مال مفت دل بے رحم ۔۔

تحریر۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
=============
مال مفت دل بے رحم یہ مقولہ پاکستانی سرکاری دفاتر پر فٹ ھوتا ھے جہاں نہایت قیمتی سرکاری اشیاء کو بے کار قرار دے کر بے دری سے سٹور کی زینت بنا دیا جاتا ھے زیر نظر تصویر ایک سرکاری افس میں پڑے ھوئے ایک ڈسپنسر کی ھے جو معمول خرابی کے باعث لاوارث سمجھ کر پھینک دیا گیا کیونکہ یہ سرکار کی ملکیت ھے اگر یہ کسی کی ذاتی پیسوں سے خریدا گیا ھوتا تو کسی بھی گھر میں کئی سال تک قابل استعمال رہتا ھے


عام طور پر دیکھا گیا کہ اگر کسی بھی سرکاری دفاتر کی کسی قیمتی چیز میں خرابی پیدا ھو جائے تو ھمارے سرکاری ملازمین ان کو مرمت کروانے کی بجائے سٹور یا دفاتر کی راہداریوں میں پھینک دیتے ہیں اور ان کی جگہ نئی اشیاء خرید لیتے ھیں کیونکہ مرمت میں کمشن نہیں ملتا جو نئی اشیاء کی خریداری میں ملتا ھے
اپ کسی بھی سرکاری دفتر میں جائیں اپ کو قیمتی سے قیمتی گاڑیوں سے لیکر کرسی میز تک اشیاء خراب حالت میں مل سکتی ھیں اگر سٹور میں پڑی اشیاء کسی نجی دفتر یا گھر میں ھوتیں تو سالوں کارامد اور قابل استعمال رہتیں
سرکاری ملازمیں کی بدنیتیوں سے لاکھوں مالیت کی اشیاء بے کار پڑی رہتی ھیں اور ان کی جگہ سرکاری دفاتر نئی نئی قیمتی اشیاء خرید لیتے ہیں جن پر خرچے کے ساتھ ساتھ کمشن الگ وصول کیا جاتا ھے
پھر یہی ملازمین سیاست دانوں کو گالیاں دیتے ہیں کہ ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں یہی ھماری بدقسمتی ھے کہ ھم صرف اپنے بارے میں سوچتے ھیں
ایک تجویز ھے کہ سرکاری دفاتر میں پڑی ھوئی خراب گاڑیاں و دیگر مشینری انہی سرکاری دفاتر کے ملازمین کو نیلام کر دی جائیں تاکہ ان بے کار اشیاء کو مرمت کروا کر استعمال کیا جاسکتے اور سرکار کے سٹور بھی خالی ھو جائیں گے

=========================