جلتا اور ڈوبتا لاھور

تحریر شہزاد بھٹہ
===============


لاھور جو کبھی ایک شہر تھا باغوں پھولوں اور رومانس کا شہر لاھور جو پنجاب کا دل تھا جہاں سال میں پانچ موسموں کے نظارے دیکھنے کو ملتے تھے جہاں راتیں جاگتی اور گیت گاتی تھیں برسات کے اپنے خوبصورت رنگ ، سیاہ اور گھنے بادل اور باغوں میں جھولے لیتی ناریاں بہار کے موسم میں ھر طرف رنگ برنگ اور دل کش پھولوں کی کیاریاں جبکہ موسم گرما اور سرما کی اپنی اپنی بہاریں اور نظارے
لاھور دنیا کا واحد شہر جس کے شہری ھر موسم کا لطف اٹھاتے ھیں لاھور نے مختلف تہذیبوں کے نظارے کیے اور دریائے راوی کا عروج بھی دیکھا جب یہ ایک دریا تھا اور اس کے موجوں پر رنگ برنگنی کشتیاں اور اس میں گیت گاتے ملاح بھی دیکھے اور اسی دریا کو ایک گندے نالے میں تبدیل ھوتے ھوئے بھی دیکھا
معاشی ترقی کے سیلاب نے اس تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا ھمارے ترقیاتی اداروں نے ترقی کے نام پر لاھور کا بیڑہ غرق کر دیا ھے جس سے لاھور کی تاریخی حیثت ھی بدل کر رکھ دی
ایل ڈی اے نے بغیر سوچے سمجھے رھائشی علاقوں کو کمرشل بنانے کی اجازت دیں جس کی وجہ سے لاھور کے زیادہ تر رھائشی گلبرگ شادمان ریواز گارڈن سمن اباد مسلم ٹاون گارڈن ٹاون فیصل ٹاون وغیرہ میں کنکریٹ و سیمنٹ کی بنی ھوئی بلند و بالا عمارتوں کی بھر مار ھو چکی ھے ان علاقوں سے لاکھوں بڑے سایہ دار درخت کاٹ دیئے گئے لوکل طرز تعمیر کی بجائے یورپی طرز تعمیر کے مطابق کئی کئی منزلیں پلازے بنائے گئے اور بنائے جارھے ھیں جو چاروں اطراف سے شیشہ لگا کر بند کر دئیے گئے جو مقامی موسموں سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے ایک ایک پلازے میں سینکڑوں اہر کنڈیشنر لگائے گئے جو تقربیا سارا سال چلتے ھیں ان کی زیریلی اور خطرناک گیسز بھی فضائی الودگی کا باعث بن رھی ھیں اسی وجہ سے لاھور میں موسم سرما میں سموگ کے ڈھیرے رہتے ھیں اس کے ساتھ ساتھ ایل ڈی اے نے سونا اگلتی زرعی زمینوں پر ھاوسنگ سوسائٹیز بنانے کی اجازت دیں جس کی وجہ لاھور میں سینکڑوں ھاوسنگ اسیکمیں بن چکی ھیں اور کچھ بن رھی ھیں لینڈ مافیا نے زرعی زمینوں کا بیڑا غرق کر رکھا ھے لاھور و دیگر شہروں کے اردگرد لاکھوں ایکڑ زرعی زمینں اسی چیرہ دستیوں کا شکار ھو چکی ھے
لاھور میں مختلف رھائشی علاقوں میں قائم فیکڑیوں سے خارج ھونے والی زیریلی گیسز، سڑکوں پر چلتی لاکھوں گاڑیاں چنگچی وغیرہ کے ساتھ ساتھ سالوں جاری رہنے والے ترقیاتی منصوبوں بھی فضائی الودگی کا باعث بن رھی ھیں اسی وجہ سے لاھور ماحولیاتی الودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ھو چکا ھے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے لاھور دنیا میں نمبر ون پوزیشن پر اچکا ھے اسی خطرناک فضائی الودگی کی وجہ سے لاھور کے شہری انکھیں پھیپھیڑے دل اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ھو چکے ھیں صاف و شفاف اکسجین نایاب ھو چکی ھے
مسلم اور انگریز حکمرانوں نے لاھور شہر اور گردونواح میں لاتعداد باغات پارک اور سڑکوں کے کناروں پر سایہ داد پھل داد درخت لگائے جن کے نشانات ابھی بھی دیکھے جا سکتے ھیں ان درختوں کی وجہ سے لاھور کا موسم معتدل رہتا تھا مگر پھر ھم نے نئی نئی سڑکیں عمارتیں پلازے اور نئی نئی ھاوسنگ سوسائٹیاں بنانے کے چکر میں ھزاروں لاکھوں بڑے تناور درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر بیچ دیا اور جو نئی بلڈنگ ۔پلازے سکولز کالجز اور دفاتر بنائے وھاں درختوں کا نام ونشان نظر نہیں اتا ۔اگر کوئی شجر کاری کی بھی تو برائے نام جس میں چھوٹے چھوٹے یورپین ٹائپ کے پودے لگائے پیسہ بنایا اور گھر کو چل پڑے ۔
جس سے لاھور کے موسم میں سخت تبدیلیاں واقع ھو گئیں اور شدید قسم کی گرمی پڑنی شروع ھوگئیں ۔سال میں گرمیوں کا دورانیہ بڑھ گیا حتی کہ جون جولائی میں لاھور کا ٹمریچر 48 سے 50 سنٹی گریڈ تک پہنچ گئے اور اوپر سے ھم نے اپنا قدیمی کھلا اور ھوا دار طرز تعمیر بھی تبدیل کر دیا اور بالکل بند تعمیرات شروع کر دیں جس سے بجلی اور ائر کنڈیشنرز کا استعمال بڑھ چکا ھے اور ان کی گرم ھوائیں ماحول کو تباہ اور شدید گرمی پیدا کر رھی ھیں جس سے لاھور جل رھا ھے اور مارچ اپریل جیسے بہار کے مہینے بھی گرم ھو چکے ھیں جبکہ حکمران و بیورکریسی اے سی والے کمروں اور گاڑیوں میں بیٹھے ارام و سکون کی بانسی بجا رھے ھیں
اور دوسری طرف برسات کے موسم کی بات کریں تو تب بھی لاھور کا حال برا ھوتا ھے لاھور میں بارش نہ ھو تو مٹی دھول اور اگر بارش ھو جائے تو پھر ھر طرف پانی ھی پانی نظر اتا ھے سڑکیں انڈر پاسز بستیاں حتی کہ پورا لاھور برساتی پانی میں ڈوب جاتا ھے اس میں ماڈرن اور نشبی علاقوں کی کوئی تمیز نہیں رہتی۔ نکاس اب کا کوئی مستقل حل نہیں صرف ڈنگا ٹپاو پالیسی پر ھی عمل کرتے ھیں
ھم نے لاھور میں سڑکوں پہ سڑکیں بنا بنا کر ان کو اتنا اونچا کر دیا ھے کہ ابادی کئی کئی فٹ نیچے ھو گئی ھے مثال کے طور پر فیروزپور روڈ 1988 میں موجودہ سڑک سے کم از کم چھ سے سات فٹ نیچے تھیں اگر اپ مشاہدہ کرنا چاھیے تو گلیکسی کے اردگرد واقع بلڈنگ و ابادی کو دیکھ لیں
دنیا میں اصول ھے کہ جس سطح پر ایک دفعہ سڑک بنائی جاتی ھے وہ ہمیشہ اسی لیول پر رہتی ھے مگر وطن عزیز میں ھم بار بار پتھر ڈال ڈال کر سڑک بناتے ھیں جس سے سڑکیں دن بدن اونچی ھوتی جا رھی ھیں اور گھر نیچے سے نیچے اگر اپ ملتان روڈ کا مشاھدہ کریں جو پچھلے کئی سالوں میں بار بار بن چکی ھے اور ھر دفعہ اس پر پتھر ڈال ڈال کر اتنا اونچا کردیا ھے کہ اردگرد کی ابادیاں کئی کئی فٹ نیچے ھو چکی ھیں جب بارشیں ھوتی ھیں تو مین سڑک کا پانی گھروں میں چلا جاتا ھے کسی کو ہوش نہیں ھے عوام بھی سو رھے ھیں اور ایل ڈی اے والے نوٹ کھا کر موج مستی کر رھے ھیں جب کہ ٹھیکیدار نوٹ بنا رھے ھیں بارش ھوتی ھے گھروں میں پانی اجا تا ھے اگر کبھی چند دن مسلسل بارشیں ھوگیں تو لاھور ویسے ھی ڈوب جائے گا اس کی گلیاں و محلے وینس کا نظارہ پیش کریں گئیں
سڑک بنانے کا بین الاقوامی اصول ھے کہ سڑک جس لیول پر ھو اس کو بیس سال بعد بھی اسی لیول پر ھونا چاھیے مگر ھم نے جب بھی کوئی سڑک بنانے کا فیصلہ کیا تو ھم نے ھر دفعہ انہی سڑکوں کو مذید پتھر ڈال ڈال کر اونچا کردیتے ھیں اور سڑکوں کے ارد گرد والی ابادیاں خودبخود نیچے ھوتی ھے
ایک وقت تھا کہ ھر سڑک کے دونوں اطراف بارشی پانی کے نکاس کی نالیاں بناتے تھے مگر پھر ھمارے محکمے سڑکوں کے ساتھ بارشی پانی کے نکاس کے نالیاں تعمیر کرنے ھی بھول گئے جس کی وجہ سے پانی سڑکوں پر ھی جمع رہتا ھے اور گاٰڑیوں کے ٹائروں سے ضائع ھوجاتا ھے ماھرین کے مطابق پانی سڑک کے لیے زہر قاتل ھے جس سے سڑکیں ٹوٹ پھوٹ شکار رہتی ھیں مگر ھم نے ٹھیکے لینے اور پیسے کمانے کے چکر میں سڑکیں اونچی سے اونچی کرتے جارھے ہیں۔
برسات میں جب بھی بارش ھوتی ھیں تو شہری ڈوبتے ھیں قیمتی سازوسامان تباہ بھی ھوتا ھے مگر ھم صبر و شکر کرکے بیٹھے رہتے ھیں ۔۔اس صورت حال سے لاھور اور دوسرے شہروں کا حلیہ ھی بگڑ چکا ھے ۔۔۔
لاھور کی اسی فیصد سے زیادہ شہری صرف جلنے اور ڈوبنے کے لیے رہ گئے ھیں اس تباھی میں ھم سب شریک ھیں کوئی بھی اپنی شہری ذمہ داریاں پوری نہیں کر رھا اگر ھر بندہ اپنے گھر دکانوں دفاتر پارگنگ ایریا وغیرہ میں لوکل سایہ دار درخت لگائے تو انے والی نسل اس تباھی سے بچ سکتی ھے
========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC