مقبوضہ پونچھ میں کنن پوش پورہ ایکشن ری پلے کا خدشہ ۔۔

تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی
============

بھارتی فورسز نے 12 جنوری سے پیر پنجال میں بڑے پیمانے پر آپریشن کلین اپ شروع کر رکھا ہے۔ جس کی نگرانی کمانڈر ناردرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل اپیندر دویدی خود کر رہے ہیں۔ باخبر ذرائع کا دعوی ہے کہ جنرل اپیندر نے ہفتہ 13 جنوری کو پونچھ راجوری سمیت علاقے کی فضائی جائزہ لیا اور فوج کو بے لگام اقدامات کی ہدایت کی۔ آپریشن کے خاص ٹارگٹ راجوری اور پونچھ ڈسٹرکٹ ہیں جاں گھر گھر تلاشی کے نام پر چادر اور چار دیواری کو پامال کیا جا رہا ہے ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارتی فورسز ایک مرتبہ پھر پونچھ کے کرشنا گھاٹی سیکٹر کے ملحقہ علاقوں میں”کنن پوش پورہ” کی تاریخ دورانے کا ارادہ رکھتی ہے، جہاں 23 اور 24 فروری1991 کی درمیانی شب بھارتی آرمی کی دو یونٹ نفری نے 8 سے 80 سال عمر کی 100 سے زیادہ خواتین کا اجتماعی ریپ کیا تھا، جس کے بعد متعدد خواتین نے خود کشی کر لی تھی۔ حکومت نے اس گھناؤنے جرم کی ایف آئی آر بھی درج نہیں ہونے دی اور نہ ہی آج تک ان مظلوموں کی شنوائی ہوئی۔ سری نے یونیورسٹی کی طالبات نے اس واقعہ پر مبنی کتاب بھی مرتب کی جو کینیڈا سے شائع ہوئی مگر اس کتاب پر بھارت میں پابندی اور دنیا سے غائب کر دی جاتی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق بھارتی فورسز نے 12 جنوری سے پونچھ کے کئی رہائشی علاقوں اور ان سے ملحقہ جنگلات میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ خاص طور پرکرشنا گھاٹی گاوں کے حوالے سے خطرے ناک رپورٹ موصول ہو رہی ہیں۔ جہاں مکمل بلیک اوٹ کے بعد فورسز کو گاوں میں داخل کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ تین روز سے علاقے کے داخلی راستوں پر کھار دار تاریں لگا کرمکمل سیل کیا ہوا ہے، جب کے ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ گزشتہ تین روز کے دوران آرمی نے اس علاقے میں کیا کارروائی کی ہے، تاہم صورت حال کو خفیہ رکھنے سے “کنن پوش پورہ” طرز آپریشن کے خدشات جنم لے رہے ہیں کہ بھارتی آرمی جو مقبوضہ کشمیر میں ریپ کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہی ہے خدانخواستہ کرشنا گھاٹی میں بھی اجتماعی ریپ جیسے گھناؤنے جرم کی مرتکب تو نہیں ہو رہی۔۔ لہذا اپیل کی گئی ہے کہ ریڈ کراس سمیت انسانی حقوق کی عالمی اداروں اور امدادی تنظیموں کو آپریشن کے دوران کی صورت حال کا جائزہ لینے کی اجازت دی جائے۔ تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ بھارتی فورسز انسانی حقوق کی پامالی میں مصروف تو نہیں۔ واضح رہے کہ 12 جنوری کی شام کو کرشنا گھاٹی سیکٹر میں بھارتی فوجی کانوائے پر حملہ ہوا تھا جس میں متعدد فوجی ہلاک و زخمی ہو گئے تھے تاہم ابھی تک کسی تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ غیر جانبدار ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی پلوامہ حملہ کی طرح راہ کی منصوبہ بند کارروائی ہو سکتی ہے، تاکہ اس کا جواز بنا کر پیر پنجال میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا جا سکے۔ بھارتی فورسز کے علان کے مطابق فورسز پر حملے میں ملوث حملہ آوروں کو تلاش کرنے کے لئے 13 فروری کی عَلیٰ الصُّبْح علاقے میں آپریشن شروع کر دیا گیا ہے جب کے پرائیویٹ ذرائع کہتے ہیں کہ آپریشن کا آغاز اسی رات شروع کر دیا گیا تھا جس میں فوج، حملہ آوروں کی تلاش سے زیادہ خانی تلاشی میں دلچسپی رکھتی ہے اور امور خانہ دار خواتین کے ساتھ غیر قانونی اور غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔۔ بچوں، خواتین، بوڑھوں اور بیماروں کو ٹھنڈے موسم میں گھنٹوں گھروں سے باہر رکھا جاتا جس کے باعث علاقے میں بیماروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کو علاج کی سہولت بھی فراہم نہیں کی جا رہی۔ جموں چھاونی سے آرمی کی اضافی یونٹ اور 50 بکتر بند گاڑیاں مہیا کی گئی ہیں جب کہ بلیک پینتھر کمانڈ کنٹرول وہیکلز ،سراغ رساں کتے، ڈرون اور سی سی ٹی وی کیمرے سمیت جدید ترین ٹیکنالوجی بھی استعمال کی جا رہی ہے۔ علاقے کے جنگلات کو محاصرے میں لے کر،آگ لگا دی گئی ہے جس کا دھواں سرحد پار بھی دیکھا جاتا ہے۔تلاشی آپریشن کے دوران فوج انسانی حقوق کی مرتکب ہو رہی ہے۔ جب کے لوگوں کو گھر میں رہنے کے لیے لوڈ اسپیکر پر اعلان کیا گیا ہے۔۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی فورسز نے اطراف کیا ہے کہ حملہ آوروں کا سراغ لگانے کے لئے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے جنگلات کی نگرانی کی جارہی ہے تاکہ وہ بھاگنے نہ پائیں، جب کہ زمین پر اور سراغ رساں کتوں کو کام پر لگا دیا گیا ہے۔ بھارتی فوج کی اضافی کمک کو بھی طلب کیا گیا ہے۔ ادھر سری نگر شہر میں مورچے تعمیر کرنا شروع کر دئے گئے ہیں جن کو T20 کانفرنس کی تیاریوں کے دوران ہٹایا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سری نگر میں مورچوں کی تعمیر کا یہ منصوبہ 26 جنوری بھارتی یوم جمہوریہ سے قبل مکمل کر لیا جائے گا جس کے لیے حفاظی انتظامات مزید سخت کئے جا رہے ہیں۔ سری نگر میں بھی بے جا محاصروں اور تلاشی کی کارروائیوں کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے جب کہ وادی میں 50 ہزار کی مذید فوجی نفری کو طلب کیا گیا ہے۔۔ وادی کے دیگر شہروں میں بھی مزید چیک پوسٹیں اور بنکرقائم کر کے گاڑیوں ، مسافروں اور راہگیروں کی مسلسل تلاشی لی جا رہی ہے۔ بھارت کا یوم جمہوریہ محکوم کشمیریوں کے لیے مصائب میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کی آڑ میں بھارتی فوجی اہلکارحفاظتی اقدامات کے نام پر مقبوضہ علاقے بھر میں چیکنگ اور تلاشی کی کارروئیاں تیز کر دیتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام نے حکومت آزاد کشمیر، آل پارٹیز حریت کانفرنس اور پاکستانی وزارت خارجہ سے اپیل کی ہے کہ مظفرآباد اور اسلام آباد میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے کے بجائے بھارتی مظالم کی ان کارروائیوں کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے اقدامات کریں تاکہ بھارت پونچھ راجوری میں انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہے، خاص طور پر کرشنا گھاٹی گاوں کی خواتین کی عزتوں کو بھارتی درندوں سے محفوظ رکھا جاسکے۔

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC