20 گنبد دو مینار والی سبز مسجد چھ سو سال سے بورصہ میں کھڑی ہے(87)۔ اقتساب بشیر سدوزئی کی کتاب “اسلامبولسےاستنبول”

ہم نے وضو چیپل کے مرکز میں واقع حوض سے کیا۔ اولو مسجد کی یہ بھی انفرادیت ہے کہ اس کے چیپل کے مرکز میں سفید سنگ مرمر کا حوض واقع ہے۔ جو میری معلومات میں نیا اضافہ ہے اس سے پہلے میں نے کسی معبد کی عمارت کے اس احاطے کے درمیان وضو خانہ نہیں دیکھا جو عبادت کے لیے مختص ہو۔ بتایا گیا کہ یہ قدیم ترک سلجوقوں کا طرز تعمیر ہے، اولو مسجد کی عمارت ترکوں کی قدیم تعمیرات کی عکاسی کرتی ہے۔ بے شک اولو مسجد میں کچھ ایسی انفرادیت ہے جو ترکیہ کی دوسری عمارت میں نہیں۔ صدر دروازے سے داخل ہوں یا اطراف کے دروازوں سے مسجد میں داخل ہوتے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ کسی گیلری میں آ گئے جہاں عربی خطاطی کی نمائش ہو رہی ہے۔ یہ خطاطی کے چھوٹے بڑے نوشتہ سب سے زیادہ پرکشش اور متاثر کن ہیں۔ کھڑکیوں کے درمیان خطاطی اور اسلامی پینٹنگ کے بڑے بڑے کتبہ جات آویزاں ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ جب سلطان عبدالمجید نے مسجد کی تزئین و آرائش کرائی تو استنبول سے ماہر خطاط اور اسلامی کیلی گرافوں کو بورصہ بھجیا گیا، جنہوں نے مہنوں بورصہ میں قیام کر کے اس مسجد کے چورس ستونوں، دیواروں، اور کتبوں پر خطاطی اور کیلی گرافی کی جس کا نیام البدل پورے ترکیہ میں آج تک سامنے نہیں آیا۔ جن کی وجہ سے اسے خطاطی کا عجائب گھر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی مختلف دیواروں پر کُل 192 نقوش موجود ہیں جبکہ اُس دور کے 41 بڑے خطاطوں کے 87 نمونے بھی یہاں لگائے گئے ہیں۔ ان میں قرآن مجید کی آیات بھی ہیں، احادیث بھی، اسمائے حسنہ بھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اور خلفائے راشدین کے نام بھی شامل ہیں۔ یہ اس وقت عربی کی سب سے بڑی خطاطی تھی جو ایک جگہ جمع ہوئی۔ استنبول سے آئے ہوئے ان خطاطوں اور آرٹسٹوں کی تیار کردہ بڑے بڑے نوشتہ آج بھی مسجد کی دیواروں پر آویزاں ہے۔ جب کے دیواروں اور مربع  کالموں پر خطاطی اور پینٹنگز مسجد کے حسن و خوب صورتی کو نمایاں کرتے ہیں۔ مسجد کے حال کے مرکز میں قائم حوض یا وضو خانہ مسجد کے فرش سے ایک دو فٹ نیچے ہے۔ ممکن ہے دو چار انچ اور زیادہ ہو، اس کا پانی کا قطرہ بھی مسجد کے فرش پر نہیں آتا۔ یہ حوض اس مسجد کی مشہور اور نمایاں خصوصیات میں ایک ہے۔ یہ حوض اور اس میں فوارہ مسجد کے 20 گنبدوں کے مرکزی گنبد کے نیچے واقع ہیں جس کی چھت شیشے کی ہے۔ یہ حوض اور چیپل کو روشن کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ ابتداء میں تو اس گنبد کی چھت مکمل کھلی ہوتی تھی، لیکن اب شیشے سے ڈھانپ دیا گیا ہے، جس سے مٹی، بارش اور برف سے مسجد کا اندرونی حصہ محفوظ ہو گیا۔ لیکن روشنی برابر آتی ہے۔ میرے ساتھ متعدد اور لوگ بھی تھے۔ حوض کے کنارے پر سفید لائٹیں نصب کی گئی ہیں لیکن ہم سب لوگوں نے چھت کی روشنی میں ہی وضو کیا، چھت کی روشنی بجلی بلبوں کی روشنی پر بھاری ہے۔۔ حوض کے فوارے میں تینتیس پانی نکاسی کے سوراخ ہیں، جن کو تین سطحوں پر تقسیم کیا گیا ہے۔ ان سوراخوں سے نکلتے پانی کی آوازیں نمازیوں کی روحوں کو تسکین دیتی ہیں۔ ماہرین کی یہ بھی رائے ہے کہ مسجد کے عبادتی حصے میں حوض اور فوارے کا مقصد مسجد سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانا بھی ہے۔ جب بجلی ایجاد نہیں ہوئی تھی تو مسجد کو روشن رکھنے کے لیے بیک وقت 700 سے زائد چراغ جلائےجاتے، جن میں موم بتیاں اور لیمپ وغیرہ بھی استعمال ہوتے تھے۔ ان چراغوں کے دھوئیں کو حوض کا پانی جذب کرتا تھا۔ اسی لیے مسجد کے مرکز میں یہ حوض تعمیر کیا گیا۔ اس عظیم الشان عمارت کا افتتاح ایک نان فروش نے کیا جو اس وقت بورصہ کا سب سے بڑا عالم تھا، لیکن ایک جمعہ کا خطبہ اسے بورصہ چھوڑنے کی وجہ بنا۔ صوفی منش سمونجی بابا کی علمیت کے بارے میں نہ سلطان کو خبر تھی نہ عوام واقف تھے۔ سلطان بایزید اول نے جمعہ کے روز مسجد کا افتتاح کرنے کا فیصلہ کیا۔ بورصہ کے بڑے عالم شیخ امیر سلطان کو خطبہ اور امامت کا کہا گیا۔ امیر سلطان منبر کے پاس کھڑے ہو کر اپنے سے بڑے عالم سمونجی بابا کو دیکھنے لگے، جو درویشی میں پیچھے کسی قطار میں بیٹھے تھے۔ عالم دین ان کی علمیت سے واقف تھے اور چاتے تھے کہ آج اس مسجد میں پہلا خطبہ انہی کا حق ہے ۔ سمونجی بابا پر نظر پڑی تو اعلان کیا کہ اس وقت اس مسجد میں خطبہ دینے کا استحقاق آپ سے زیادہ کسی کا نہیں۔ بابا نے پہلے تو پہلو تہی کیا لیکن مجبورا خطبہ دینے منبر پر آ پہنچا۔ سورت فاتحہ کی سات الگ الگ تفسیر بتائیں تو بڑے بڑے عالم دھنگ رہ گئے شیخ امیر سلطان سمیت پورے مجمعے میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا، چھٹی اور ساتویں تفسیر کسی کی سمجھ میں آئی ہو۔ شناخت ہونے کے بعد سمونجی بابا دوسرے شہر چلے گئے کیوں کہ وہ گم نام درویشی میں رہنا چاتے تھے۔ اولو مسجد کے افتتاح کو ابھی تین سال بھی مکمل نہ ہوئے تھے کہ اس کا خالق سلطان بایزید اول انقرہ میں تمرلین کے ساتھ لڑائی میں گرفتار ہو گیا۔ یہ جنگ 20 جولائی 1402ء کو امیر تیمور اور عثمانی سلطان بایزید اول یلدرم کی فوجوں کے درمیان انقرہ میں لڑی گئی۔ سلطان کو گرفتار کر کے سمرقند لے جایا گیا جہاں وہ اگلے سال انتقال کرگیے۔ اس جنگ میں فتح کے بعد امیر تیمور نے سلطان بایزید اول کے ایک بیٹے سمیت کئی جنرل گرفتار کئے۔دارالحکومت بورصہ اور اناطولیہ کے دیگر علاقوں میں تعینات افواج کو پسپا کیا اور علاقہ سمیت فوجہ تنصیبات کو لوٹ لیا۔ تمرلین لشکر نے بورصہ کی فتح کے دوران اولو جامع مسجد کے اندرونی حصہ میں آگ لگا دی اور بیرونی حصوں میں توڑ پھوڑ کی۔ مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ 1421ء دوبارہ عبادت کے لئے کھولا گیا لیکن 43 سال بعد تک اس کی مرمت یا تعمیر نو نہیں کی جا سکی۔ اس کے بعد بھی بورصہ پر بیرونی حملہ آوروں نے اس مسجد کو نقصان پہنچایا۔ آتش زنی اور مسلسل توڑ پھوڑ کے نتیجہ میں مسجد کا بیرونی حصہ زیادہ تر تباہ ہو گیا، اسی اثنا 1445ء میں گرینڈ بازار بورصہ آگ کی لپیٹ میں آیا جس سے مسجد کے باقی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا۔ بازار کی تعمیر اور تزئین کے دوران مسجد کی بھی مرمت اور تزئین و آرائش کی گئی۔ 1862ء تک، 32 مرتبہ مسجد کو نقصان پہنچا اور 23 مرتبہ ہی مرمت و تعمیر نو کی گئی۔ محراب کے بائیں جانب ایک دروازہ ہے جو صرف شو پیس کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ خانہ کعبہ کے دروازے کا احاطہ ہے۔ یہ سلطان سلیم اول نے مصر فتح کرنے اور خلافت عثمانیہ منتقلی کے موقع پر سلطان کی جانب سے مسجد کو تحفہ کے طور پر دیا تھا۔ محراب کے بالکل سامنے حوض کے ایک پلر کے ساتھ سفید سنگگ مرمر کا”موذن کا چبوترا” ہے جو 1549ء میں تعمیر کیا گیا، موزن اس چبوترے پر کھڑا ہو کر آذان اور نماز کے دوران امام کی آواز کو وسیع احاطے میں پھیلے نمازیوں تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی انجام دیتا تھا۔ خطیب کے لیے خطبہ کی جگہ بھی مسجد کے فرش سے بلند اور سفید سنگ مرمر کی ہے جو 1815ء میں تعمیر کی گئی۔ سلطنت عثمانیہ کے سربراہ کے لیے 1840ء میں مسجد کے ایک کونے میں خصوصی کیبن تیار کیا گیا۔ یہ مسجد کے اندر ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جہاں سلطان جمعہ، عیدیں اور بورصہ میں قیام کے دوران نماز ادا کرتا۔ اس کیبن کے لیے الگ دروازہ بھی بنایا گیا جو سلطان کے استعمال تک محدود تھا، لیکن یہ دروازہ اس وقت بند ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے لیے بھی جگہ مخصوص ہے۔ 1855 کو بورصہ میں شدید زلزلہ آیا جس کے شدت 5۔7 تھی۔ اس زلزلے میں مسجد کے 20 میں سے 18 گنبد ٹوٹ کر گر گئے۔ بعد ازاں مسجد کی تعمیر نو کا کام شروع ہوا۔ سلطان عبدالمجید کے حکم پر استنبول سے مشہور ترین خطاطوں کو بورصہ بھیجا گیا۔ خطاطوں نے بڑی بڑی خطاطی کی اور پہلی مرتبہ لکڑی کے چھت کو پتھر اور سمنٹ کی چھت میں تبدیل کیا گیا۔ 1889 میں ایک مرتبہ پھر آگ لگی اور لکڑی میناروں کو نقصان پہنچا۔ اس مرتبہ مرمت کے وقت لکڑی کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا.
==========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC