آؤ لاہور چلیں اور کاشف شہزاد چوہدری کی میزبانی سے لطف اندوز ہوں


رب کا جہاں
========

نوید نقوی
========

صاحب صاحبہ رب کا جہاں ایک ایسا سلسلہ ہے جس کو پڑھ کر آپ کا دل امید کی روشنی اور علم و ادب کی طاقت سے منور ہو جائے گا۔ مورخہ پانچ جون کو میں اپنے گاؤں کی حسینیہ مسجد میں ظہرین کی نماز ادا کر رہا تھا جب پنجاب ٹیچرز یونین کے تحصیل صدر امجد خٹک صاحب اور بانی پنجاب ٹیچرز یونین جنوبی پنجاب رانا شہباز صفدر صاحب کی یکے بعد دیگرے کالز آئیں کہ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے کے لیے پریس کلب لاہور سے وزیراعلیٰ ہاؤس تک پنجاب ٹیچرز یونین، پیکٹ ایپکا اور اگیگا سمیت تمام سرکاری ملازمین کی تنظیموں نے پر امن ریلی نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اس لیے آپ کو آج شام ہی لاہور روانہ ہونا ہے اور آپ نے عرفان صاحب اور ضلعی صدر حافظ عمر اقبال صاحب کے ساتھ ضلع رحیم یار خان کی نمائندگی کرنی یے۔ میرے لیے یہ دونوں محترم اساتذہ ہیں اور اساتذہ وقار کی بحالی کے لیے ان کی گراں قدر خدمات اور کاوشیں ہیں اس لیے انکار نہ کر سکا اور رانا شہباز صفدر صاحب نے خصوصی طور پر یہ بھی ہدایت کی کہ آپ نے وزیراعلیٰ ہاؤس کے مرکزی گیٹ پر اساتذہ کے مسائل کے حوالے سے تقریر بھی کرنی ہے۔ میں نے فوری طور پر بال وغیرہ بنوانے کے لیے حجام کا رخ کیا۔ لاہور میرا پہلا عشق ہے، اس کے بارے میں جیسا سنا تھا یہ اس سے بڑھ کر خوبصورت ہے۔ میرا 2010 میں اس پیارے شہر کا پہلا وزٹ اس لیے بھی یادگار تھا کہ میں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ باقی ساری زندگی لاہور میں ہی گزاروں گا اور پورے آٹھ ماہ میں ایک دن بھی گھر کی یاد نے مجھے اس لیے نہ ستایا کہ یہاں کے باسی بہت مہربان اور شفیق ہیں۔ پردیسیوں کے ساتھ کم و بیش ہر لاہوری کا رویہ مشفقانہ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ لاہور ایک ایسا مقناطیسی شہر ہے جس کی یادوں سے چھٹکارا عمر بھر نہیں ملتا۔ لاہور کے نام میں ایک طلسم، عجیب و دلکش کشش اور پراسراریت ہے۔ اس کے حسن و جمال کا جادو سر چڑھ کے بولتا ہے۔ لاہور ایک شہر ہی نہیں بلکہ ایک کیفیت کا نام ہے ۔ یہ کیفیت اس شہر کی روشن گلیوں اور اس کے پرانے تاریخی باغات، جدید پارکوں میں چلنے پھرنے کے بعد دل کی گہرائیوں میں جذب ہوجاتی ہے۔ شاید ہی کوئی شخص ہو جو لاہور میں رہا ہو اور اسے بھول جائے۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ لاہور دنیا کے ان گنے چنے خوش نصیب شہروں میں سے ایک ہے جو اپنی تاسیس کے بعد مسلسل آباد چلے آرہے ہیں۔ مشہور زمانہ انگریز شاعر جان ملٹن اپنی شہرہ آفاق نظم پیراڈائز لاسٹ میں آگرہ اور لاہور کا شمار ان شہروں میں کرتا ہے جن کا نظارہ حضرت آدم علیہ السلام نے جنت سے کیا تھا۔ گویا لاہور کو جنت میں بیٹھ کر بھی دیکھا جاسکتاہے۔ لاہور ہر دور میں فن و ثقافت اور علم و صحافت کا گہوارا رہاہے۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے اور میں آج بھی اس بات پر پچھتاتا ہوں کہ پنجاب یونیورسٹی میں میرٹ بن جانے کے باوجود ماس کام ڈیپارٹمنٹ میں ایڈمیشن نہ لے سکا، خیر بعد میں کراچی اور اسلام آباد کے چکر بسلسلہ روزگار لگتے رہے لیکن لاہور آنے کی خواہش دل میں ہی رہی اور حوادث زمانہ نے یہاں کا رخ نہ کرنے دیا۔ اب 2023 کا لاہور تیرہ سال پہلے والے لاہور سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اب ہم سب شادی شدہ ہو چکے اور بال بچوں والے ہونے کی وجہ سے لاہور کو ایک خاص اینگل سے دیکھنے پر مجبور تھے۔ لاہور پاکستان کا دوسرا بڑا شہر اور انتظامی لحاظ سے صوبہ پنجاب کا صوبائی دار الحکومت ہے۔ لاہور دنیا کا پندرہواں بڑا شہر ہے، اس میں 460 تاریخی عمارتیں ہیں اور اس شہر میں ایک محلہ مولیاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں کبھی مہاتما بدھ آ کر ٹھہرے تھے۔ جب برطانوی ماہرین نے 1959 میں یہاں کھدائی کی تو انھیں یہاں سے چار ہزار سال پرانے مٹی کے برتن ملے تھے۔ اسی طرح محلہ مولیاں میں 2900 سال پرانے نوادارات ملے۔ زندہ دلان لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر پاکستان کا دل کہا جاتا ہے۔ لاہور کے قریب بھارت کا شہر امرتسر صرف 31 میل دور واقع ہے، جو سکھوں کی مقدس ترین جگہ ہے۔ اسکے شمال اور مغرب میں ضلع شیخوپورہ، مشرق میں واہگہ اور جنوب میں ضلع قصور واقع ہیں۔ دریائے راوی لاہور کے شمال مغرب میں بہتا ہے۔ 27 مارچ 1955 کو ون یونٹ کا دارالحکومت لاہور کو قرار دیاگیا۔ اس وقت مغربی پاکستان میں تمام صوبے، قبائلی علاقے اور تمام ریاستیں بھی شامل تھیں۔ لاہور شہر ایک منفرد تاریخی، تجارتی اور ثقافتی مقام رکھتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس شہر کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ لاہور کے بارے میں ایک کہاوت مشہور ہے۔
جنے لاہور نی ویکھیا او جمیا ای نہیں۔ لاہور نے برصغیر کی آزادی کی تحریکوں میں ایک خاص کردار ادا کیا اور مسلم لیگ کی تحریک پاکستان میں جان اس وقت پیدا ہوئی جب لاہوری دل و جان سے اس شامل ہوئے۔ خیر اگر میں لاہور کا ذکر کرتا رہوں تو شاید کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ میں اور عرفان صاحب صبح صبح ہی دلکش اور دلفریب شہر زندہ دلاں پہنچ گئے۔ ہمارے ضلعی صدر حافظ عمر اقبال پہلے سے وہاں موجود تھے۔ وہ اور کاشف شہزاد چوہدری صاحب ہمیں ویلکم کرنے کے لیے گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول میں موجود تھے۔ اس کے ساتھ ہی لاہوریوں کی خاص پہچان اور ہر دلعزیز ڈش یعنی پائے اور نان چنے کا ناشتہ کھلایا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر میں اور حافظ عمر اقبال صاحب نے پیدل مارچ کرتے ہوئے داتا دربار پر حاضری دی، واپسی پر کاشف شہزاد چوہدری صاحب کے ساتھ مل کر پریس ریلیز تیار کی، وہ ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت ہیں اگر رب کے جہاں میں ان کا ذکر نہ کروں تو یہ بہت بڑی خیانت ہوگی۔ چوہدری صاحب نے اساتذہ کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر رکھی ہے اور اپنی جوانی، تنخواہ اور قیمتی وقت کی کبھی بھی پرواہ نہیں کی۔ انہوں نے ملازمین کے مسائل حل کروانے کے لیے کئی بار اپنی نوکری خطرے میں ڈالی اور بغیر کسی لالچ اور روپے کے مسئلے حل کروانے ہیں جس کے موجودہ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی بھی متعرف ہیں۔ میں جب پریس کلب لاہور تا وزیراعلیٰ ہاؤس تک ریلی میں شریک تھا بہت سے اساتذہ سے جو پنجاب کے مختلف اضلاع سے آئے ہوئے تھے کاشف شہزاد چوہدری صاحب کے بارے میں استفسار کیا تو سب نے بیک زبان ہو کر ان کی انسان دوستی اور اساتذہ وقار کی بحالی کے لیے کوششوں کی کھلے دل سے تعریف کی۔ چوہدری صاحب ایک مہمان نواز اور اعلیٰ ظرف انسان ہیں۔ وہ کیا بڑے چھوٹے سب کے دل جیت لینے کا ہنر جانتے ہیں اور ان کی مقبولیت اور لوگوں کے دل میں پیار و ادب کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جس طرف رخ کرتے لوگوں کا رخ بھی اسی طرف ہو جاتا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے شاگردوں کو بھی نظریہ پاکستان کی تعلیم دی ہے اور اس بات کا درس دیا ہے کہ پاکستان کے استحکام کی خاطر دن رات ایک کر دیں۔ ان میں ایک حقیقی لاہوری دکھتا ہے جو ہر کسی کے دکھ درد میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ لاہوریوں کی ایک ادا جو باقی تمام خطوں سے جدا گانہ ہے وہ ان کی زندہ دلی اور بہادری ہے۔ لاہور سے منسلک افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جس کا پاکستان کی فکری، نظریاتی، جغرافیائی، صنعتی، صحافتی، معاشی طور پر ترقی کے لیے خصوصی کردار ہے۔ اسی طرح تحریک پاکستان ہو یا بھارت کے ساتھ جنگیں ہوں لاہوریوں نے اپنی زندہ دلی اور بہادری سے دشمن کو بھی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس سے واپسی پر تمام اساتذہ کو کاشف صاحب نے نان والے پراٹھے کھلائے اور ساتھ میں کڑک چائے اور پھر ٹھندی ٹھار کولڈ ڈرنک نے مزا ہی دوبالا کر دیا۔ وہاں سے ہم عصر کے وقت روانگی کے لیے نکل پڑے اور سیدھا انارکلی بازار کا رخ کیا وہاں سے اُردو بازار گئے اور کچھ کتابیں لیں۔ اس دوران شدید بارش نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا اور ہم تینوں اورنج لائن پر کافی دیر تک آوارہ گردی کرتے رہے۔ تادم تحریر وفاقی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے اور اساتذہ اور ان کے رہنماؤں کی شدید گرمی میں قربانیاں رنگ لائی ہیں اور ملازمین کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ لاہور کے بارے میں انشاء اللہ تعالیٰ مفصل سیر انہی صفحات پر جلد کرواؤں گا۔ فی الحال میں آج کے رب کے جہاں کو یہیں پر ختم کرتا ہوں کہ اساتذہ ہوں یا دیگر سرکاری ملازمین کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتے ہیں اور جب تک یہ خوشحال نہیں ہوں گے تب تک ملکی مشینری صحیح معنوں میں نہیں چلے گی اس لیے سرکاری ملازمین کا خیال رکھنا ریاست کا فرض ہے تاکہ ملازمین جی جان سے ملک و قوم کی خدمت کر سکیں
================================