نمونیا کی ویکسین جوئے شیر

نمونیا کی ویکسین جوئے شیر

گزشتہ دنوں احمد کے چھوٹے بیٹے کو سانس لینے میں تکلیف ہوئی اور وہ اسے لے کر چلڈرن ہسپتال پہنچا جہاں ڈاکٹروں نے اس کا چیک کرنے کے بعد نمونیہ تشخیص کیا یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر جب نمونیہ کی ویکسین کی باری آئی تو ہزار منت کرنے کے بعد بھی ہسپتال میں نہ مل سکی ،احمد نے کافی تگ و دو کے بعدا پنے رشتہ دار سے پیسے پکڑے اور بازار سے چار گنا زائد قیمت پر ویکسین لے کر بچے کو لگائی جس کے بعد اس خاندان کی مشکلات کم ہوئیں اس واقعہ کے بعد میں نے اپنے طور پر مختلف ہسپتالوں میں نمونیہ کی ویکسین بارے دریافت کرنا شروع کیا تو مجھے حیرت کا جہاں ملا کہ ویکسین نایاب ہے اور اوپن مارکیٹ میں کئی گنا زیادہ قیمت پر مل رہی ہے اسی دوران جنوری کے پہلے ہفتےمیں سردی نے اپنا رنگ جمایا تو ہسپتالوں میں بچوں کے وارڈز بھرنا شروع ہوئے زیادہ تر ایسے بچے ہی رپورٹ ہورہے تھے جو سردی کی وجہ سے نمونیا کا شکار ہوئے اور ہسپتالوں میں ان کو ویکسین نہیں مل رہی تھی اور اب سردی کی ذیادتی کووجہ سے بڑی عمر کے مریض بھی رپورٹ ہونا شروع ہوئے ہیں مگر ان کو بھی ویکسین نہیں مل رہی اور جو خرید سکتے ہیں وہ بازار سے لے کر لگوارہے ہیں مگر یہ تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے کیونکہ لوگوں کے پاس پیسے نہیں اور اگر وہ کہیں سے ادھار پکڑ کر اپنی ضرورت پوری کرلیتے ہیں تو اس رقم کی واپسی بھی ایک وبال سے کم نہیں ہے۔مجھے یہاں پر پروفیسر ناظم بخاری کی بات یاد آگئی جو انھوں نے مجھے کچھ عرصہ قبل کی جب میری دونوں بیٹیاں شدید بیمار ہوئیں اور لگ رہا تھا کہ نمونیاکا شکار ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بچیاں آپ کی ہیں آپ ہی نے ان کا علاج کروانا ہے ڈاکٹر تو صرف مدد کرسکتا ہے ہر سال ان کو اکتوبر کے مہینے میں ان کو نمونیہ کی ویکسین لگوالیا کریں کیونکہ یہ ویکسین کچھ ہفتوں بعد اثر کرنا شروع کرتی ہے اور جب سخت سردی کا موسم آجائے تو یہ اپنا کام کررہی ہوتی ہے اور بچوں کو نمونیا سے بچا کر رکھتی ہے مجھے اچھی طرح یاد ہےچار سال قبل میں نے بازار سے یہ ویکسین دو ہزار میں خریدی اور بچیوں کو لگوائی مگر عمرکے بڑھتے تیز مدافعتی سسٹم کی وجہ سے اب حالات بہتر ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بچوں اور بڑی عمر کے لوگوں کو ویکسین نہ ملنا محکمہ صحت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگا جاتا ہے اس کا اندازہ آپ یوں لگا سکتے ہیں کہ ایک ہفتے میں لاہور میں 19 افراد نمونیہ کے باعث جا ں بحق ہوچکے ہیںجبکہ پنجاب بھر میں ایک روز میں 10 افراد نمونیہ کے باعث جان کی بازی ہار گئے اور اب تک صوبے بھر میں 55 افراد نمونیہ کے باعث جان بحق ہوچکے ہیں۔ نمونیا ویکسین کی عدم فراہمی نے کئی سوالوں کو جنم دیا ہے اس حوالے سے جب میری فارما سسٹ ایسوسی ایشن کے صدر نور مہر سے بات ہوئی تو انھوں نے راز کھولا کہ گزشتہ دنوں چلڈرن ہسپتال میں 36بچوں کی موت نمونیا ویکسین نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی جو مریضوں کے ساتھ ظلم ہے ، ہم پچھلے چھ ماہ سے چیخ رہے ہیں کہ نمونیا کی ویکسین نہیں ہے اور لاہور سمیت پنجاب اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بلیک میں کمپنیاں ویکسین فروخت کر رہی ہیں، 7500 والی ویکسین 14 سے 15 ہزار میں فروخت ہو رہی ہے ۔ وفاقی حکومت کی اس سے بڑی نااہلی اور کیا ہوگی کہ پنجاب میں وفاق کا صرف ایک فیڈرل ڈرگ انسپکٹر ہے جبکہ پنجاب کے 75 ڈرگ انسپکٹر بھنگ پی کر سوئے ہوئے ہیں، ویکسین امپورٹ کرنے والی نواٹس، فائزر، گلیسکو سمتھ کلائن، ایم ایس ڈی اور دیگر کمپنیوں کے خلاف ڈرگ ایکٹ 1976 کے سیکشن 23 اور سیکشن 27 کے تحت فوری طور پر مقدمات درج کیے جائیں۔ انھوں نے بتایا کہ ویکسینز امپورٹر اور گورنمنٹ کے ڈی جی ہیلتھ پنجاب ٹینڈرز کرپشن کے بادشاہ بن چکے ہیں اور وفاق ڈی جی اور ڈریپ کی مزید مجرمانہ غفلت سے ہزاروں بچوں اور بڑوں کی موت ہو سکتی ہے اس حوالے جب میں نے نمونیا کی علامات بارے پروفیسر خواجہ امجد حسن سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ کھانسی جو سبز، زرد یا خونی بلغم پیدا کرتی ہے وہ نمونیا کی سب سے عام علامت ہے دیگر علامات میں بخار، ہلنے والی سردی، سانس کی تکلیف، کم توانائی اور انتہائی تھکاوٹ شامل ہیں۔جبکہ دوسری جانب پنجاب میں نمونیہ کے کیسز اور ہلاکتوں کا معاملہ پر محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن نے طبی ماہرین پر مشتمل نمونیہ ایکسپرٹ ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دیا ہے اس6 رکنی کمیٹی کی سربراہی پرنسپل علامہ اقبال میڈیکل کالج پروفسیر عائشہ عارف کریں گی جبکہ اس میں پروفیسر جنید رشید چلڈرن ہسپتال لاہور اور پروفیسر کاشف چشتی ایگزیکٹو ڈائریکٹر چلڈرن ہسپتال ملتان ممبر ہوں گےجبکہ پروفیسر طیبہ خاور بٹ، پروفیسر ڈاکٹر محمد شاہد اور ایڈیشنل سیکرٹری ٹیکنیکل ڈاکٹر حافظ شاہد اس کمیٹی میں شامل ہیں یہ کمیٹی پنجاب بھر میں نمونیہ کے پھیلاؤ اور اموات کا جائزہ لے گی تاحال اس کالم کے تحریر کرنے تک اس کمیٹی کا کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا گیا اور ہوا بھی ہے تو اس کا کوئی بھی اعلامیہ جاری نہیں ہوا یعنی دوسرے الفاظ میں یہ کمیٹی صرف خانہ پری کرئے گی ۔ اس ضمن میں بات کروں گا لاہور جنرل ہسپتال کی جہاں دعوے کیے جارہے ہیں کہ بچوں کو نمونیہ سے بچاؤ کی ویکسین بھی دستیاب ہے جو حکومتی پالیسی کے مطابق مفت فراہم کی جا رہی ہے اور بچوں کو علاج معالجہ فراہم کرنے کے لیے ہم 24گھنٹے الرٹ ہیں یہ دوعوے ہیں یا واقعی حقیقت اس کا پتہ تو وہاں داخل مریض ہی بتائیں گے مگر
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بیماری کے چلتے ہوئے صوبے بھر کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں میں صحت کی بنیادی سہولیات بلا معاوضہ فراہمی عوام کا حق ہے اور یہ حق ان کو دستور پاکستان نے دیا ہےمگر گزشتہ چالیس سال کی سیاست نے صرف نعروں کی حد تک اس حق کو تسلیم کیا ہے۔
==========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC