داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ کا اجلاس، نئے پروگرامز منظور

کراچی (اسٹاف رپورٹر) داؤد انجینئرنگ یونیورسٹی کی سینڈیکیٹ نے جامعہ میں نئے پروگرامز کی منظوری دیدی ہے جبکہ بہار سیشن کے داخلوں کی بھی اجازت دی گئی جبکہ یونیورسٹی کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کو بڑھانے کیلئے سینڈیکیٹ میں بہترین ڈیپارٹمنٹ ایوارڈ کا اعلان کیا گیا جس کے تحت ڈیپارٹمنٹ کو 10لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی سنڈیکیٹ کا 16واں اجلاس وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر ثمرین حسین (تمغہ امتیاز) کی زیر صدارت گزشتہ روز منعقد ہوا

جس میں ادارے کے تعلیمی اور انتظامی امور کے اہم فیصلے کئے گئے ۔ سنڈیکیٹ کویونیورسٹی کے ملازمین کے بارے میں مطلع کیا گیا جنہوں نے غیر ملکی سروس کی چھٹیاں حاصل کیں یا بغیر اطلاع چلے گئے۔ سنڈیکیٹ نے ایسے افراد کیخلاف ای اینڈ ڈی اصولوں کے تحت کارروائی پر اتفاق کیا۔
=================


ثناء جاوید اور عمیر جسوال میں علیحدگی کی افواہیں

پاکستان شوبز انڈسٹری کی خوبصورت جوڑی اداکارہ ثناء جاوید اور گلوکار عمیر جسوال میں علیحدگی کی افواہیں سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہیں۔

20 اکتوبر 2020ء کو ایک سادہ سی تقریب میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے والی جوڑی ثناء جاوید اور عمیر جسوال سے متعلق گردش کرتی افواہوں نے مداحوں کے دل کھٹے کر دیے۔

اس خوبصورت جوڑی کے اگر سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نظر دوڑائی جائے تو دونوں نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹس سے ایک دوسرے کے ہمراہ اپ لوڈ کی گئی سب ہی تصویریں اور ویڈیوز ہٹا دی ہیں۔

شہرت کی بلندیوں کو چھوتی یہ فنکار جوڑی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں خوش اور کامیاب نظر آ رہی ہے مگر اس جوڑی نے حال ہی میں ایک دوسرے کے ساتھ نئی تصویریں بھی اپ لوڈ کرنا بند کر دی ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں عمیر جسوال سعودی عرب میں اپنے ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے دوست کی شادی میں تنِ تنہا شریک ہوئے تھے۔

بعد ازاں انہوں نے عمرہ بھی ادا کیا تھا، اس دوران بھی اُن کے ہمراہ اُن کی اہلیہ ثناء جاوید کو نہیں دیکھا گیا تھا۔

عمیر اور ثناء کی جانب سے دیے جانے والے اشاروں سے سوشل میڈیا پیجز اور صارفین کی جانب سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس جوڑی کے درمیان علیحدگی ہو گئی ہے۔

پرستاروں کی جانب سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کی کسی بھی قسم کی تصدیق یا تردید اس فنکار جوڑے کی جانب سے تاحال نہیں کی گئی ہے۔

==========================

زیادتیوں اور ناانصافیوں کا رونا روؤں تو شاید آگے نہ بڑھ سکوں،شازیہ مری

کراچی (رپورٹ۔ اختر علی اختر) سابق وفاقی وزیر اور پیپلزپارٹی کی مرکزی رہنما، شازیہ مری کا کہنا ہے کہ اگر میں اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا رونا رونے لگوں تو شاید آگے نہ بڑھ سکوں۔ بچپن سے باغی ذہن کی مالک ہوں۔جب لوگ مجھے بھارتی اداکارہ انوشکا شرما سے ملاتے ہیں، تو بہت اچھا لگتا ہے۔ سنا ہے ہر انسان کے سات ہم شکل دنیا میں ہوتے ہیں، تو میری شکل کی بھی کئی خواتین ہوں گی۔جب بلاول صاحب نے پانی کے ٹینکرز کی بات کی تو ان کی باتوں کا مذاق بنایا گیا۔ میرے گھر میں بھی پانی کے ٹینکر آتے ہیں۔ لیکن یقین دلاتی ہوں کہ وہ وقت دُور نہیں جب کراچی کےگھروں میں نلکوں سے پانی آئے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر جنگ سے کچھ سیاسی اور کچھ غیرسیاسی باتیں کرتے ہوئے کیا۔ شازیہ مری نے مزید کہا کہ جو لوگ ہمارے کلچر سے واقف نہیں ہیں، انہیں منتخب نہ کیا جائے۔ کلچرل انڈسٹری میں بہت پوٹینشل ہے، بیورو کریسی ڈرائنگ روم ہی سے باہر نہیں نکلتی، اسے کیا معلوم اسلام آباد سے باہر کیا ہورہا ہے۔ اگر مجھے آئندہ ثقافت کی وزارت ملی تو فلم انڈسٹری کو اس کے اصل رنگ میں واپس لاؤں گی۔ ابتداء میں اسکول میں ٹیچر بھی رہی، بچوں کو پڑھانے میں بہت مزا آتا تھا، میں سنیما گھروں میں فلمیں بھی دیکھتی ہوں، موسیقی بھی شوق سے سُنتی ہوں، تنگ نظر بالکل نہیں ہُوں، اُمید کرتی ہوں کہ بہت جلد کراچی کے نلکوں میں پانی آئے گا۔ کراچی ایک میٹروپولیٹن سٹی ہے، اس لئے یہاں اسٹریٹ کرائم بہت ہے۔نیویارک اور پیرس میں بھی کراچی کی طرح بہت کرائم ہے، جب میں وہاں گئی تو مجھے بھی کہا گیا کہ رات میں ہوٹل سے باہر نہ نکلیں، میری کم عمر میں شادی ہوگئی تھی لیکن میں نے ساری زندگی اس روایت کے خلاف کام کیا۔ سابق وفاقی وزیر شازیہ مری نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ سیاست کوئی پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا ہار ہے، راستے میں جگہ جگہ رکاوٹیں ہوتی ہیں۔ ایک عورت کی حیثیت سے مجھے توڑنے کی بہت کوششیں کی گئیں۔ مجھے ہراسمنٹ کا بھی سامنا رہا۔ میں نے بہت کٹھن مخالفت دیکھی ہے۔ بازار جاتی تھی تو کوئی مرد مجھے گھورتا تھا تو بہت بُرا لگتا تھا۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ ایک عورت کو بس میں سفر کرتے وقت کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں۔ گھریلو تشدد، بچپن کی شادی کے خلاف رہی ہوں۔ عورت کو بے وقوف سمجھنے والے مردوں پر شروع سے غصّہ آتا ہے۔ سیاست میں کس طرح آنا ہوا؟ ایک سوال کے جواب میں شازیہ مری نے کہا کہ کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی بات کرنے والے ماضی کا دور بُھول گئے، جب بوری میں بند لاشیں ملتی تھیں، ہڑتالیں ہوا کرتی تھیں، وہ کراچی کا بدترین دور تھا، کچھ لوگ کہا کرتے تھے کہ کراچی ہمارا ہے، ان لوگوں ہی نے ناک میں دم کیا ہوا تھا۔ کراچی میں نوگوایریاز بھی ہوتے تھے، آج حالات بہت بہتر ہیں۔ شازیہ مری نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ میں اقبال بانو کی آواز میں فیض احمد فیض کا کلام ’’ہم دیکھیں گے‘‘ شوق سے سُنتی ہوں۔ مزاحیہ فلمیں اچھی لگتی ہیں، فلم انڈسٹری کو مضبوط بنائیں گے۔ تاکہ ہالی وڈ اور بالی وڈ کے فن کار بھی پاکستان کام کرنے آئیں۔ فلم ایک میڈیم ہے، اسے بھارت نے ٹھیک استعمال کیا،ہمیں بھی بامقصد فلمیں بنانا ہوں گی۔ ہمارے فنکاروں میں بہت ٹیلینٹ ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC