پی ٹی آئی سے بلا چھن گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام انتخابات ابھی سے متنازعہ

تجزیہ: رستم جمالی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سپریم کورٹ سے وہ ہی فیصلہ آ یا جو متوقع تھا پشاور ہائی کا تحریک انصاف کے حق میں
آ نے والا فیصلہ کالعدم قرار دے کرپاکستان تحریک انصاف سے بلا واپس لے لیا گیا سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف سے بلا واپس لے لیا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا اور پاکستان تحریک انصاف سے ملک میں ہونے والے الیکشن سے 25 دن پہلے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا اور یوں پاکستان تحریک انصاف ملک کی سب سے بڑی جماعت ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت الیکشن سے آؤٹ ہو گئی پاکستان تحریک انصاف کے لوگ الیکشن لڑیں گے مگر آزاد حیثیت سے اور مختلف سمبل سے مختلف انتخابی نشانات پر الیکشن لڑیں گے الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے الیکشن صحیح نہیں ہوئے الیکشن کمیشن نے اپنا یہ فیصلہ 70 دن فیصلہ محفوظ رکھ کر سنایا تحریک انصاف تمہارے الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تحریک انصاف نے دوبارہ الیکشن کروائے الیکشن کمیشن نے دوبارہ کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے اور پھر 45 سوالوں پر سوال نامہ تھما دیا اور ان سوالوں کے جب جب جواب دیے تو پھر کہا کہ ہم مطمئن نہیں ہوئے اور الیکشن کالعدم بلا پشاور ہائی کورٹ ہائی کورٹ نے ریلیف دیا تو الیکشن کمیشن پشاور ہائی کورٹ پہنچا پھر وہاں سے ریلیف ختم ہوا اسٹے آرڈر ختم ہوا پھر دوبارہ پاکستان تحریک انصاف پشاور ہائی کورٹ گئی وہاں سے ریلیف ملا بلا واپس ملا تو الیکشن کمیشن سپریم کورٹ پہنچ گیا اور کل رات گئے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چھ گھنٹے سے محفوظ فیصلہ سنا دیا پاکستان تحریک انصاف سے بلا واپس لے لیا 13 گھنٹے سماعت ،چھ گھنٹے فیصلہ محفوظ رہا دو دن سماعتیں ہوئیں اور دونوں دن تمام وکیلوں کا ٹائم نکال دیں تو سب سے زیادہ بولے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ ججز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے فیصلے بولتے ہیں لیکن دو دن مسلسل بولے فائز عیسی قاضی صاحب اور فائض عیسی قاضی صاحب کو دیکھ کے لگ رہا تھا کہ وہ جج بھی ہیں اور الیکشن کمیشن اور اکبر ایس بابر کے وکیل اور باقی 14 لوگ جو تحریک انصاف کے خلاف پٹیشنلرتھے لگ رہا تھا کہ وہ ان کے بی ہاف پر بھی کیس لڑ رہے ہیں 100 جنم بھی لے کر ائیں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل یا الیکشن کمیشن کے وکیل یا ایس اکبر اس بابر کے وکیل تو اتنا اچھا کیس نہیں لڑ سکتے جتنا اچھا کیس لڑا فائز عیسیٰ قاضی صاحب نے میں لڑا سپریم کورٹ میں کہیں انصاف ہوتا نظر نہیں آ یا شروع سے
آ خر تک سماعت سے لگ پتہ گیا تھا کہ فیصلہ کیا ہونا ہے پوری اضطراب کا شکار رہی
چیف جسٹس کبھی کہتے تھے لیٹر دکھا دیں کبھی کہتے تھے کاغذ کے ٹکڑوں سے کچھ نہیں ہوتا اور پھر کاغذ پہ کاغذ مانگتے رہے پیسوں کی رسیدیں مانگتے رہے ایک پوائنٹ پر چیف جسٹس نے کہا اپ نے 14 افراد کو پارٹی الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی ظفر نے کہا کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی تو یہ سول کورٹ جا سکتے ہیں کیونکہ الیکشن ایکٹ میں ہے کہ یہ سول کورٹ جا سکتے ہیں اصل جمہوریت چاہیے لولی لنگڑی جمہوریت نہیں چیف جسٹس صاحب نے کہا پاکستان تحریک انصاف میں اصل جمہوریت چاہیے لولی لنگڑی جمہوریت نہیں چاہیے چیف جسٹس صاحب کو مسلم لیگ کی جمہوریت نظر نہیں ائی لولی لنگڑی پیپلز پارٹی کی لولی لنگڑی جمہوریت نظر نہیں ائی مولانا صاحب کی جماعت کی لولی لنگڑی جمہوریت نظر نہیں آئی پاکستان میں جو لولی لنگڑی جمہوریت ہے وہ نظر نہیں آئی وہ صرف تحریک انصاف کی لولی لنگڑی جمہوریت پر نظر رکھ کے بیٹھے تھے کہ تندرست جمہوریت دو بہت بہت بار کہا علی ظفر نے کہ انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے روکا نہیں جا سکتا الیکشن ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن اسکروٹنی اور انہیں کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان روکنے کا اختیار نہیں الیکشن کمیشن کسی بھی بہانے سے الیکشن پارٹی الیکشن کالعدم قرار نہیں دے سکتا اور نہ ہی انتخابی نشان روک سکتا ہے لیکن نہیں بات مانی گئی پشاور ہائی کورٹ نے لکھا علی ظفر نے بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ہمارے حق میں لکھا ہے کہ یہ اختیار ہی نہیں الیکشن کمیشن کا کہ بلاواپسلے ان کا غیر قانونی عمل ہے الیکشن ایکٹ میں یہ ہے ہی نہیں الیکشن کمیشن ایسا نہیں کر سکتا لیکن سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ کالعدم قرار دے دیا انٹرا پارٹی الیکشن صرف سول کورٹ میں چیلنج ہو سکتے تھے یہ علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں کہ خود فیصلہ بھی کرے اور خود ہی اپیلیں بھی کرے بہت اہم پوائنٹ تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ خود ہی عدالت بن جائے اور جب دوسرا عدالت میں معاملہ چلا جائے تو اس کے خلاف بھی جا کے اپیل کرے لیکن چیف جسٹس صاحب نے کہا نہیں وہ آئینی باڈی ہے وہ کہیں بھی جا سکتی ہے کچھ بھی کر سکتی ہے ایک موقع پر بڑا مزے کا پوائنٹ آیا کہ
بلا مقابلہ اپ کے امیدوار منتخب ہو گئے بھلا ایسے بھی ہوتے ہیں چیف جسٹس فائز عیسیٰ قاضی صاحب بھول گئے کہ مسلم لیگ نون کے سارے لوگ بلا مقابلہ ہوئے اور مسلسل ہوتے آ رہے ہیں پیپلز پارٹی کے بلا مقابلہ مولانا صاحب کے بلا مقابلہ تحریک انصاف کا جو وقت چل رہا ہے وہ تحریک انصاف مشکل ترین وقت ہے بلا واپس لئے جانے سے عام انتخابات کی حیثیت صفر ہو کر رہ گئی ہے جھرلوں الیکشن کو قوم کبھی قبول نہیں کرے گی تحریک انصاف کو اس طرح الیکشن سے باہر کرنے کے ناصرف بہت برے اثرات مرتب ہوں گے بلکہ ملک عدم استحکام کا بھی شکار ہو سکتا ہے
=========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC