میسی کا خوبصورت دیس ارجنٹائن جہاں کی حسینائیں میک اپ نہیں کرتیں


رب کا جہاں
نوید نقوی
صاحب صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ میرے استاد محترم جاوید چودھری صاحب آج کل ارجنٹائن میں ہیں اور ایک بڑے نجی نیوز پیپر کے قارئین کو وہاں کی سیر کروا رہے ہیں۔ میرے ایک پیارے دوست جو خود کو میرا فین بتاتے ہیں حالانکہ میں ان کی بہادری اور ایمانداری کا قائل ہوں اور خود ان کا فین ہوں۔ انسپکٹر حسن اقبال صاحب جن کا کہنا ہے کہ جو لوگ پولیس جیسے محکمے میں سروس کرتے ہیں وہ سیر و تفریح کا شوق پورا نہیں کر سکتے، اس لیے رب کا جہاں پڑھ کر اپنا یہ شوق پورا کر رہا ہوں اور اب ہمیں جنوبی امریکہ کے اس جدید اور قدیم فن و ثقافت کے حامل خوبصورت ملک ارجنٹائن کی سیر کروائیں جہاں آج کل آپ کے استاد موجود ہیں۔ اس لیے ان کی فرمائش کو پورا کرتے ہوئے آج ہم رکشے کا رخ دنیائے فٹبال کے عظیم بادشاہ میسی کے دیس کی طرف کرتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ارجنٹائن ایک دل چسپ اور خوبصورت ملک ہے۔ یہاں کے لوگ بہت مہذب اور خوب صورت ہیں۔ حتیٰ کہ یہاں کی خواتین میک اپ تک نہیں کرتیں ہیں، کیوں؟ کیوں کہ انھیں میک اپ کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، ارجنٹائن میں یورپ کی مختلف نسلوں کے اتصال سے ایک ایسی خوب صورت نسل پیدا ہوئی ہے جو میک اپ کی ضرورت سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ارجنٹائن کی خواتین اور مرد دنیا میں خوبصورتی میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ یہاں مثال مشہور ہے کہ ارجنٹائن کی خواتین کو لپ سٹک تک نہیں لگانی پڑتی، عورتیں سونے کے زیورات بھی نہیں پہنتیں لہٰذا ارجنٹائن میں زیورات کی دکانیں نہیں ہیں تاہم چاندی کے ہلکے زیورات کا رجحان ہے اور یہ صنعت زیادہ تر بھارتی اور پاکستانی نژاد شہریوں کے کنٹرول میں ہے۔ ارجنٹائن کا کل رقبہ 2,780,400 مربع کلومیٹر ہے، جو اسے برازیل کے بعد جنوبی امریکہ کا دوسرا سب سے بڑا ملک اور دنیا کا آٹھواں بڑا ملک بناتا ہے۔ ارجنٹائن ہسپانوی بولنے والے ملکوں میں سب سے بڑا ملک بھی ہے۔ یہ ملک 23 صوبوں اور ایک خود مختار شہر بیونس آئرس، جو ملک کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر بھی ہے، پر مشتمل ہے۔ بیونس آئرس ارجنٹائن کا مالیاتی، صنعتی، تجارتی و ثقافتی مرکز ہے۔ اس کی بندرگاہ دنیا کی مصروف ترین بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کو پارکوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ فٹ بال کی تاریخ کی معروف شخصیت ڈیاگو میراڈونا اسی شہر کے نواح میں پیدا ہوئے اور تقریباً تمام عمر یہیں پلے بڑھے۔ اس ملک کے تمام صوبوں اور دارالحکومت کے اپنے اپنے آئین ہیں، لیکن یہ ایک وفاقی نظام کے تحت موجود ہیں۔ اس کی آبادی 2022 کی مردم شماری کے مطابق 47,327,407 نفوس پر مشتمل ہے۔ ارجنٹائن کی سرزمین انڈیز پہاڑی سلسلے اور بحرِ اوقیانوس کے درمیان واقع ہے۔ اس کے شمال میں پیراگوئے اور بولیویا، شمال مشرق میں برازیل اور یوراگوئے، جبکہ چلی جنوب اور مغرب کی جانب واقع ہے۔ سمندری حدود جنوب مغرب میں جنوبی بحر اوقیانوس اور ڈریک راستے سے بھی ملتی ہے۔ ارجنٹائن فاک لینڈ جزائر، جنوبی جارجیا اور جنوبی سینڈوچ جزائر، جنوبی پیٹاگونین برف کے میدان اور انٹارکٹیکا کے ایک حصے پر بھی اپنی حاکمیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ فاک لینڈ جزائر پر اس کی برطانیہ سے جنگ بھی ہو چکی ہے۔ ارجنٹائن براعظم جنوبی امریکا کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے اور اس کی اوسط حدِ عمر اور فی کس جی ڈی پی بلند ہے۔ مستقبل میں ترقی کے لیے ارجنٹائن کی معاشی بنیادیں مضبوط ہیں۔ اور G-15 اور G-20 کا رکن بھی ہے۔ ارجنٹائن اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن، مرکوسور، لاطینی امریکی اور کیریبیئن ریاستوں کی کمیونٹی اور آئیبیرو۔امریکن ریاستوں کی تنظیم کا بھی بانی رکن ہے۔ اس کے 1 جنوری 2024 سے برکس میں شامل ہونے کی توقع ہے۔ ملک میں چار مختلف علاقے ہیں جن میں زرخیز وسطی میدان، نسبتاً پہاڑی، تیل کی دولت سے مالامال جنوبی سطح مرتفع، شمالی مسطح میدان اور چلی کی سرحد کے قریب مغربی انڈیز پہاڑی سلسلے شامل ہیں۔ اہم دریاؤں میں پرانا، پل کومیاؤ، پیراگوئے، برمیجو، کولوراڈو، ریو نیگرو، سالاڈو اور یوراگوئے اہم ہیں۔ وسطی ارجنٹائن میں لمبی گھاس کے میدان پائے جاتے ہیں۔ اس علاقے میں مٹی کا رنگ کالا سیاہ ہے۔ اسی وجہ سے یہ علاقہ پورے کرہ ارض پر زرخیز ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ کھیلوں کے میدان میں اس ملک نے فٹبال جیسے کھیل میں اپنی بادشاہت قائم رکھی ہے۔ ارجنٹینا نے 1978 اور 1986 میں ورلڈکپ اپنے نام کیا تھا اس کے بعد 2022 میں قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈکپ میں ایک دلچسپ مقابلے کے بعد فرانس کو شکست دے کر فاتح بھی رہا ہے۔ اس ملک کے سٹار کھلاڑی لیونل میسی کو پوری دنیا میں ایک طلسماتی شخصیت کا درجہ حاصل ہے۔ ارجنٹائن کے علاقائی سمندر میں بحری حیات بکثرت ہے۔ یہاں کورل ریف بھی ہے جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ یہ زیادہ قدیم ملک نہیں ہے۔ ہسپانوی مہم جو یہاں سنہ 1516 میں آئے اور جنوبی امریکا میں اپنا قبضہ جما لیا۔ ان کی پہلی آبادی دریائے پرانا کے کنارے آباد قلعہ تھا۔ بیونس آئرس کے مقام پر ان کی پہلی مستقل آبادی 1536 کو قائم ہوئی۔ تاہم اسے مقامی قبائل نے تباہ کر دیا تھا۔ اس شہر کو دوبارہ سنہ 1580 میں بسایا گیا۔ بیونس آئرس کو 1776 میں دار الحکومت کا درجہ ملا۔ اس کے بعد سے بیونس آئرس ارجنٹینا کا تجارتی مرکز بن گیا۔ سنہ 1806 اور 1807 میں دو بار برطانویوں نے ناکام حملے کیے۔1880 سے 1929 کے دوران ارجنٹائن کی خوشحالی اور طاقت میں اضافہ ہوا اور دنیا کے دس امیر ترین ملکوں میں سے ایک بن گیا۔ ارجنٹائن بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں کوالٹی ایجوکیشن پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور تمام شہریوں کے لیے تعلیم مفت ہے اس کے علاوہ مختلف تعلیمی وظائف کے ذریعے لائق طالب علموں کی سپورٹ بھی کی جاتی ہے۔ تعلیم نہ صرف سکولوں،کالجوں تک بلکہ یونیورسٹی سطح تک فری ہے اور ملکی معیشت کے تمام اتار چڑھاؤ کے باوجود آج تک فری ہے۔ اس کا معیار بھی بہت اعلیٰ ہے یہ لوگ میڈیکل سائنس میں بہت آگے ہیں۔ دنیا کے بے شمار امراض کے علاج ارجنٹائن میں ایجاد ہوئے ہیں۔ فوجی لحاظ سے بھی یہ ایک طاقتور ملک ہے۔ ارجنٹائن میں ایک دلچسپ روایت ہے کہ یہ لوگ 15 سال کی بچی کو دلہن بناتے ہیں اس کے اعزاز میں فنکشن کرتے ہیں تمام خاندان کو دعوت نامے بھیجے جاتے ہیں اور آخر میں اس بچی کو پورے شہر کا وزٹ کراتے ہیں، اس تقریب کا یہ مطلب ہوتا ہے یہ بچی اب آزاد ہو چکی ہے اور یہ اب اپنی زندگی کا فیصلہ خود کر سکتی ہے اور ننانوے فیصد لڑکیاں 15 سال کے بعد اپنے فیصلے خود شروع کر دیتی ہیں۔ ہاں یہ اور بات ہے پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ایسی آزادی زہر قاتل ثابت ہوگی۔ بیونس آئرس ارجنٹائن کا دارالحکومت بھی ایک جدید اور تمام سہولیات کا حامل شہر ہے۔ بیونس آئرس امریکہ اور یورپ کے بڑے بڑے دارالحکومتوں سے کسی طور پر بھی کم نہیں ہے۔ اس شہر کی 98 فیصد آبادی کو ورزش کرتے اور پارکس میں ہنستے کھیلتے دیکھنا معمول کی بات ہے۔ یہ لوگ پارکس اور ورزش کے دیوانے ہیں۔
پورے شہر میں درجنوں پارکس اور گرین ایریاز ہیں اور شام کے وقت تمام آبادی گھروں اور دفتروں سے نکل کر ان میں بیٹھ جاتی ہے۔ یہ لوگ سائیکل بھی شوق سے چلاتے ہیں، دوڑ بھی لگاتے ہیں اور بچوں کے ساتھ بھی کھیلتے ہیں۔ رات کا کھانا باہر کھانے کا رجحان بھی عام ہے شاید اسی لیے ہزاروں کی تعداد میں ریستوران ہیں اور یہ دروازے تک بھرے ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہاں فوڈ کوالٹی پر کسی طور بھی کمپرومائز نہیں کیا جاتا اس لیے زیادہ تر لوگ گھر سے باہر کھانے میں تردو محسوس نہیں کرتے۔ یہ لوگ دوسروں پر توجہ نہیں دیتے‘نہ ہی کسی دوسرے کی طرف آنکھ بھر کر دیکھتے ہیں، صرف اپنے اوپر فوکس کرتے ہیں۔ لباس بہت صاف ستھرا اور قیمتی پہنتے ہیں۔ کھانے پینے اور صحت پر بہت رقم خرچ کرتے ہیں۔ چھوٹے گھروں اور کمروں میں رہتے ہیں۔ مہمانوں کو صرف کافی شاپ اور ریستوران میں ملتے ہیں۔ شراب کے بہت رسیا ہیں۔ شام کے وقت آپ کو ہر شخص کے منہ سے شراب کی بو آتی ہے۔ چھٹیوں کے دنوں میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے۔ ارجنٹائن کی وائین اور بیئر پوری دنیا میں مشہور ہے اور آدھی سے زیادہ یہ لوگ خود ہی پی جاتے ہیں۔ ان کا گوشت اور ڈیری مصنوعات بھی پوری دنیا میں مشہور ہیں اور ارجنٹائن ان کی برآمدات سے کافی سرمایہ حاصل کر رہا ہے۔ آپ اگر شہر سے باہر نکل جائیں تو آپ کو ہزاروں کلومیٹر تک چراہ گاہیں اور ان میں صحت مند گائیں، بھیڑیں چرتی ہوئی ملتی ہیں۔ ارجنٹائنی اسٹیکس بھی دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جن کا ذائقہ آپ کو مدہوش کرنے کے لیے کافی ہے۔ کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کا تعلق بھی ارجنٹائن سے ہے۔ یہ ماتے نام کا ایک مشروب بھی بڑے شوق سے پیتے ہیں۔ ماتے پورے ملک میں پیا جاتا ہے اور ہر عمر کے مرد اور عورتیں اسے انجوائے کرتے ہیں اس کے کپ اور اسٹرا پورے ملک میں ملتے ہیں۔ ماتے جڑی بوٹیوں کا ایک ایسا مرکب ہوتا ہے جس میں گرم پانی ڈال کر اسٹرا کے ساتھ پیا جاتا ہے۔ یہ نشہ آور بھی ہوتا ہے۔ آپ ملک میں کہیں چلے جائیں آپ کو لوگ وہاں ماتے پیتے ہوئے نظر آئیں گے حتیٰ کہ ٹیکسی ڈرائیور اور بڑی بڑی کمپنیوں کے سی ای او بھی ہاتھ میں ماتے کا کپ اور کندھے پر گرم پانی کا تھرماس لٹکائے نظر آئیں گے۔ یہاں کی لوک داستانوں میں صحت پر بہت زور دیا جاتا ہے اور بچوں کو چھوٹی عمر سے ہی کھیل کے میدانوں سے مانوس کیا جاتا ہے۔ یہاں ہسپتال ویران اور کھیل کے میدان آباد ہیں۔
===========================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC