ٹیسلا انڈسٹریز پرائیویٹ لمیٹڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور پاکستان آلٹرنیٹو انرجی ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین عامر حسین کا شمار انجینئرنگ انڈسٹری اور بزنس کی انتہائی ذہین اور کامیاب شخصیات میں ہوتا ہے اپ کی پیشہ ورانہ خدمات اور کامیابیوں کا اعتراف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کیا جا چکا ہے اپنے شعبے میں انقلابی اقدامات کی وجہ سے آپ کو ملک اور بیرون ملک عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے گزشتہ دنوں پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ
جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے سینیئر صحافی محمد وحید جنگ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں جناب عامر حسین نے جن خیالات کا اظہار کیا انہیں قائرین کی دلچسپی کے لیے یہاں رقم کیا جا رہا ہے ۔
سوال ۔اپ ٹیسلا انڈسٹریز کے سی ای او اور پاکستان الٹرنیٹو انرجی ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین ہیں اس ایسوسییشن کے اغراض و مقاصد اور قیام کا پس منظر کیا ہے ؟
جواب ۔ بہت شکریہ ، متبادل انرجی کی مختلف اقسام ہیں کم و بیش 13 یا 14 مختلف قسم کی متبادل انرجی استعمال ہوتی ہے جس میں سولر ونڈ ہائیڈل تھرمل نیوکلیئر وغیرہ ۔بنیادی طور پر یہ پالوشن فری انرجی کہلاتی ہے ان مختلف اقسام کی انرجی کے معاملات کو اکٹھے کسی پلیٹ فارم پر شنوائی کا موقع نہیں مل رہا تھا پاکستان میں جو انرجی کے مسائل ہیں اور حکومت کے ساتھ پالیسی سازی کے حوالے سے بات کی جا سکے لہذا اس ایسوسییشن کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی اور اب یہ اپنا موثر کردار ادا کر رہی ہے سب کو ایک ساتھ لے کر اگے بڑھنے کی کوشش ہے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر اواز اٹھانی ہے اور بہتر پالیسی کے لیے کوشش کرنی ہے انرجی کے حالات سب کے سامنے ہیں کلین انرجی میں الٹرنیٹ انرجی ہی سب سے بہتر حال ہے ۔
سوال ۔ الٹرنیٹ انرجی کے معاملات پر کام کرنے والی کمپنیوں کو را مٹیریل اور دیگر قسم کے مسائل کا سامنا رہا ہے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی مشکلات بھی سامنے آئی ہیں اب کیا صورتحال ہے ؟
جواب ۔جی ہاں مسائل رہے ہیں چیلنج آج بھی موجود ہیں پہلے کمپنیاں کم تھیں اب ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے حکومت کی پالیسیاں مددگار نہیں تھی بلکہ مسائل پیدا کر رہی تھیں مشکلات تھیں صرف را مٹیریل کا نہیں سیلز ٹیکس اور ڈیوٹیز کا بھی مسئلہ تھا انورٹر پر امپورٹ کریں تو 21 فیصد سیلز ٹیکس اور لوکل مینوفیکچرنگ پر 35 فیصد ڈیوٹی اور 21 فیصد سیلز ٹیکس ۔ ان حالات اور مشکلات کی وجہ سے بہت سی کمپنیز نے کام بند کر دیا یا لوکل مینوفیکچرنگ میں کمی آئی ۔
سوال ۔اس شعبے میں بھی کیا مختلف کوالٹی اور کیٹگری کے حساب سے پروڈکشن اور امپورٹ ہوتی ہے ؟
جواب ۔ جی ہاں جیسے گاڑیاں مختلف برانڈ اور کمپنیوں کی ہوتی ہیں اور ان کی کیٹیگریز کے حساب سے ان کی کوالٹی اور ان کی قیمتوں کا تعین ہوتا ہے اسی طرح ہمارے شعبے میں بھی مختلف کیٹگری کی پروڈکشن اور مینوفیکچرنگ ہو رہی ہوتی ہے ہر کمپنی اور ادارہ اپ نے لحاظ سے ٹھیک کام کرتا ہے کیونکہ ان کی کیٹگری اور کوالٹی الگ الگ ہوتی ہے ۔
سوال ۔ ٹیسلا انڈسٹریز کا قیام کب عمل میں آیا ؟
