ہیراپولس کے عوام کو تین سروں والی بلا کھا گئی یا طوفانوں نے نگل لیا؟۔(70) “اسلامبول سے استنبول” سے اقتباس

ہیراپولس کی شہر خوباں سے شہر خاموشاں تک پہنچنے کی مختلف وجوہات سامنے آچکی اور وہی حتمی ہوں گی جس کا تعین اور تصدیق ماہر کھوجی، آثار قدیمہ یا مورخ کرے گا۔ لیکن ہم یہاں رومن سلطنت میں پھیلنے والی افواہوں میں سے ایک کا حوالا دیتے ہیں جس کو اس زمانے کے مورخین اور اساتذہ نے بھی تشویش سے دیکھا اور جو آج بھی مقامی لوگ بڑی توجہ سے بتاتے اور سنتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے یا کہانی جو بھی ہے خوب ہے، دلچسپ ہے اور اس سماج کے مولوی کی فطرت کی عکاسی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے مولوی کی فطرت ہزاروں سال بعد آج بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ میں عالم کی بات نہیں کر رہا ہیراپولس کے مولوی کی کہانی کی بات کر رہا ہوں جن کو اس وقت مذہبی زعماء کہا جاتا تھا، جن کو آج بھی لوگ نہیں بھولے۔ وہ یہ کہ اس شہر کی ایک وجہِ شہرت جہنم کا دروازہ تھی۔ روایت کے مطابق اسی شہر میں زیرِ زمین تین سروں والی کوئی بلا رہتی تھی اس کی قیام گاہ کی طرف سرنگ کے ذریعے راستہ جاتا تھا۔ وہ بلا اپنی طرف آنے والے انسان کو اپنے خدا پلوٹو کے حکم پر کھا جاتی تھی جس کا وہاں مزار اور مجسمہ نصب تھا۔ لوگوں نے پلوٹو کی شان میں ایک مزار پلوٹونیئن تعمیر کیا جہاں آ کر زائرین صدقہ خیرات کرتے۔ اس زیر زمین راستے سے گزرتے لوگ ہلاک ہونے لگے تو مشہور ہوا کہ پلوٹو اب انسانی جان کی قربانی لینے لگا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہبی زعماء نے خوب رقم بٹورنی شروع کی کہ مزار پر جانے والے کی طرف سے جانور لے جاتے وہ ہلاک ہو جاتا اور مولوی واپس آ کر بتاتا کہ اس کی قربانی قبول ہو گئی۔ میری طرح کئی سیاح، مصنفین اور مورخین نے اس کہانی پر تعجب اور تشویش بھی کیا کہ ایک مذہبی شخص کسی جانور کو مزار کے اندر لے کر جاتا ہے، خدائی عمل سے وہ جانور تو مر جاتا ہے لیکن مولوی زندہ باہر آ جاتا ہے یہ کیوں کر ممکن ہوا۔ جب تک سائنسی تحقیق نہیں ہوئی تھی لوگوں کو اس پر پکا یقین اور اعتماد تھا کہ مولوی علم اور کرامات کے باعث بچ جاتا ہے ورنہ عام فرد کے لیے تو تین سروں والی بلا موت بن کر کھڑی ہے، وہ ادھر سے گزرنے والے انسان کو کھا جائے گی۔ اس سوچ پر مولویوں کا کاروبار تو خوب چمکا۔ گویا ہزاروں پہلے سال قبل مسیح میں بھی روحانیت اور پیری فقیری و توہمات اوج کمال پر تھی۔ توہم پرست لوگوں کے خیال میں، روحانی خدا لوگوں کی جان لیتا اور مولوی کی روحانی و علمی طاقت خدا کے قہر و غضب سے لوگوں کو محفوظ رکھتی تھی۔ کسی حد تک یہ عقیدہ کسی نہ کسی صورت آج بھی موجود ہے، وہ مزاروں کی صورت میں ہو یا پیروں کی صورت میں۔ برحال یہ تو ایک غور طلب امر ہے کہ کرامات اور حکمت کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی جگہ دوجان داروں میں سے ایک ہلاک اور دوسرا سلامت رہے۔ پلوٹو ہیراپولس کے معاشرے کی حقیقت تو تھا۔ لیکن میرا خیال تھا کہ یقیناً یہ کہانیاں اس کی نسبت سے گھڑی گئی ہیں جیسے کہ دنیا کے ہر گاوں اور علاقے کی کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ جس کا کوئی تاریخی پس منظر یا سائنسی ثبوت نہیں ملتا۔ لیکن جرمن یونیورسٹی آف ڈوزبرگ ایسن کے پروفیسر ہارڈی فانز نے پلوٹو کا معمہ کیسے حل کیا آپ کے ساتھ شئیر کرتا ہوں، وہ کہتا ہے کہ “جب میں اس جگہ کے بارے میں تاریخی مناظر پڑھتا تھا تو میں سوچا کرتا تھا کہ کیا اس کی کوئی سائنسی وجہ ہو سکتی ہے”۔ پروفیسر ہارڈی فانز اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہم سے صرف 10 سال قبل 2013ء میں ہیراپولس پہنچا۔ اسے اس حقیقت کو معلوم کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگا کہ ہیراپولس میں زیر زمین تین سروں والی کون سی بلا تھی جو اپنے خدا پلوٹو کے کہنے پر انسانوں کو کھاتی تھی اور مذہبی رہنماء لوگوں سے رقم لے کر ان کی قربانی کے طور پر جانور کو اس غار میں لے جاتے جانور تو مرجاتا لیکن مذہبی رہنماء کیسے زندہ واپس آ جاتے۔ ہارڈی مانز کہتا ہے کہ ” ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہاں کیا ملے گا۔ ہو سکتا تھا کہ یہ سب خیالی ہوتا لیکن ہم کو اتنا جلدی جواب حاصل کرنے کی امید نہیں تھی”۔ اس سائنس دان کو اس معمے کو حل کرنے میں زیادہ وقت لگا نہ مشقت کرنا پڑی اس کو فوراً ہی جواب مل گیا۔ کہتا ہے ” ہم نے اندر جانے کے راستے کے قریب درجنوں مرے ہوئے جانوروں کے ڈھانچے دیکھے۔ چوہے، چڑیاں، پرندے اور کئی قسم کے کیڑے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اس کا مطلب ہے کہ کہانیاں سچی ہیں”۔ فانز چوں کہ سائنس دان تھا وہ قصہ کہانیوں پر کہاں یقین کرتا اس نے اس حقیقت کو جاننے کے لیے سائنسی تجربات شروع کئے۔ جب فانز نے وہاں کی ہوا ٹیسٹ کی تو انھیں خطرناک حد تک ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ ملی۔ کاربن ڈائی آکسائڈ انسانی زندگی پر اثر انداز ہو کر کس قدر خطرے ناک نتائج نکلتے ہیں سائنس اس مسئلے کے حوالے سے بتاتی ہے کہ فضا میں اس کی قابلِ اجازت حد %0.5 ہے اس سے بڑھ جائے تو کمزور پھیپھڑوں والوں کا سانس لینے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ عام طور پر اس کا ہوا میں تناسب 0.8 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ سائنس دانوں کے مطابق اگر ہوا میں 10 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ ہو تو جاندار چند منٹ میں مر سکتا ہے۔ جب کہ پروفیسر ہارڈی فانز کا کہنا ہے کہ ہیراپولس کی اس غار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ 80 فیصد تک تھی۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اگر خطرے ناک چیز ہے تو ہر جان دار کے لیے خطرے ناک ہے، جانور مر جاتے اور مذہبی زعماء بحفاظت واپس آ کر دوسری قربانی کا سامان جمع کرتا۔ یہ سوال ابھی بھی باقی تھا۔ پروفیسر ہارڈی فانز دوسرے سال پھر ہیراپولس پہنچا اور اس پر تحقیق شروع کی کہ مذہبی شخص کیسے زندہ واپس آتا تھا۔ دن کے مختلف اوقات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کی جانچ پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ گرمی زیادہ ہوتی تھی تو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہو جاتی تھی اور غار میں کم رہ جاتی تھی۔ بچی کچھی کاربن ڈائی آکسائیڈ رات کے اوقات میں ٹھنڈی ہو کر زمین پر تہہ بنا لیتی۔ مذہبی زعماء نے جانور غار میں لے جانے کا وقت صبع سویرے مقرر کر رکھا تھا۔ جانور کی فطرت ہے کہ ناک زمین کے ساتھ لگا کر چلتا ہے۔ جب جانور اس غار میں اندر جاتے تو ان کے ناک زمین کے ساتھ لگی ہوتی، کاربن ڈائی آکسائیڈ فورا اثر کرتی اور جانور مرجاتا۔ انسان جو ساتھ ہوتا کھڑے ہونے کے باعث بلند سطح پر سانس لے رہا ہوتا، اس پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کا کم اثر ہوتا۔ چوں کہ جانور مرنے سے اس کا کام ہو چکا ہوتا اور وہ فورا ہی محفوظ علاقے میں پلٹ آتا۔ اس عمل پر بحث جاری ہے کہ کیا یہ مذہبی زعماء کی پیسے بٹورنے کی حکمت تھی یا وہ سمجھتے تھے کہ واقعی خداؤں سے بات کرنا ان کی قابلیت اور مذہبی قوت ہے؟ ایک مغربی پروفیسر کا خیال ہے کہ پلوٹونیئن میں قربانیاں دینے لینے کا یہ اہم کاروبار تھا۔ اب کئی سو سال بعد اس پر کیا رائے دی جا سکتی ہے، ممکن ہے ان مذہبی عالموں میں سے کچھ واقعی سمجھتے ہوں کہ خدا نے انھیں مزار کے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ اور کچھ کا نظریہ ہوا ہو کہ جب تک چلتا ہے چلنے دو۔ لیکن ہارڈی فانز کا اعلان ہے کہ “آج جب میں اس گیٹ پر کھڑا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ اندر کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے تو مجھے لگتا ہے کہ ہم نے ایک قدیم معمہ سلجھا دیا جو کہ ایک بہترین احساس ہے۔” یہ سائنس ہی کا احسان ہے کہ توہمات اور خرابات کو روکتی ہے اور اسی سائنس نے بتایا کہ ہیراپولس کے زیرزمین نہ کوئی تین سروں والی بلا تھی اور نہ کوئی اس کا خدا، نہ کوئی انسان اس غار میں قربان ہوا اور نہ ہیراپولس کو تین سروں والی بلا کھا گئی۔ برحال یہ اس شہر کی تاریخ نہیں محض کہانی ہے۔ یہ حجت ختم ہوئی کہ کیا سچ ہے اور کیا افسانہ۔ جس چیز کا نشان ہی مٹ جائے اور تاریخ بھی دھندلی ہو تو وہ قصے کہانیوں پر ہی زندہ ریتی ہے اور قصہ کہانیاں بھی سینہ گزٹ، ہیراپولس کی یہ سینہ گزٹ قصہ کہانی بھی صدیوں سالوں سے سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے، جب شروع ہوئی تھی اس میں کتنی صداقت تھی اور اب کتنا سچ رہ گیا ہے اللہ کو ہی بہتر معلوم ہے اور آپ جو تحقیق کرنا چائیں کہ ہیرا پولس کو ایسا کیا ہوا تھا کہ جہاں زندگی کے آثار تھے آج وہاں قدیمہ کے آثار ہیں۔ تلاش کر سکتے ہیں اس کے لیے ہیراپولس جانا ہو گا جہاں پاموکالے کا اضافی لطف ملے گا اور پھر وادی پاموکالے کے مزے الگ۔ بے شک یہ تو سچ ہے کہ جب آپ یہ منظر دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ یہ زمین کا نہیں بلکہ کائنات میں کسی دوسرے سیارے کا حیرت انگیز منظر ہے۔
==============================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC