کام آئے دنیا میں انساں کے انساں

تحریر: زبیر بشیر
انسان فطری طور پر ہمدردی اور بے لوث جذبات سے کام کرنے کی خوبی سے مالا مال ہیں ۔ ایک معاشرے میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے درمیان انسانیت ایک ایسا رشتہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے اپنے فرض کی یاد دلاتا ہے۔ آج جب ہم میڈیا پر اکثر لالچ اور خود غرضی کی کہانیاں چھائی ہوئی دیکھتے ہیں تو افسوس ہوتا ہے لیکن ان اندھیروں کو کچھ کہانیاں کافور کر دیتی ہیں۔ ایسی ایک کہانی میں آپ کے ساتھ شئیر کروں گا جو یہ بتاتی ہےکہ انسانیت آج بھی زندہ ہے۔یہ کہانی چین کے صوبہ زے جیانگ کے شہر ہانگجو کے ایک ڈلیوری بوائے پینگ چنگلن کی ہے۔ جس نے کمال بہادر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریا کی بے رحم لہروں میں ڈوبتی ایک عورت کی جان بچانے لیے دریا میں چھلانگ لگا دی۔


یہ واقعہ تیرہ جون کا ہے پینگ کو پہلا آرڈر موصول ہوا ۔ وہ خوشی خوشی آرڈر ڈلیور کرنے جارہا تھا ۔ اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ جیسے ہی وہ دریا ئے کیانٹانگ کے پل پر پہنچے گا اس کی زندگی بدل جائے گی۔ وہ ایک عام ڈلیوری بوائے سے ایک ہیرو کا درجہ حاصل کرلے گا۔ پل سے گزرتے ہوئے کسی کے مدد کے لیے پکارنے کی آواز آئی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً دریا میں چھلانگ لگا دی۔ وہ 12 میٹر اونچے پل سے پلک جھپکتے ہی دریائے کیانٹانگ کی تلاطم خیز موجوں سے لڑنے لگا۔اس کی پرعزم روح نے اسے آگے بڑھایا، اس کے سامنے ایک واحد مقصد تھا اور وہ دریا میں ڈوبتی ہوئی انسانی جان کو بچانا تھا اور وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگیا۔
پینگ نے اس عظیم کارنامے کی بھاری قیمت چکائی ۔ اس ریسکیو آپریشن میں اسے شدید چوٹیں آئیں ، اس کی ریڑھ کی ہڈی میں کمپریشن فریکچر ہوا، اس کا موبائل فون اور دیگر قیمتی اشیا دریا کی بے رحم موجوں کی نظر ہو گئیں۔ پینگ نے بعدازں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی تمام تکلیفیں اور دکھ کے احساس اس وقت ختم ہوجاتے ہیں جب وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس نے ایک قیمتی جان بچائی ہے۔
کچھ لوگوں نے پینگ کے اس سارے عمل کو اپنے موبائل فون میں ریکارڈ کر لیا اور چینی سوشل میڈیا پر شئیر کردیا۔ یوں یہ ڈلیوری بوائے دیکھتے ہی دیکھتے پورے چین کا ہیرو بن گیا۔ہانگجو کی حکومت نے پینگ کے اس عمل پر اسے شہر کا اعلیٰ ترین سول اعزاز دیا۔ ایوارڈ کے ساتھ ساتھ پینگ کو 50 ہزار یوان کی رقم بطور انعام دی گئی۔ یہ ایوارڈ پینگ کو ہسپتال کے بستر پر دیا گیا جہاں وہ اپنے زخموں سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔ جسمانی تکالیف کے باوجود، اس مضبوط روح کے حامل شخص نے نہایت انکساری کے ساتھ اس ایوارڈ کو وصول کیا ۔وہ اب بھی یہ کہتا ہے کہ یہ اس کا فرض تھا۔
پینگ کی کہانی اس وقت پورے چین میں گردش کر رہی ہے۔ گوانگ ڈونگ سے جیانگسو تک کے نیٹیزنز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس بہادری کے واقعے کو زیر بحث لا رہے ہیں۔ پینگ کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انسانی عزم ناقابل تسخیر ہے اور یہ کہ انسانیت آج بھی زندہ ہے۔پینگ کی بہادری محض ایک شخص کا فوری اور فطری ردعمل نہیں ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ افراد معاشرہ کس طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ لوگوں کی جانب سے پذیرائی کے ساتھ ساتھ مقامی ادرے بھی پینگ کی خوب ستائش کرر ہے ہیں ۔ شہری پولیس کی جانب سے پینگ کو 30 ہزار یوآن نقد اور ” اچھے مددگا شہری “کا خطاب دیا گیا۔ اسی طرح پینگ کی ڈلیوری کمپنی نے بھی اسے 50 ہزار یوآن کے نقد انعام سے نوازا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کی کالج کی تعلیم کا تمام خرچ اپنے ذمہ لینے کا اعلان کیا۔
پینگ کی کہانی اُس موروثی نیکی کی گواہی دیتی ہے جو انسانی روح کے اندر پوشیدہ ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی کی افراتفری اور غیر یقینی صورتحال کے درمیان، پینگ جیسے لوگ ہیں جو دوسروں کی حفاظت اور ترقی کے لیے اپنی طاقت سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ اس کا بے لوث عمل اس جوہر کو مجسم کرتا ہے کہ انسان ہونے کا اصل مطلب کیا ہے – محبت کرنا، دیکھ بھال کرنا، اور اپنے آس پاس کے لوگوں کی زندگیوں پر بامعنی اثر ڈالنا۔ ہمدردی کا ایک چھوٹا سا اشارہ ہو یا بہادری کا عظیم عمل، نیکی کا ہر کام زندگی کو بدلنے اور تبدیلی کی تحریک دینے کی طاقت رکھتا ہے۔
پینگ کی کہانی بھی ایک طاقتور یاد دہانی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، اور یہ کہ احسان اور بے لوث اعمال کے ذریعے ہی ہے کہ ہم معاشرے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ آئیے ہم اس واقعے سے ایک سبق سیکھیں اور خود کو اس قابل بنائیں کہ ، جب کبھی ہمارے قریب کسی کو ضرورت ہو تو ہم اس کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں۔
=====================