جواب ۔ ٹیسلا انڈسٹریز کو 1992 میں قائم کیا گیا ۔ہماری توجہ دو چیزوں پہ رہتی ہے انرجی پروڈکشن اور انرجی سیونگ ۔ہماری کمپنی کی جو پروڈکٹ بھی اتی ہے وہ یا تو الٹرنیٹو انرجی پر کام کرتی ہے یا انرجی کنزمشن کو کم کر رہی ہوتی ہے تقریبا 60 فیصد انرجی سیونگ کرنے پر کام کرتے ہیں ۔ چین کے ساتھ مل کر ہم نے 11 سیٹر کمرشل وہیکل متعارف کرائی ہے الیکٹریکل وہیکلز پر کام ہو رہا ہے پشاور سے رحیم یار خان تک اپ سفر کر سکتے ہیں الیکٹریکل وہیکل پر بغیر چارجنگ کے ۔ابھی ملکی حالات کی وجہ سے کچھ منصوبوں پر کام روکا ہوا ہے پھر ان کو لانچ کریں گے ۔
سوال ۔اپنے تعلیمی پس منظر اور کیریئر کی کامیابیوں کے حوالے سے کچھ بتائیے ؟
جواب ۔میں نے بیچلرز مکینیکل انجینئرنگ میں کیا پھر ماسٹرز اور سیکنڈ ماسٹرز بھی انجینئرنگ میں ہی کیا میرے 13 پیٹنٹس رجسٹرڈ ہیں جن میں سے چھ انگلینڈ میں ایک چین میں اور باقی پاکستان میں ہیں اور یہ مسلسل گرو کر رہے ہیں پاکستان میں پیٹرن رائٹس نہیں ہوتے ان کو انفورس کرانا پڑتا ہے مثال کے طور پر ہمارے ایک معاملے میں کسی نے کاپی کر لیا اور کورٹ نے اسٹے دے دیا تو پانچ سال بعد فیصلہ ایا لیکن تب تک اس پروڈکٹ کی ویلیو ہی ختم ہو چکی تھی ۔
سوال ۔پاکستان میں توانائی کے بحران کا حل کیا ہے اپ جیسے ذہین لوگ اس مسئلے کا حل حکومت کو پیش کیوں نہیں کرتے ؟
جواب ۔ بظاہر یہ معاملہ بڑا اسان لگتا ہے لیکن یہ ایک پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہے پاکستان میں 40 سے 42 ہزار میگا واٹ بجلی بنانے کی گنجائش ہے سردیوں میں صرف سات سے اٹھ ہزار میگا واٹ بجلی استعمال ہوتی ہے اور گرمیوں میں 27 سے 28 ہزار میگا واٹ ۔تاریں صرف 21 یا 22 ہزار میگا واٹ کا بوجھ اٹھاتی ہیں ۔سردیوں میں بجلی سرپلس رہے گی اور گرمیوں میں ہمیشہ لوڈ شیڈنگ کرنی پڑے گی ۔ماضی میں جو فیصلے ہوئے وہ صحیح تھے یا غلط اس پر کمنٹ نہیں کرنا چاہتا لیکن جب زیادہ بجلی بنانے کے کارخانے لگائے گئے تو شاید سوچ یہ تھی کہ اگے چل کر انڈسٹری کی ضرورت بڑھے گی اور زیادہ بجلی درکار ہوگی لیکن ملکی حالات کی وجہ سے انڈسٹری اتنا ترقی نہیں کر سکی اور بجلی کی ضرورت اتنی نہیں بڑھی جس کی توقع تھی اب معاہدوں کی وجہ سے کپیسٹی چارجز تو دینے پڑ رہے ہیں اس کے دو تین راستے ہیں کہ ہم اس مسئلے سے نکل سکتے ہیں ایک تو یہ کہ انڈسٹری کو پرکشش مراعات دی جائیں تاکہ لوگ زیادہ انڈسٹری لگائیں اور انڈسٹری فروغ کرے اور زیادہ انرجی استعمال ہو دوسرا راستہ یہ ہے کہ اپنی گاڑیوں کو الیکٹرک وہیکل پر منتقل کر دیا جائے اور گاڑیاں انرجی استعمال کریں ۔ائی پی پی معاہدوں پر میں تبصرہ نہیں کرنا چاہتا جو فیصلے ہو چکے وہ ماضی کا حصہ ہیں لیکن مستقبل میں جو پالیسی بنانی ہے اس میں اسٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے بدقسمتی سے حکومت اج بھی اسٹیک ہولڈر سے اس طرح رابطہ نہیں کر رہی جس کی ضرورت ہے اسٹیک ہولڈرز کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ بات کس سے کرنی ہے کبھی کسی وزیر کا بیان ا جاتا ہے تو وہ بھی کسی سرکاری افسر کا ۔ اس حوالے سے واضح صورتحال ہونی چاہیے کوئی کنفیوژن نہیں ہونی چاہیے اسٹریک ہولڈرز ہی مسائل کا حل پیش کر سکتے ہیں اور بہتر پالیسی بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں ۔
https://www.youtube.com/watch?v=ak0DHASC