر نہیں ہے، لہذا اسے آٹومیٹک گاڑی کی طرح ایک بار گیئر میں ڈال کر ایکسیلیٹر کا استعمال کرنا ہوتا ہے۔‘
https://www.independenturdu.com/node/112001
==============

الیکٹرک کار کے مالکان سے پوچھے جانے والے دلچسپ سوالات
83 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات یہ معلوم ہونے کے بعد کہ وہ کیا چلاتے ہیں ان کے ارد گرد لوگوں کا رویہ مختلف ہوجاتا ہے۔
بجلی سے چلنے والی گاڑیوں کے مالکان سے پوچھے جانے والے سرفہرست 20 سوالات میں سے دو یہ ہیں کہ ’بیٹری کو چارج ہونے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘ اور ’کیا یہ پیٹرول یا ڈیزل والی گاڑی سے بہت کم رفتار ہے؟‘

500 الیکٹرک گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے ایک سروے میں معلوم ہوا ہے کہ 51 فیصد پر سوالات کی بوچھاڑ ہو جاتی تھی جب وہ یہ انکشاف کرتے تھے کہ وہ بیٹری سے چلنے والی گاڑی چلاتے ہیں۔ کچھ سے یہ پوچھا گیا کہ ’کیا آپ کو اب اپنے سفر کی منصوبہ بندی زیادہ احتیاط سے کرنی پڑتی ہے؟‘

’کیا آپ اب کار کے طویل سفر پر نہیں جاتے؟‘ یہ بھی ایک مقبول سوال تھا جس کا ان ڈرائیوروں کو سامنا کرنا پڑا۔

83 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ بعض اوقات یہ معلوم ہونے کے بعد کہ وہ کیا چلاتے ہیں ان کے ارد گرد لوگوں کا رویہ مختلف ہوجاتا ہے۔

تاہم 78 فیصد نے ای وی رکھنے سے پہلے غلط فہمی پر یقین کرنے کا اعتراف کیا، جسے اب وہ جانتے ہیں کہ وہ سچ نہیں تھا۔

گاڑیوں میں مختلف ساکٹوں سے متعلق سب سے زیادہ غلط فہمیاں 39 فیصد لوگوں کے ذہنوں میں ہیں اور 34 فیصد لوگوں کے ذہنوں میں سوال ہے کہ یہ بھی کہ کیا بجلی کا گرڈ اس سے نمٹنے کے قابل ہے اگر تمام لوگ اپنی گاڑیوں کو بیک وقت چارج کریں۔

دیگر 37 فیصد کا خیال تھا کہ ای وی میں زیادہ سفر نہیں کیا جاسکتا ہے اور 34 فیصد سمجھتے ہیں کہ انہیں چارج ہونے میں کافی وقت لگتا ہے۔

تاہم، 79 فیصد افراد کے خیال میں مزید پبلک چارجنگ پوائنٹس کی ضرورت بھی سامنے آئی جب کہ 63 فیصد کو اپنی کار ری چارج کرنے کے لیے سفر کے درمیان رکنا پڑا۔

سروے کرنے والے برٹش گیس کے نیٹ صفر کے سربراہ ہینری ڈف نے کہا: ’ای وی کو اپنانے کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے کیوں کہ زیادہ ڈرائیوروں کو الیکٹرک پر منتقل ہونے کی پوری صلاحیت کا احساس ہوتا ہے۔

’پھر بھی، جیسے جیسے ای ویز کی مانگ میں تیزی آتی جاتی ہے، ہمیں یہ بات یقینی بنانی ہوتی ہے کہ برطانیہ میں چارجنگ نیٹ ورک ڈرائیوروں کے لیے چارجنگ پوائنٹس تک رسائی قابل بھروسہ اور آسان بنائی جائے جنہیں چلانے میں دقت نہ ہو۔

’اگر ہم محتاط نہیں رہے تو، ہم زیادہ سے زیادہ گاڑی چلانے والوں کو ای وی کو اپنانے کی ترغیب دینے کے لیے کی گئی اچھی پیش رفت کو روک سکتے ہیں۔‘

سٹیرنگ وہیل کے پیچھے اپنی عادات کے بارے میں بات کرتے ہوئے، 82 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ توانائی بچانے کے لیے عام طور پر رفتار کی حد سے نیچے گاڑی چلاتے ہیں۔ اور اوسط ڈرائیور نے ڈیزل یا پیٹرول والی گاڑی چلانے کے مقابلے میں اپنی رفتار 15 فیصد کم رکھی۔

سروے میں بتایا گیا کہ ایک تہائی یعنی 37 فیصد افراد اب اس بات سے زیادہ آگاہ تھے کہ ان کی ماحول دوست کار کی وجہ سے منزل تک پہنچنے میں کتنے کلومیٹر آتے ہیں۔

اسی طرح کے تناسب سے 35 فیصد لوگوں نے اپنی بیٹری کو 20 سے 80 فیصد کے درمیان چارج رکھا اور چارجنگ سٹاپس کو شامل کرنے کے لیے طویل سفر کا محتاط انداز میں منصوبہ بنایا۔

رائے شماری میں شامل افراد نے کہا کہ جب وہ آواز نکالے بغیر گاڑی کو سٹارٹ کرتے ہیں تو مسافر مختلف ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

ون پول کے ذریعے کیے گئے اس سروے میں یہ بھی پایا گیا کہ 73 فیصد ای وی ڈرائیوروں کا خیال ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چوں کہ ان کے پاس بہت الیکٹرک گاڑی لہذا وہ زیادہ ڈسپوزایبل آمدن رکھتے ہیں۔

مسٹر ڈف نے مزید کہا: ’ای وی پر سوئچ کرنے کے لیے آپ کے چلانے کے طریقے سے لے کر گاڑی کو ایندھن بھرنے اور اس کی دیکھ بھال کے طریقے تک ذہن کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ سست رفتار سے گاڑی چلانا ایک عام عادت ہے جو نئے تبدیل شدہ ای وی ڈرائیورز اپناتے ہیں۔ یہ توانائی کی کھپت کو کم رکھنے میں مدد دیتی ہے، بیٹری کی حد کو بڑھاتی ہے اور آپ کو زیادہ دیر تک آگے جانے کی اجازت دیتی ہے۔

’بہت سے گاڑی چلانے والے اب بھی پیٹرول سے الیکٹرک میں تبدیل ہونے کے بارے میں محتاط رہیں گے، یہی وجہ ہے کہ یہ اتنا ضروری ہے کہ پالیسی ساز برطانیہ کے چارجنگ انفراسٹرکچر کے رول آؤٹ کو تیز کر کے اور ای ویز کو سستا بنانے کے لیے مراعات فراہم کرتے ہوئے بغیر کسی رکاوٹ کے الیکٹرک میں منتقلی کو جاری رکھیں۔‘

الیکٹرک گاڑی کے مالکان کے لیے سب سے عام سوالات

کیا آپ اپنی گاڑی گھر پر چارج کرتے ہیں؟
بیٹری کو چارج کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے؟
کیا ایسا کبھی ہوا جب آپ کو اپنی گاڑی چارج کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملی؟
کیا آپ کو کبھی اس بات کی فکر ہے کہ گاڑی چلاتے وقت آپ کی بیٹری ختم ہو جائے؟
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اب آپ کو اپنے سفر کی منصوبہ بندی زیادہ احتیاط سے کرنی ہے؟
کیا آپ پاور کیبل کو عام تھری پن پلگ ساکٹ میں لگا سکتے ہیں؟
کیا چارج کرنا مشکل ہے؟
کیا بیٹری کم ہونے پر کار آہستہ چلتی ہے؟
کیا یہ روایتی طور پر ایندھن سے چلنے والی گاڑی سے بہت سست ہے؟
اگر آپ کی گاڑی خراب ہو جائے تو آپ کس کو فون کریں گے؟
کیا آپ اب کار کے طویل سفر پر نہیں جاتے؟
کیا آپ بجلی کی ادائیگی کرتے رہتے ہیں اگر گاڑی کی بیٹری بھری ہو لیکن پھر بھی چارج ہو رہی ہو؟
کیا کار واش سے گزرنا محفوظ ہے؟
کیا لوگ آپ کو گاڑی کے باہر بہتر طور پر سن سکتے ہیں کیوں کہ انجن کا شور نہیں ہے؟
کیا آپ کو ایک الگ ڈرائیونگ لائسنس کی ضرورت ہے؟
کیا اسے اب بھی ایم او ٹی کی ضرورت ہے؟
بارش ہونے کے باوجود کیا آپ اپنی گاڑی کو چارج کر سکتے ہیں؟
کیا آپ کو ہر پانچ سال بعد اپنی بیٹری تبدیل کرنے کی ضرورت ہے؟
وہ کس سائز کی بیٹریاں لیتے ہیں؟
کیا آپ بارش میں اپنی گاڑی چلا سکتے ہیں؟
© The Independent
==========================================

کیا 2024ء جرمن کار انڈسٹری کے لیے تبدیلی کا سال ہوگا؟
14.01.202414 جنوری 2024
جرمن کار ساز کمپنیاں الیکٹرک کاروں کے مسابقتی دور میں اپنے حریفوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جانے کے خدشے سے دوچار ہیں۔ کیا یورپ میں گاڑیوں کی تیاری کے لیے مشہور جرمن کمپنیاں نئے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟

جرمنی کی فیڈرل موٹر ٹرانسپورٹ اتھارٹی (کے بی اے) کی جانب سے جاری کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق ملک میں الیکٹرک کاروں کا مارکیٹ شیئر ماضی کے دس سالوں میں 0.02 فی صد سے بڑھ کر2.08 فی صد تک پہنچ گیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اب جرمنی میں ہر پچاسویں گاڑی مکمل طور پر بجلی کی طاقت پر چل رہی ہے۔

اس رحجان کا خیر مقدم کیا جا سکتا ہے لیکن اب بھی اس یورپی ملک میں تقریباً 98 فی صد گاڑیاں قدرتی ماحول کے لیے ضرررساں ایندھن یعنی فاسل فیول والے انجنوں پر ہی چلتی ہیں۔ اس لیے ہر نئی تیار ہونے والی الیکٹرک گاڑی کا جشن منایا جائے یا پھر روایتی یا “حقیقی کار” چلانے کی حمایت کی جائے، عام سوچ جو بھی ہو، یہ توقع ضرور رکھنی چاہیے کہ الیکٹرو موبیلٹی جاری رہے گی۔

مانگ میں کمی کی وجہ سے کرسمس کے موقع پر فاکس ویگن کے ایک پلانٹ پر پانچ ہفتوں کے لیے الیکٹرک کاروں کی پیداوار مکمل طور پر روک دی گئیتصویر:
اب جرمنی کی آٹو موبائل انڈسٹری، جو کہ جرمن معیشت کا ایک اہم ستون ہے، کے حوالے سے ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ مستقبل کے لئے تیار ہے؟

جرمنی دوسروں سے پیچھے
جرمنی اس وقت الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال یا ای موبیلٹی میں سب سے آگے نہیں ہے۔ ڈیوسبرگ-ایسن یونیورسٹی میں آٹوموٹیو اکنامکس کے سابق پروفیسر اور اب ایک آزاد مشیر فرڈینینڈ ڈیوڈن ہوفر کہتے ہیں، ”وزیر اقتصادیات رابرٹ ہابیک نےاسکریپج اسکیم بونس) شہریوں کو پرانی گاڑیاں ترک کر کے نئی خریدنے کے لیے حکومتی مالی اعانت) میں مسلسل کمی لاتے ہوئے جرمنی میں الیکٹرک کاروں کو عام کرنے کے عمل پر بریک لگا دی ہے۔‘‘ہوفر کے مطابق نئے سال میں جرمنی میں الیکٹرک کاروں کا مارکیٹ شیئر کم ہو جائے گا اور ان کے خیال میں یہ کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔

اس سابق پروفیسر کا کہنا ہے کہ چین کی آٹو انڈسٹری اگلے سال دو سے تین گناہ زیادہ ترقی کرے گی۔

جرمنی میں اٹھارہ دسمبر سے الیکٹرک گاڑی کی خریداری کے لیے سبسڈی کے حصول کی درخواست دینا ممکن نہیں رہا۔ جرمن حکومت کی جانب سے الیکٹرک گاڑیوں پر طے شدہ سبسڈی وقت سے پہلے بند کرنے کی وجہ جرمن آئینی عدالت کا وہ حالیہ فیصلہ ہے، جس نے حکمران اتحادی جماعتوں کو حکومتی اخراجات میں کفایت شعار ی پر مجبور کر دیا ہے۔

الیکٹرک کاروں میں چین نے جرمنی کو بھی مات دے دی
سینٹر آف آٹوموٹیو مینجمنٹ کے سربراہ شٹیفان بریٹزل بھی حکومت کے اس اقدام پر مایوس ہیں۔ ان کے مطابق ”جرمنی، یورپ اور چین کے درمیان الیکٹرو موبیلیٹی کی دوڑ پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔‘‘ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا،”جرمن حکومت اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔‘‘

حکومت کے جائزے کے مطابق جرمنی میں 2030 تک تقریباً 15 ملین الیکٹرک گاڑیاں سڑکوں پر آ جائیں گی۔

‘ناامیدی کا احساس‘
بریٹزل کا ماننا ہے کہ جرمن کار کمپنیاں ٹیسلا اور چینی کمپنیوں جیسے بڑے کھلاڑیوں کے مقابلے میں الیکٹرک کاروں کی تیاری تاخیر سے شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اس بارے میں ضروری توجہ دینے میں ناکام رہی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جرمنی کو بیٹری سازی کی ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دینے کی بھی سخت ضرورت ہے۔

ڈیوڈن ہوفر نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ چین کو جرمنی پر واضح برتری حاصل ہے کیونکہ ان کے بقول جرمنی میں سرکاری سطح پر الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری میں سرمایہ کاری میں کمی لائی جا رہی ہے جبکہ چینی حکومت اس میں اضافہ کر رہی ہے۔ ان کے مطابق، ”حالات 2025 ء کے بعد اس وقت مزید سخت ہو جائیں گے، جب چینی الیکٹرک کاروں کا عالمی مارکیٹ پر غلبہ ہو گا۔”

جرمنی کا چینی الیکٹرک گاڑیوں پرانحصار
ڈیوڈن ہوفر کے مطابق رواں سال تیس نومبر کو مرسیڈیزبینز اور بی ایم ڈبلیو نے چین میں فاسٹ چارجنگ اسٹیشنوں کا ایک مشترکہ نیٹ ورک قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جو کہ ہوفر کے بقول ایک مثبت پیش رفت ہے۔

جرمنی میں فوکس ویگن کی پہلی برقی کار
چین کے پاس الیکٹرک کاروں کے مارکیٹ شیئرکا تقریباً 40 فیصد حصہ ہے اور ڈیوڈن ہوفر سمجھتے ہیں کہ جرمنی کا الیکٹرک کاروں میں استعمال ہونے والی بیٹریوں کی ترقی اور پیداوار میں چین پر بے حد انحصار خطرناک ہے مگر اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

جرمنی: پیداوار میں کمی
جرمن کار سازپہلے ہی گاڑیوں کی مانگ میں سست روی کا شکار ہیں۔ رہیڈرلانڈ نامی جرمن اخبار نے اپنی ایک خبر میں انکشاف کیا ہے کہ فوکس ویگن کے پلانٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار موسم گرما کے شروع سے ہی سست روی کا شکار تھی جبکہ کرسمس کے دوران پانچ ہفتوں کے لیے یہ پیداوار مکمل طور پر روک دی گئی۔ گاڑیوں کے بیشتر پرزے تیارکرنے والی مشہور جرمن کمپنی بوش نے اس صورت حال کے پیش نظر دس دسمبر کو اعلان کیا کہ جلد ہی 1500 ملازمتیں ختم کر دی جائیں گی۔

ڈیرک کاؤفمن (م ق⁄ ش ر)
=========================================

پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت 20 سال کی کم ترین سطح تک کیوں پہنچی اور 2024 میں بہتری کے کتنے امکانات ہیں؟

موجودہ مالی سال کے پہلے چھ ماہ (جولائی 2023 سے دسمبر 2023 تک) پاکستان میں مجموعی طور پر صرف ساڑھے 39 ہزار کاریں فروخت ہوئیں

مصنف,تنویر ملک
14 جنوری 2024
لگ بھگ ڈیرھ سال قبل جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میں پاکستان میں گاڑیوں کی مجموعی فروخت میں ریکارڈ 55 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا اور صرف جون 2002 میں ساڑھے 23 ہزار سے زائد کاریں فروخت ہوئی تھیں۔

تاہم ڈیڑھ سال بعد 31 دسمبر 2023 تک اس شعبے کی کارکردگی بالکل برعکس منظر پیش کرتی ہے۔ جون 2022 میں صرف ایک مہینے میں ساڑھے 23 ہزار سے زائد گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں تاہم اگر موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں کاروں کی فروخت کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ملک میں مجموعی طور پر صرف ساڑھے 39 ہزار کے لگ بھگ کاریں فروخت ہوئی ہیں۔

دسمبر 2023 میں ملک میں فروخت ہونے والی کاروں کی تعداد محض 5800 تھی۔

گاڑیاں بنانے والا شعبہ، جو آٹو سیکٹر کہلاتا ہے، کی کارکردگی میں بھی گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بہت تیزی سی تنزلی دیکھی گئی۔ آٹو سیکٹر کے ماہرین ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کو آٹو شعبے کی اِس بُری کارکردگی کی وجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس شعبے میں فروخت 20 سال کی کم ترین سطح تک آ گئی ہے۔

یہ ماہرین سنہ 2024 میں بھی آٹو سیکٹر کی کارکردگی کے بارے میں بھی زیادہ پُرامید نہیں ہیں اور اس شعبے کے مزید متاثر ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔

پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت کے اعداد و شمار کیا ہیں؟

رواں مالی سال کا مقابلہ گذشتہ مالی سال سے کیا جائے تو پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں 53 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے

پاکستان میں گاڑیوں کے فروخت کے اعداد و شمار پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) جاری کرتا ہے، جو ملک میں گاڑیاں بنانے والے کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔

پاما کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ، یعنی جولائی 2023 سے دسمبر 2023 تک، کے دوران ملک میں کاروں کی مجموعی فروخت 39454 رہی جو گذشتہ مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں 84116 کی سطح پر تھی، یعنی سادہ الفاظ میں اگر رواں مالی سال کا مقابلہ گذشتہ مالی سال سے کیا جائے تو گاڑیوں کی فروخت میں 53 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں چھوٹی (1000 سی سی سے کم) اور بڑی (1000 سی سی سے زیادہ) دونوں گاڑیوں کی فروخت میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح ملک میں موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی فروخت میں بھی ان چھ مہینوں میں 14 فیصد کی کمی دیکھی گئی جو 627835 سے گر کر 541821 رہ گئی ہے۔

اسی طرح ملک میں ٹرکوں اور بسوں کی فروخت بھی اسی چھ ماہ کے دورانیے میں 1947 سے کم ہو کر 982 رہ گئی ہے۔ آٹو شعبے میں صرف ٹریکٹر کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیا اور ان کی فروخت سو فیصد سے زائد اضافے کے بعد 11513 سے بڑھ کر 23411 ہو گئی ہے۔

گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟
آٹو سیکٹر سے منسلک ماہرین اس کی بڑی وجہ ملک کی مجموعی معاشی کارکردگی کو قرار دیتے ہیں۔

آٹو شعبے کے ماہر مشہود علی خان نے اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس شعبے کی کارکردگی میں تنزلی کی سب سے بڑی وجہ تو ملک میں زرمبادلہ ذخائر کی کمی تھی کیونکہ درآمدات کے لیے ڈالرز ہی نہیں تھے تو اس شعبے کے لیے بیرون ملک سے خام مال کی درآمد شدید متاثر ہوئی ہے اور ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے ملک میں گاڑیوں کی پیداوار بُری طرح متاثر ہوئی ۔

انھوں نے کہا ایک جانب ایل سیز نہ کھلنے سے پیداوار متاثر ہوئی تو دوسری جانب سٹیٹ بینک نے آٹو فنانسنگ کے لیے بھی ایک حد مقرر کر دی۔ مرکزی بینک نے گاڑی کی بینک سے خریداری کے لیے صرف تیس لاکھ روپے کی فنانسنگ کی اجازت دی جس نے اس شعبے میں فروخت کو متاثر کیا کیونکہ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں گاڑیاں بینکوں سے قرض لے کر خریدی جاتی ہیں۔

مشہود علی کے مطابق دوسری جانب سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے نے بھی اس شعبے کو بُری طرح متاثر کیا کیونکہ سٹیٹ بینک کی جانب سے 22 فیصد شرح سود کے بعد بینکوں کا مجموعی شرح سود 25 فیصد ہو جاتا ہے، اور اتنے زیادہ شرح سود کے بعد صارفین کے لیے بینک سے گاڑی خریدنا مشکل ہو گیا جس نے فروخت کو متاثر کیا۔

مشہود نے کہا دوسری جانب گذشتہ ایک، ڈیڑھ سال میں ملک میں مہنگائی کی شرح تواتر کے ساتھ بڑھی جس نے عام آدمی اور متوسط طبقے کے لوگوں کی قوتِ خرید کو متاثر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان وجوہات کے باعث ہی آج حالات یہ ہیں کہ ملک میں گاڑیوں کی فروخت کا حجم بیس سال کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبد الوحید خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایکسچینج ریٹ کے زیادہ ہونے اور ڈالر کی قلت نے اس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا کیونکہ ایک جانب خام مال درآمد کرنا مسئلہ بنا رہا تو دوسری جانب ڈالر کی قیمت بھی بہت زیادہ رہی۔

رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت گذشتہ 20 سال کی کم ترین سطح پر رہی ہے

پاکستان میں کار ساز شعبہ 2023 میں کن مسائل کا شکار رہا؟
پاکستان میں 2023 گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانے اور یونٹ بہت سے مسائل کا شکار رہے جس میں اِن پلانٹس کی بار بار بندش یا ان کا اپنی پیداواری صلاحیت سے کم پر کام کرنا تھا۔

پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبد الوحید خان کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ درآمد پر پابندیاں تھیں جس کی وجہ سے گاڑیاں تیار نہیں ہو رہی تھیں، کیونکہ انھیں تیار کرنے کے لیے درکار خام مال ہی دستیاب نہیں تھا، اور اس کی وجہ سے پلانٹس میں کام شدید طور پر متاثر ہوا۔

’ایک چارج میں 1200 کلومیٹر‘: ٹویوٹا کا حیرت انگیز دعویٰ کیا الیکٹرک کار کی بیٹری کا مسئلہ حل کر دے گا؟
7 جنوری 2024
گاڑی خریدنے کے لیے دنیا کا سب سے مہنگا ملک سنگاپور جہاں صرف دس لاکھ افراد کے پاس ذاتی گاڑیاں ہیں
5 اکتوبر 2023
سال 2023 میں پاکستان میں کام کرنے والی کار ساز کمپنیوں جیسا کہ انڈس موٹرز، پاک سوزوکی اور ہنڈا اٹلس کی جانب سے وقفے وقفے سے پلانٹس بند کرنے کے اعلانات کیے گئے اور اس کی بنیادی وجہ درکار خام مال کی کمی کو قرار دیا گیا۔

مشہود علی خان نے ا س سلسلے میں بتایا کہ پلانٹس کی بندش سے ان کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کیسے منفی طور پر متاثر ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے سال 2023 میں ان کارخانوں نے صرف 136 دن یعنی ساڑھے چار مہینے کام کیا جبکہ بیشتر اوقات یہ بند رہے۔

کراچی میں رہنے والے چالیس سالہ عظیم بیگ کار کمپنیوں کو آٹو پارٹس فراہم کرنے والی ایک فیکٹری میں گذشتہ دس سال سے ملازم تھے۔ چھ مہینے پہلے انھیں اس وقت ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے جب فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے 70 کے قریب ملازمین کو اس بنیاد پر نکالا گیا کیونکہ فیکٹری کی ’سیلز کم ہو گئی تھیں‘اور کام کا حجم بہت کم رہا گیا۔

عظیم بیگ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کوالٹی چیکنگ کے شعبے میں کام کرتے تھے اور ان کی پوری فیکٹری میں ملازمین کے تعداد ڈیڑھ سو سے زائد تھی، جن میں تقریباً آدھے یعنی ستر کے قریب ملازمت سے فارغ ہو گئے۔

سال 2023 میں گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانوں کی بندش اور کم گاڑیوں کی فروخت نے اس شعبے اور اس سے منسلک دوسرے شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا جس میں آٹو ونڈرز کا شعبہ بھی ہے جو گاڑیاں بنانے کےلیے پرزے اور دوسرا خام مال فراہم کرتا ہے۔

مشہود علی خان نے بتایا کہ آٹو شعبے کی منفی کارکردگی کا سب سے پہلا اثر تو ان کارخانوں میں کام کرنے والے ان ملازمین پر پڑا جو ڈیلی ویجز (یومیہ اجرت) پر کام کر رہے تھے۔ پلانٹس کی بار بار بندش سے ان ڈیلی ویجز ملازمین کا کام ٹھپ ہو گیا کیونکہ جب گاڑیاں تیار ہی نہیں ہو رہی ہوں گی تو انھیں روزانہ کی بنیاد پر اجرت کیسے مل سکتی تھی۔

مشہودنے بتایا کہ گاڑیاں بنانے والے کارخانوں کے ساتھ ایک پوری ونڈر انڈسٹری وابستہ ہے۔ انھوں نے کہا اس انڈسٹری میں چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹس ہوتے ہیں جو پرزے اور دوسرا سامان فراہم کرتے ہیں جو گاڑیاں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ مشہود نے بتایا کہ کئی چھوٹی کمپنیوں کو گذشتہ سال کام بند کرنا پڑا اور وہاں سے ملازمین فارغ ہوئے ۔ مشہود نے بتایا کہ اچھے وقتوں میں آٹو شعبے اور اس سے منسلک صنعتی شعبوں میں برسرروزگار افراد کی تعداد پچیس لاکھ ہوتی تھی جو اب کم ہو کر سولہ لاکھ رہ گئی ہے۔

کار پلانٹ بند ہونے اور گاڑیوں کی کم فروخت کے باعث کیا پاکستانی معیشت کو کسی قسم کا نقصان پہنچا؟
پاکستان کے آٹو شعبے کی گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے کے دوران خراب کارکردگی کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کے بارے میں مشہود علی خان نے کہا یہ شعبہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چند بڑے شعبوں میں آتا ہے اور جب اس میں مندی کا رجحان غالب ہو تو سب سے بڑا نقصان تو ملکی معیشت کی گروتھ میں ہوا کہ جی ڈی پی میں اس حصہ کم ہو گیا جبکہ دوسری جانب حکومت کو اس شعبے سے ملنے والے ریوینیو میں بھی کمی ہوئی۔

مشہود نے کہا اس کا سب سے زیادہ نقصان بیروزگاری کی صورت میں پیدا ہوا کہ جہاں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین خاص کر ڈیلی ویجرز کام سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ اس سے منسلک صنعتی یونٹس بند ہو گئے۔

معاشی امور کے ماہر شہریار بٹ نے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کےبارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس شعبے میں منفی گروتھ سے سب سے بڑا نقصان تو بیروزگاری کی صورت میں ہوا کہ بہت سارے لوگ جو ناصرف کار پلانٹس اور آٹوپارٹس فیکڑیوں میں ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ اس کے ساتھ ایسے افراد جو نئی گاڑیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں ان کے لیے معاشی نقصانات بے پناہ ہوئے۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ اعداد و شمار تو دستیاب نہیں مگر انڈسٹری میں کام بند ہونے سے اس کا ملکی اکانومی کی ترقی پربھی منفی اثر پڑا۔

کیا 2024 میں گاڑیاں تیار کرنے کے شعبے میں کوئی بہتری پیدا ہو سکتی ہے؟
سال 2023 میں آٹو شعبے کی کارکردگی منفی رہی اور نئے سال یعنی 2024 میں اس شعبے کی کارکردگی کے بارے میں بھی آٹو سیکٹر کے ماہرین زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔

عبد الوحید نے اس سلسلے میں کہا اس شعبے کی کارکردگی پوری معیشت سے جڑی ہوئی ہے اور اگر رواں برس پاکستانی معیشت میں کوئی بہتری نمودار ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ یہ شعبہ بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ انھوں نےکہا بین الاقوامی سطح پر شپنگ کمپنیوں کے کرائے بڑھ گئے ہیں جو خام مال کو مہنگا بنا رہے ہیں، تو دوسری جانب ملکی سطح پر ڈالر مہنگا ہے جو گاڑیوں کی لاگت میں اضافہ کر رہا ہے، ایسے میں اس شعبے کے لیے صورتحال کوئی زیادہ حوصلہ افزا نظر نہیں آتی ہے۔

مشہود علی خان بھی سال 2024 کو آٹو شعبے کے لیے مشکل قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ شرح سود دسمبر 2024 تک نیچے آئے گا جب سال نکل چکا ہو گا، ایسی صورتحال میں آٹو فنانسنگ مہنگی رہے گی اور دوسری جانب ملک میں زرمبادلہ ذخائر کی صورتحال بھی زیادہ اچھی نہیں کہ کسی بہتری کی امید کی جا سکے۔

متعلقہ عنوانات
کاروں کی صنعت
معیشت
پاکستان
افراطِ زر
کاروبار
بےروزگاری

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC