سپر پنجابی فلم بینوں کیلئے ایک اچھی تفریح


تحریر: نوید انجم فاروقی
=====================
آئی ایم جی سی ملٹی پلیکس سینما صوفی سٹی منڈی بہاء الدین کے منیجر نذر حسین کی طرف سے دعوت آئی کہ ریڈیو آواز ایف ایم 107 منڈی بہاء الدین کے آرجیز نئی پنجابی فلم ”سپر پنجابی“ دیکھنے کیلئے آئیں تو ہم اِس دعوت پر لبیک کہتے ہوئے بروقت جا پہنچے۔ نذر حسین بڑی خوش اخلاق طبیعت کے مالک ہیں اور ہمیشہ خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ملتے ہیں،وہ اپنے آفس میں موجود تھے جہاں اُن سے ملاقات ہوئی اور تھوڑی دیر میں وہ ہمیں لیکر سنیما ہال کے اندر داخل ہوئے اور ہمیں وی آئی پی سیٹوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی اے سی آن کر دیا جس نے تھوڑی دیر میں ہی موسم کو خوشگوار بنا دیا اورہم فلم شروع ہونے کا انتظار کرنے لگے۔فلم کے دوران بھی نذر حسین نے اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور چپس اور جوس کے ساتھ تواضع فرمائی۔
کچھ دیر میں سنیما کی سکرین روشن ہوئی اور پاکستان کا قومی ترانا بجنے لگا تو ہم اُٹھ کھڑے ہوئے اور ہمارے دیکھا دیکھی کچھ طلباء جو قریبی سیٹوں پر براجمان تھے وہ بھی کھڑے ہو گئے یوں ہم سب نے احترام سے اپنا قومی ترانہ سنا اور ساتھ ساتھ پڑھا۔اِس کے بعد کچھ انگلش فلموں کے ٹریلرز چلے اور پھر ہماری مطلوبہ فلم سپر پنجابی شروع ہو گئی۔اِس فلم کو معروف مزاحیہ فنکار امان اللہ اور مستانہ کے فن کے نام کیا گیا اور شروع میں اُن کی تصویر کے ساتھ تعارف پیش کیا گیا جسے دیکھ کر بہت اچھا لگا کہ فنکار اپنے سینئرز کو یاد کر رہے ہیں۔ افتخار ٹھاکر اور صفدر ملک کی پروڈکشن میں یہ فلم بنائی گئی ہے جس کیلئے افتخار ٹھاکر نے منڈی بہاء الدین کے فلم بینوں کیلئے کچھ دن پہلے پیغام بھی نشر کیا کہ اِس فلم کو ضرور دیکھیں۔ سپر پنجابی پاکستانی فلموں کے تناظر میں اور تکنیکی اعتبار سے اچھی فلم ہے جس میں مشرقی پنجاب کی پنجابی فلموں کی جھلک دکھائی دیتی ہے اور اِس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ افتخار ٹھاکر اُن فلموں میں کام کر رہے ہیں اور اُن کے انداز سے متاثر ہیں۔فلم کی کہانی اور سکرپٹ تھوڑا کمزور نظر آیا لیکن اداکاروں نے اُسے سنبھالا۔ زیادہ تر فنکار تھیٹر سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے جگتوں سے فلم بینوں کو ہنسانے کی کامیاب کوشش کی لیکن کوئی اخلاق سے گری ہوئی جگت نہیں کی۔ فلم کی فنکاروں کے لباس کاخاص خیال رکھا گیا اور کہیں فحاشی کا عنصر نظر نہیں آیا۔ کردار کی ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اداکارہ ثناء نے کہں کہیں چست لباس کا استعمال کیاا لیکن محسوس ہوا کہ دانستہ فحاشی سے بچنے کی کوشش کی گئی ہے جو کہ بہت اچھی بات ہے یہی چیز فیملیز کو دوبارہ سنیما کی طرف راغب کرے گی۔ایک دو سچویشنل ڈانس شامل ہیں جبکہ دو گانے زبردستی فلمی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے شامل کر لئے گئے ہیں۔ اِسی طرح کچھ سین اور مزاح بھی اضافی محسوس ہوا۔ فلم میں اچھے پیغامات بھی موجود ہے جس میں خاص طور پر پولیو کے حوالے سے اور معاشرتی اقدار کو پروان چڑھانے کے حوالے سے شامل ہیں۔
لاہور اور اِس کی تاریخی جگہوں کو اُجاگر کیا گیا ہے اور چونکہ یہ فلم مشرقی پنجاب والوں کیلئے بھی بنائی گئی ہے تو اِس میں ایک کردار سکھ دکاندار کا بھی شامل کیا گیا ہے۔ فلم کے ہیرو محسن عباس اور ناصر چنیوٹی نے کھل کر اداکاری کی ہے، قیصر پیا کو ایک سین کیلئے یونہی اضافی شامل کیا گیا ہے۔ گوگا پسروری کی یہ پہلی فلم ہے اُنھوں نے بھی اچھے انداز سے اپنا کردار نبھایا، ہنی البیلا، نواز انجم، افتخار ٹھاکرنے بھی اچھی اداکاری کی۔ فلم میں تشدد بالکل نہیں دکھایا گیا فائٹ بھی مزاحیہ انداز میں لڑی گئی اور دیکھنے والوں کو محظوظ کیا گیا۔
فلم میں کئی ایسے جملے اور جگتیں تھیں جنہوں نے فوری ہنسنے پر مجبور کیا اور کچھ جذباتی سین ایسے بھی تھے جو آنکھوں میں نمی لے آئے یہ بھی اِس فلم کی کامیابی ہے۔ بہر حال نئی کروٹ لیتے ہوئے پاکستانی سینما کیلئے سپر پنجابی ایک سہارا ثابت ہوگی اور فلم دیکھنے والوں کو ٹکٹ کے پیسے ادا کرنے کا افسوس نہیں ہوگا۔ فلم مزید بہتر ہو سکتی تھی اور یہ گنجائش تو ہمیشہ موجود ہوتی ہے لیکن پھر بھی یہ پاکستانی فلموں میں ایک حوصلہ افزاء اضافہ ہے اور اُمید کی جا رہی ہے کہ آنے والی فلمیں مزید بہتر ہوتی جائیں گی اور فلم بینوں کیلئے یہ تفریح واپس آ جائے گی جو کہ ایک اچھی تفریح ہے۔
========================