آرمی چیف سے علماء کرام کی ملاقات اور پاکستان میں بین المسالک ہم آہنگی


ون پوائنٹ
نوید نقوی
پاکستان ایک وسیع و عریض ملک ہے جس کی آبادی 24 کروڑ سے زائد ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا دنیا میں پانچواں، ایشیاء میں چوتھا جبکہ جنوبی ایشیاء میں دوسرے نمبر پر ہے، اور اس کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک بھی ہے۔ پاکستان کے 95 فيصد سے زائد شہری مسلمان ہيں جن ميں سے تقريباً 20 فيصد اہل تشیع، 75 فيصد اہل سنت اور تقریباً 3 فيصد ديگر فقہ سے تعلق رکھتے ہيں۔ تقريباً ایک فيصد پاکستانی ہندو اور اتنے ہی پاکستانی مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہيں۔ ایک قلیل تعداد سکھ مت کے ماننے والے بھی پاکستان میں رہتے ہیں ان کے علاوہ کراچی ميں پارسی، پنجاب ميں قادیانی اور شمالی علاقوں ميں قلیل تعداد میں قبائلی مذاہب کے پيرو کار بھی موجود ہيں۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان ایک گنجان آباد ملک ہے۔ پاکستان میں ہر فی مربع کلومیٹر رقبے پر 303 افراد بستے ہیں۔ بنگلا دیشں میں فی مربع کلومیٹر ایک ہزار 329 افراد، مالدیپ میں فی مربع کلومیٹر ایک ہزار 737 افراد، بھارت میں 481 افراد جبکہ سری لنکا میں فی مربع کلومیٹر 349 افراد بستے ہیں۔ یہاں اپنے قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے آبادی کے لحاظ سے مختلف ممالک کی تفصیل شئیر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آبادی کے لحاظ سے بھارت ایک ارب 42 کروڑ 86 لاکھ 27 ہزار 663 افراد کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا ملک، چین ایک ارب 42 کروڑ 56 لاکھ 71 ہزار 352 افراد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، امریکہ 33 کروڑ 99 لاکھ 96 ہزار 563 افراد کے ساتھ تیسرے جبکہ انڈونیشیا 27 کروڑ 75 لاکھ 34 ہزار 122 افراد کے ساتھ چوتھے نمبر پر موجود ہے۔ پاکستان کے پاس دنیا کا بہترین رقبہ بھی ہے اور آبپاشی کا نظام بھی دنیا کے چند بہترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ پاکستان 881,913 مربع کلومیٹر کے ساتھ دنیا کا تینتیسواں بڑے رقبے والا ملک ہے۔ اس کے جنوب میں 1046 کلومیٹر کی ساحلی پٹی ہے جو بحیرہ عرب سے ملتی ہے اور کل 6,774 کلومیٹر زمینی سرحد ہے۔ پاکستان کے مشرق ميں بھارت، شمال مشرق ميں چین اور مغرب ميں افغانستان اور ايران واقع ہيں۔ پاکستان کو شمال میں ایک تنگ واخان راہداری تاجکستان سے جدا کرتی ہے جبکہ اس ملک کی سمندری سرحدی حدود اومان کے سمندری حدود سے بھی ملتی ہیں۔ پاکستان دنیا کا ایک اہم اور طاقتور ملک ہے، اس کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے اور یہ اسلامی دنیا کی واحد اور جنوبی ایشیا کی دوسری ایٹمی طاقت ہے۔ اس کی معیشت دنیا میں 23 ویں نمبر پر ہے۔ اس طرح ایک بڑا مسلمان ملک اور اہم محل وقوع ہونے کی وجہ سے نہ صرف اقوام عالم میں پاکستان کا ایک خاص مقام ہے بلکہ یہاں کی سیاست، معاشرت پر دنیا بھر کی نظر رہتی ہے۔ پاکستان ایک متنوع معاشرے پر مبنی ریاست ہے اس لیے یہاں بین المسالک اور بین المذاھب ہم آہنگی کا ہونا لازمی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے ملک ہیں وہاں مختلف نسلیں اور مختلف عقائد کے حامل لوگ رہتے ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی قیام پاکستان سے بہت پہلے بلکہ یوں کہوں تو زیادہ بہتر ہوگا صدیوں سے اس خطے میں مختلف عقائد اور نسلوں کے لوگ آپس میں رہ رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ خطہ امن پسند ہے اور تاریخی لحاظ سے یہ ثابت ہے کہ سوائے جنگ عظیم اول اور دوم کے یہاں کے باسیوں نے کبھی کسی جارحانہ کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔ لیکن اسی کی دہائی میں پاکستان میں جب ضیاء الحق رجیم نے اپنے قدم مضبوطی سے جما لیے تو سب کچھ بدل گیا۔ سالوں سے اکٹھے رہنے والے مختلف عقائد کے ماننے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے اور افغان جہاد کا پاکستانی معاشرے پر ایسا منفی اثر پڑا کہ یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ ہیروئن اور کلیشن کوف کلچر عام ہوگیا۔ پھر وقت نے مزید تیزی سے کروٹ بدلی اور نام نہاد وار اینڈ ٹیرر میں اس معاشرے کو دھکیل دیا گیا، ملک کے طول و عرض میں اس پرائی جنگ کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ مارے گئے۔ ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی دوران نام نہاد تحریک طالبان پاکستان نامی ایک دہشت گرد تنظیم بھارت اور اسرائیل کی فنڈنگ سے بنائی گئی جس کا ایک ہی مقصد تھا پاکستانی فوج اور عوام کا قتل کرنا۔ لیکن پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ فوج کے قابل سپہ سالاروں نے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا اور پاکستان میں مختلف عقائد اور مسالک کے ماننے والوں کے درمیان اتحاد قائم رکھا۔ زیادہ دور نہ جائیں موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی بات کریں تو انہوں نے گزشتہ دنوں پاکستان بھر کے جید علماء کرام سے ایک ملاقات کی اور اس ملاقات میں علماء نے متفقہ طور پر ایک پیغام پاکستان جاری کر کے تمام فرقہ پرستوں اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے خواہشمند شر پسند عناصر کو ناکام کیا ہے۔ علامہ محمد امین شہیدی بھی آرمی چیف سے ملاقات کرنے والے علماء میں شامل تھے، علامہ امین شہیدی پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کی ایک مضبوط اور مؤثر آواز ہیں۔ میں نے جب ان سے یہ پوچھا کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کے کسی آرمی چیف نے اس بڑے پیمانے پر علماء کانفرنس رکھی ہو جس میں ملک بھر سے تقریباً تمام بڑے نام شامل تھے، آخر اس کانفرنس کا مقصد کیا ہے اور آرمی چیف کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ سیاسی قیادت کے ہوتے ہوئے ایسی کانفرنسز کا انعقاد کریں؟ علامہ امین شہیدی نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت نگران سیٹ اپ عارضی طور پر حکومتی معاملات چلا رہا ہے لیکن بدلتے عالمی حالات بالخصوص غزہ پر اسرائیلی فورسز کی جارحیت اور تحریک طالبان پاکستان کی افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں بڑھتی کارروائیاں پھر اس کے ردعمل میں افغان مہاجرین کا پاکستان سے انخلا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسی کانفرنس کا ہونا کتنا اہم ہے۔ آرمی چیف نے علماء کرام کو یہ باور کرایا کہ غزہ کی صورتحال پر ہم خون کے آنسو رو رہے ہیں اور ہم نے اسرائیل تک اپنا سخت ترین موقف پہنچا دیا ہے۔ بے شک عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں لیکن ہماری اسرائیل کے متعلق وہی پالیسی ہے جو قائد اعظم کی تھی اور قائد اسرائیل کو ایک نا جائز ریاست سمجھتے تھے۔ پاکستان اسرائیل کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ آرمی چیف نے علماء کو بتایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے پیچھے افغان دہشت گردوں کا ہاتھ ہے۔ 64 سے زائد افغان دہشت گرد پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ آرمی چیف نے شرکاء کو بتایا کہ افغان عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آرمی چیف نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان نے افغان مہاجرین کو چالیس سال پناہ دی اور انہوں نے ہر طرح کی جائیدادیں بنائی ہوئی تھیں، لیکن سب سے بڑا نقصان پاکستان کو یہ پہنچایا کہ سات ارب ڈالرز سے زائد غیر قانونی طور پر افغانستان منتقل کیے۔ پاکستان نے دہشت گردوں کی ایک لسٹ بھی افغان حکومت سے شئیر کی لیکن ان دہشت گردوں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی مدد کی ہے۔ عبوری حکومت کی سفارتی، اخلاقی اور معاشی سپورٹ کے باوجود اس کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کسی قسم کی ٹھوس کارروائی کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان عبوری حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ آرمی چیف کو افغانستان سے کافی شکایات ہیں جن میں سب سے اہم یہ بھی ہے کہ افغان عبوری حکومت کے بعض سینیئر رہنماؤں کی جانب سے ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہ کرنا ہے۔ آرمی چیف نے علماء کرام کو یہ بھی بتایا کہ اگر افغانستان کی پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کے متعلق یہی پالیسی رہی تو وا خان کی پٹی جو اس وقت افغانستان کے پاس ہے پاکستان اپنے قبضے میں لے لے گا۔ شرکاء نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ افغانستان کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوج کا اسلحہ کہاں گیا ہے ؟ آرمی چیف نے شرکاء کو یہ بھی بتایا کہ یہ اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو رہا ہے اور اس جدید اسلحے تک دہشت گردوں کی رسائی آسان ہے۔ کیونکہ پاکستان میں تمام واقعات کے پیچھے امریکی ساختہ ہتھیار استعمال ہوئے ہیں۔ آرمی چیف نے علماء کرام کو بتایا کہ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں افغان مہاجرین کے فوری انخلا کا فیصلہ کیا گیا۔ پاکستانی مسلح افواج کی ترجیحات میں عوام کی جان و مال کا تحفظ پہلے نمبر ہے۔
====================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC