سر سید یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ولی الدین کا پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے سینیئر صحافی محمد وحید جنگ کو خصوصی انٹرویو

سر سید یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ولی الدین کا پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے سینیئر صحافی محمد وحید جنگ کو خصوصی انٹرویو

انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف کراچی کے زیر اہتمام شعبہ ریاضی و سائنس سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی پر ساتویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد

دنیا بھر میں ان دنوں اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے حوالے سے کافی ریسرچ ہو رہی ہے اور نئی نئی خبریں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں پاکستان میں اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی حوالے سے کیا اقدامات ہو رہے ہیں اور ہمارے سائنس دان اور ریسرچرز اس سلسلے میں کیا خدمات انجام دے رہے ہیں اس اہم موضوع پر گزشتہ دنوں انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی آف کراچی کے زیر اہتمام شعبہ ریاضی و سائنس سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی پر ساتویں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد عمل میں لایا گیا اسی تناظر میں سر سید یونیورسٹی اف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ولی الدین نے پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے سینیئر صحافی محمد وحید جنگ کو خصوصی انٹرویو دیا اس موقع پر انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دو روزہ کانفرنس نہایت اہمیت کی حامل تھی سب جانتے ہیں کہ اس وقت اس بیس سائنس کو پوری دنیا میں توجہ حاصل ہے اور یہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں بہت سی چیزوں پر کام ہو رہا ہے اس پر توجہ بہت ضروری ہے سر سید یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی نے مل کر جو کانفرنس منعقد کی وہ نہایت مفید ثابت ہوئی اس دوران 30 سے زیادہ ریسرچ پیپرز پڑھے گئے یقینی طور پر یہ تمام ریسرچ پیپرز کافی معلوماتی اور مفید تھے اور ان سے کافی رہنمائی ملتی ہے سائنس خاص طور پر اسپیس سائنس کے شعبے میں بہت کچھ ہو رہا ہے ہو چکا ہے اور ہونے والا ہے

لہذا حالات سے باخبر اور اگاہ رہنا ضروری ہے ایک طرف تو 30 سے زیادہ ریسرچ پیپرز پڑھے گئے یہ اپنی جگہ اہمیت کی حامل بات ہے دوسری زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بہت مفید معلومات ملی ہے اگاہی ہوئی ہے اور سوچنے سمجھنے کے نئے زاویے ملے ہیں نوجوان نسل کے لیے یہ بہت اچھی بات ہے نوجوان سائنس دانوں کو انگیج کرنے کی کوشش ہے یہ بات سامنے ائی ہے کہ اسپیس سائنس میں کتنے شعبے ہیں جہاں پر کام ہو سکتا ہے ان ایریاز کی نشاندہی کی گئی ہے اب انڈسٹری کو بھی موقع ملے گا کہ وہ اگے بڑھ کر اس سلسلے میں کردار ادا کرے گزشتہ دنوں اپ کو یاد ہوگا میری ٹائم کے شعبے پر بھی بات ہوئی تھی اور اس میں کافی کام ہو سکتا ہے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ساتھ ہماری بات ہوئی ہے اور مشترکہ طور پر یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی ہے بہت اچھے لوگوں کا گروپ بن گیا ہے اس کے مثبت اور اچھے نتائج سامنے ارہے ہیں مقامی سطح پر اسپیس ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک سوال پر ڈاکٹر ولی الدین کا کہنا تھا کہ ہمارے سائنس دان کافی محنت اور کام کر رہے ہیں ہماری جامعات میں بھی ریسرچ کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اسی جانب توجہ مرکوز کی گئی ہے اب سائنس میں کافی ٹیکنالوجی اور ترقی ہو رہی ہے پرسنل یوز سے لے کر ادارہ جاتی سطح تک ہر طرح کے کام اور ایڈوانس مین ان ٹیکنالوجی ارہی ہے ہر روز کچھ نیا سامنے اتا ہے جسے سمجھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے انہوں نے بتایا کہ اپ کا سوال درست ہے کہ دنیا اگے چلی گئی ہے پاکستان کہاں کھڑا ہے اور مزید کیا کرنا چاہیے

پاکستان میں بھی سائنس اینڈ سپیس ٹیکنالوجی پر کافی کام ہو رہا ہے مزید کام جاری ہے جامعات کی ریسرچ کے ذریعے نوجوان سائنس دانوں کو ایک اچھا پلیٹ فارم مہیا ہو سکتا ہے اس شعبے میں انویسٹمنٹ کی ضرورت بھی ہے اور انے والے دنوں میں کافی ڈالرز کی شکل میں انویسٹمنٹ نظر بھی ارہی ہے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ وہ سائنس اینڈ ریسرچ کی تعلیم پر توجہ دیں اور محنت کریں اس میں پوری دنیا محنت کر رہی ہے اگے بڑھنے کا پوٹینشل ہے بہت سے مواقع ہیں اور اسکائی از د ی لمٹ کہا جاتا تھا اب اسکائی میں بھی لوگ اگے بڑھ رہے ہیں اور کام اگے ہی اگے بڑھ رہا ہے ۔ محنت کرنے والے ذہین لوگوں کے لیے مواقع ہمیشہ موجود رہتے ہیں ۔
======================

https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC