کوئی اور ہوتا تو اس روز ٹوٹ جاتا ، پھر مایوس ہو کر ملک چھوڑ جاتا ۔۔۔۔۔!


ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں ، پچھلے چھ سال کے دوران اگر اپ کی کمپنی نے قومی خزانے میں 251 ارب روپے کے ٹیکسز پہنچائے ہوں ،کمپنی ملک میں سب سے بڑی فور جی اپریٹر ہو اور وہ سب سے بڑی انٹرنیٹ اور براڈ بینڈ سروس پرووائیڈر بھی ہو اور اس نے 25 سال کے عرصے میں ملک میں ساڑھے نو ارب ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہو ہر قانون کی پاسداری کی ہو قدرتی افات سیلاب زلزلہ کرونا جیسے معاملات میں ایک ارب 20 کروڑ روپے کے عطیات دیے ہوں اور ایک دن اچانک کمپنی کو 25 ارب کا ٹیکس نہ دہندہ قرار دیتے ہوئے نوٹس موصول ہو اور چند گھنٹوں بعد دفتر سر مہر کرنا شروع ہو جائیں بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے کے لیے ٹیمیں بینکوں میں پہنچ جائیں تو آپ پر کیا بیتے گی ؟ ایسی صورتحال میں کسی کا نروس بریک ڈاؤن ہو جانا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہوگی ڈاکٹرز بھی مانتے ہیں کہ ایسی صورتحال میں انسان زبردست دباؤ میں ا کر یکدم ڈھیر ہو سکتا ہے ۔


اس روز کوئی اور ہوتا تو ٹوٹ جاتا ، جتنا دباؤ تھا جو سلوک کیا گیا اس کے نتیجے میں مایوس ہو کر ملک چھوڑ جاتا ۔لیکن یہ ایک انتہائی مضبوط اعصاب کا مالک بہادر دلیر اصول پسند اور باہمت انسان نکلا جو اس قدر شدید دباؤ کی صورتحال میں ڈٹ گیا اور اس کی وجہ سے کمپنی کی پوری ٹیم کو حوصلہ ملا اور کمپنی کے کروڑوں صارفین کو سروسز کی فراہمی بھی بلا تعتل جاری رہی ۔ بالاخر طوفان تھم گیا اور اس کے بعد یہ کمپنی پہلے سے بھی زیادہ توانائی اور رفتار سے اگے بڑھتے ہوئے ترقی کی نئی منازل طے کرنے لگی ۔
اس شخص کا نام عامر حفیظ ابراہیم ہے اور یہ کمپنی ہے جاز پاکستان ۔

جس خوفناک واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے یہ 28 اکتوبر 2020 کا دن تھا ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی اور وزیراعظم عمران خان اور ایف بی ار کے چیئرمین تھے محمد جاوید غنی ۔جب جاز پاکستان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا گیا اور پاکستان کی اس سب سے بڑی ٹیلی کام اینڈ ڈیجیٹل کمپنی کے ہیڈ افس کو اسلام اباد میں سیل کر دیا گیا ۔وہ لمحات کمپنی کے تمام متعلقہ افسران اور ملازمین کے لیے کسی ڈراؤنے خواب کی مانند تھے سب پر ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی افت ٹوٹ پڑی ہو ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ حکومت اس کمپنی کے ساتھ ایسا سلوک بھی روا رکھ سکتی ہے وہ کمپنی جس نے کووڈ 19 کے بعد اسی سال اور اس سے پہلے زلزلے اور سیلابوں میں قوم کے لیے ایک ارب 20 کروڑ روپے کے عطیات دیے تھے اور جو کینسر کے مرض سے لڑنے والے مریضوں کے لیے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے مسلسل اتیات دیتی رہی


اسی کمپنی کے ساتھ عمران خان کے دور حکومت میں یہ خوفناک واردات ہوئی ایک طرف حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہی تھی تو دوسری طرف پاکستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرنے والی جاز پاکستان کمپنی کے ہیڈ افس کو سیل کر کے دنیا کے سرمایہ کاروں کو کیا پیغام پہنچایا گیا یہ واقعہ بہت ہی افسوسناک اور تشویش ناک تھا اور جاز پاکستان نے بھی اس کی بھرپور مذمت کی۔
اب بات کرتے ہیں اس مضبوط اعصاب کے مالک بہادر اور اصول پسند شخص کی جس نے تمام مشکل صورتحال کا بڑے صبر و تحمل سے سامنا کیا اور پھر قانونی اور اخلاقی اعتبار سے اپنی کمپنی کو سرخرو کرایا ۔

کارپوریٹ سیکٹر میں عامر حفیظ ابراہیم کا نام آج بڑے احترام سے لیا جاتا ہے ان کی ذہانت اور قابلیت کا ہر طرف چرچا ہے ان کا پورا کیریئر شاندار کامیابیوں سے عبارت ہے ۔عامر حفیظ ابراہیم کا کیریئر 1994 میں اسی کمپنی سے شروع ہوا تھا دنیا گول ہے یہ بات انہوں نے امریکہ برطانیہ سویٹزرلینڈ یو اے ای اور تھائی لینڈ کے بعد واپس پاکستان پہنچ کر تیسری مرتبہ اسی کمپنی میں بطور سی ای او بن کر ثابت کر دی ۔ان کے والد واپڈا کی ملازمت کرتے تھے ان کی پیدائش منگلا کی ہے زندگی کے 10 سال منگلا اور تربیلہ کے درمیان ہی گزرے پھر لاہور میں ایچی سن میں داخلہ ہو گیا اس کے بعد یونیورسٹی اف ٹیکساس امریکہ پڑھنے چلے گئے پڑھائی کر کے واپس پاکستان ائے 1994 میں موبی لنک کمپنی میں سی وی لے کر گئے اور نوکری مل گئی شروع کے سات سے اٹھ سال بہت محنت کی باقاعدہ رگڑا کھایا پھر بطور جی ایم جاز متعارف کرایا اور بعد میں یہی اس کمپنی کا نام پڑ گیا ۔2001 میں ایم بی اے کرنے سویٹزرلینڈ چلے گئے پھر برطانیہ میں فورڈ کمپنی کی نوکری کی چھ سال وہاں رہے پھر مڈل ایسٹ میں دو سال گزارے 2008 میں پاکستان ا کر چھ سال یہاں رہے پھر تھائی لینڈ چلے گئے ٹیلی نار کے ساتھ ڈھائی سال رہے اور پھر 2015 – 16 میں پاکستان ا کر موبل لنک میں واپس اگئے پچھلے نو 10 برس سے یہاں ہیں اور سی ای او بن کر خدمات انجام دے رہے ہیں انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ صرف ایک کوارٹر ایسا ایا جب ٹیلی نار نے میدان مار لیا تھا ورنہ ہر دور میں ان کی کمپنی نمبر ون پوزیشن پر تھی ہے اور اسی طرح اگے بڑھ رہی ہے پچھلی ایک دہائی سے بڑے مارجن کے ساتھ نمبر ون پوزیشن پر برقرار ہے وہ اکثر لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ عام طور پر لوگ جاز کو ٹیلی کام کمپنی ہی سمجھتے ہیں جو برسوں پہلے ہوتی تھی سمے بیچتی تھی اور ٹاور لگاتی تھی

لیکن اب ایسا نہیں ہے دنیا بدل چکی ہے جاز بھی بہت اگے بڑھ چکا ہے 2015 میں پاکستان واپس ایا تو دنیا کی طرح یہاں بھی لوگوں کو سمجھ اگئی تھی کہ اب صرف ٹیلی کام تک رہے تو بات نہیں بنے گی کام نہیں چلے گا چنانچہ میں نے نعرہ لگا دیا کہ جاز بنائے گا پاکستان کو ڈیجیٹل پاکستان ۔ وہ نعرہ لگا تو دیا لیکن اس لفظ کا صحیح طور پر مانا مجھے خود بھی سمجھ نہیں ایا ۔بس یہ خواب تھا کہ اپنی کمپنی کو ڈیجیٹلائز کرنا ہے اپنی سروسز کو کنزیومر کی توقعات کے مطابق ہم اہنگ بنانے پر توجہ دینی شروع کی ہم نے سوچا ہمیں ڈیٹا یا ڈیجیٹل اپریٹر بننا چاہیے او ٹی ٹی ایس یعنی اوور دی ٹاپ ۔ اس اصطلاح کو ذہن میں رکھا اور اگے بڑھتے چلے گئے ٹیلی کام کمپنی کو دنیا زیادہ اہمیت نہیں دیتی کیونکہ اس نے تو صرف ایک کیبل بچھانا ہوتا ہے اور انٹرنیٹ دینا ہوتا ہے اور بس لوگ سمجھتے ہیں کہ اصل کام تو مزہ فراہم کرنے والی موبائل فون کمپنی کے فیچرز میں ہے جس کی وجہ سے لوگ مثال کے طور پر انسٹاگرام پر گھنٹوں وقت گزارتے ہیں ہم نے بھی بطور کمپنی اوپر اٹھنا تھا اس لیے سوچا کہ جب تک لوگوں کے لیے ہم مفید ہوں گے تو وہ ہمیں اہمیت دیں گے ورنہ ہم پیچھے رہ جائیں گے پھر مسلسل چھ سے اٹھ سال تک ہم اس چیز پر کام کرتے رہے اس دوران وارد اور موبل لنک کا مرجر ہو گیا جس کا کافی فائدہ ہوا ٹیلی کام سے ڈیجیٹل اپریٹر تک کا سفر اور پھر جاز سے جاز کیش تک کی کہانی بہت دلچسپ ہے یہ موبائل فون جو ہم سب کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اسے میں عام طور پر ریموٹ کنٹرول آف لائف کہتا ہوں ۔اب یہ صرف بات کرنے کے کام نہیں اتا زیادہ سے زیادہ ہم ادھا گھنٹہ بات کرتے ہوں گے سارے دن میں لیکن اس کے دیگر فیچرز کی وجہ سے تین سے چار گھنٹے ایک ادمی اپنے فون کے ساتھ گزارتا ہے اپ اس پر پیغامات بھیجتے ہیں ویڈیوز دیکھتے ہیں انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں پڑھائی بھی کرتے ہیں

۔ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں مختلف ادائیگیوں کا بڑا مسئلہ ہے لوگوں کو اپنے بل ادا کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ہم نے موبائل فون کو ڈیجیٹل بینکنگ کے لیے اسان طریقے سے استعمال کرانا شروع کر دیا ڈیجیٹل بینکنگ لائسنس کے ذریعے جاز کیش کو متعارف کرایا ۔اس کے علاوہ ہم نے ایک اور کام کیا کہ نوجوانوں کی دلچسپی میوزک میں ہوتی ہے تو ہم نے ایک پروڈکٹ متعارف کرائی جس کا نام تھا بجاؤ ۔پھر ویڈیو دیکھنے والوں کے لیے ہم نے پروڈکٹ بنائی دیکھو ۔پھر ہم نے ویڈیو سٹریمنگ کے لیے تماشہ پروڈکٹ بنائی پھر ہم نے سپر ایپ بنانے پر کام کیا تھا کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے ساتھ انگیج کر سکیں سپر ایپ اسے کہتے ہیں جو ایک سے زیادہ چیزیں کر سکے مثال کے طور پر چین میں وی چیٹ ہوتی ہے جس میں اپ چیٹ بھی کر سکتے ہیں ویڈیو بھی دیکھ سکتے ہیں اور پیسے بھی بھیج سکتے ہیں ۔ہم بھی اپنے کسٹمر کو زیادہ سے زیادہ دیر تک اپنے ساتھ جوڑ کر رکھنا چاہتے تھے اس لیے مختلف پروڈکٹ تیار کی اور متعارف کرائیں اور کامیابی حاصل ہوئی جتنا وقت کوئی کسی ایپ پر گزارتا ہے وہ وہاں پر اپنے فنگر پرنٹس چھوڑ دیتا ہے جس کے ذریعے ڈیٹا بنتا ہے اور اس کسٹمر کی پسند ناپسند اور ذوق و شوق کا پتہ چلتا ہے موجودہ دنیا میں ڈیٹا ہی سب کچھ ہے میں اکثر کہتا ہوں کہ ڈیٹا اب دنیا کا نیا آئل ہے اور انٹرنیٹ دنیا میں نئی بجلی ہے ۔اس ڈیٹا کے ذریعے اپ ٹارگٹڈ ایڈورٹائزنگ کر سکتے ہیں اس لیے اس کی بڑی اہمیت ہے دنیا میں فیس بک اور گوگل اسی طرح پیسہ بنا رہا ہے کیونکہ وہ کنزیومرز کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں ہماری کمپنی نے جاز ورلڈ کے نام سے ایک ایپ بنائی جو شروع میں تو

صرف بل چیک کرنے کے لیے تھی پھر اس میں بہت ساری چیزیں شامل کی گئیں ہم نے کوپن دینے شروع کیے جس کے ذریعے لوگ شاپنگ کر سکتے تھے وہاں کرکٹ کے سکور بورڈ کو شامل کیا گیا اور ویڈیوز شامل کی گئی اپ سوچیں 75 ملین کسٹمرز ہیں 38 فیصد مارکیٹ شیئر ایا 10 ملین ماہانہ ایکٹو یوزرز ملے یعنی ایک کروڑ لوگ ہر مہینے جاز ورلڈ پر اتے ہیں رمضان المبارک میں بھی لوگوں نے سحری اور افطاری کے اوقات اس کے ذریعے دیکھے پھر ہم نے تماشہ متعارف کرایا اور ایک ملین کسٹمرز کو وہاں لائے پاکستان میں اج بھی ایسے لوگ ہیں جن کے پاس ٹی وی نہیں ہوتا ان کے لیے موبائل فون کے ذریعے چھوٹی اسکرین پر 60 ٹی وی چینل مہیا کر دیے یہاں وہ کرکٹ فارمولا ون ریس اور نئی فلمیں بھی دیکھ سکتے ہیں 10 سپورٹس کے ساتھ معاہدہ بھی کیا گیا اکثر میں لوگوں کو مثال دیتا ہوں کہ اپ کے گھر میں یا دفتر میں جو چوکیدار ہے اس کو بھی انٹرنیٹمنٹ چاہیے جب سارا دن وہ تھک جاتا ہے تو اس کے بعد اسے اپنے موبائل فون کی تین چار انچ کی سکرین پر اگر انٹرٹینمنٹ مل جائے تو کیا برا ہے اور وہ بھی تین روپے کے دن بھر کے خرچے

پر وہ انٹرٹینمنٹ حاصل کر سکتا ہے ان چیزوں کو نیٹ فلیکس ایڈریس نہیں کر سکتا ہم نے یہ نئی مارکیٹ ڈھونڈی اور وہاں پہنچ رہے ہیں جہاں پہ لوگ ایسی چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں مثال کے طور پر نیٹ فلیکس پر اپ کو پاکستان کا ٹیسٹ نہیں ملے گا بالی وڈ اور ہالی وڈ کتنے لوگ دیکھتے ہیں جس نے سرائکی کے گانے سننے ہیں اس کے لیے ہم کنٹینٹ ڈیویلپ کر رہے ہیں اسے ہائیپر لوکل کنٹینٹ کہتے ہیں اور یہ بہت ضروری ہوتا ہے پھر ہم ای کامرس کی طرف ائے اور ہم نے دستگیر کے ساتھ پارٹنرشپ کی اور بی ٹو سی کسٹمرز اور دکانداروں کے مسائل پر توجہ دی پاکستان میں روایتی بینکوں کی 18 ہزار برانچیں ہیں لیکن جاز کیش کی 90 ہزار برانچیں ہیں ہماری رسائی زیادہ لوگوں تک ممکن ہے 16 ملین کسٹمرز ہیں جو کسی بینک کے پاس بھی نہیں پاکستان کے 75 فیصد نوجوانوں کے پاس کوئی بینکنگ انسٹرومنٹ نہیں تھا اور جو 25 فیصد کے پاس یہ سہولت ہے وہ بھی جاز کیش کی وجہ سے ہے ۔ لوگوں نے ہماری سروسز کو پسند کیا اس سے فائدہ اٹھایا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ ہمارے ساتھ جڑ گئے ۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ پاکستان کا مستقبل ڈیجیٹل پاکستان سے جڑا ہوا ہے زندگی ہے فون سے ۔اب ہر کام فون پر ہوتا ہے اپ نے کھانا منگانا ہو کسی کو پیسے بھیجنے ہوں یا لوگ میچ بھی فون پر دیکھتے ہیں ڈرامے بھی فون پر دیکھ رہے ہیں مہنگے ٹیلی فون کو لگزری ائٹم قرار دے کر اس پر زیادہ ٹیکس لگانے کا رویہ درست نہیں ہے ڈیجیٹل ایکو سسٹم پر کام کرنے کی ضرورت ہے پے پال اور دیگر غیر ملکی کمپنیوں کی امد کا انتظار کرنے کی بجائے ہمیں خود اپنے لیے سسٹم تیار کرنے پر محنت کرنی چاہیے خود پر انحصار کرنا چاہیے اور اپنے زور بازو پر ا کے بڑھنا چاہیے ۔
============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC