آٹزم سے نبرد آزما ہونے کے لیے مختلف سینٹرز کا قیام ناگزیر ہے ، پاکستان سینٹر فار آٹزم کی سی ای او محترمہ ایلیا بتول حیدری کی جیوے پاکستان ڈاٹ کام کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔


دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی آٹزم ڈے منایا جاتا ہے اس حوالے سے آٹزم کا شکار افراد کو سہولتیں فراہم کرنا اور ان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عوام میں شعور اور آگاہی بڑھانے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں سرکاری اور نجی سطح پر جو ادارے اور شخصیات فعال کردار ادا کر رہی ہیں وہ قابل تعریف ہیں گزشتہ دنوں آٹے کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس کے بعد پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ جیوے پاکستان ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان سینٹر فار آٹزم کے چیف ایگزیکٹو آفیسر محترمہ ایلیا بتول حیدری نے سینئر صحافی محمد وحید جنگ کے سوالات پر بتایا کہ بنیادی طور پر ایسے سیمینار منعقد کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں میں آگاہی پھیلے اور لوگوں کو پتہ ہو کہ اس طرح کا ایک ڈس آرڈر ہے جو سوشلائزیشن اور کمیونیکیشن میں کمی کی وجہ سے بچوں کو ایڈجسٹ کرنے میں مسئلہ دیتا ہے بچے اور ایسے افراد مسائل کا شکار رہتے ہیں کچھ چیزیں تو ہم بچوں میں کام کرکے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ چیزیں بلو کو اپنے اندر بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔


ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بچوں کی مختلف تھراپی کے مواقع موجود ہیں اور مختلف مقامات پر اس طرح کی سہولت فراہم کی جا رہی ہے لیکن یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ بڑوں کے لئے اسی طرح پی کے مواقع نہیں ہیں خود ہماری اور زیشن پچھلے دس سال سے کام کر رہی ہے جو بچے آٹھ دس سال کی عمر میں ہمارے پاس آئے تھے آج وہ اٹھارہ بیس سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اب ان کی ضروریات مختلف ہیں اور ان کو ایڈریس کرنا ضروری ہے ۔
پاکستان میں آٹزم کے شکار افراد کی تعداد کتنی ہے ؟ اس حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس کوئی صحیح اعداد و شمار تو نہیں ہے لیکن بیرونی دنیا میں 38 میں سے ایک بچہ متاثر ہے اور 2014 میں پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر دو سو میں سے ایک بچہ متاثر تھا اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ سینیٹرز کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے تو وہاں آنے والے بچوں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور مختلف سینٹرز مزید بچوں کو نہیں لے کے بارہے کیوں کہ ان کے پاس گنجائش کم ہے اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بچوں کی تعداد زیادہ ہے ۔


ایک اور سوال پر انہوں نے بتایا کہ آٹزم میں مختلف طرح کے بچے ہوتے ہیں ہر بچہ ہر اسکول میں نہیں جا سکتا اس کی ضروریات الگ الگ ہوتی ہیں اسکولوں کو بھی اس حوالے سے بلایا ہے اور ان کے ساتھ بھی بات کر رہے ہیں تعلیم سب کا بنیادی حق ہے اور تعلیم سب کو ملنی چاہیے ۔
ورلڈ ایڈز ڈے کی تھیم کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ ایڈجسٹمنٹ پر فوکس کیا جا رہا ہے کیونکہ ان بچوں کو گھر اسکول اور کام کی جگہ پر ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ایسے لوگ کم ہیں جو ان کے ساتھ ڈیل کرنے کی بہتر صلاحیت کے حامل ہوں ان کو سیکھنا پڑے گا اور ہمیں سکھانا پڑے گا یہ صحیح بات ہے کہ آٹزم سے نمبرد آزما ہونے کے لیے مختلف سینٹر کے قیام کی ضرورت ہے اور اس پر زیادہ توجہ دینی چاہیے –

=======================