سارنگ شر کی رہائی پر سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے تحقیقات شروع کردیں ملزم طالب علموں کی عصمت دری کے بعد ان کی ویڈیوز ریکارڈ کرکےانہیں بلیک میل کرتا تھا۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن (ایس ایچ آر سی) کا کہنا ہے کہ ادارے کے چئیرپرسن اقبال احمد ڈیتھو قانونی ٹیم کے ہمراہ سارنگ شر کی بریت کی تحقیقات کے لیے سکھر میں موجود ہیں۔

صوبائی انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایس ایچ آر سی کو سندھ پروٹیکشن آف ہیومن رائٹس ایکٹ کے ”ایس 4“ کے تحت اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ’انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا اس کی حوصلہ افزائی، اور سرکاری ملازم کی طرف سے اس طرح کے اقدام کی روک تھام میں لاپرواہی‘ کے مقدمات کی انکوائری کرے۔

بیان میں کہا گیا کہ ایس ایچ آر سی کیس فائل کا مشاہدہ کر رہا ہے، جس میں متاثرہ/ لواحقین مؤقف سے پیچھے ہٹے ہوئے ہیں۔

ادارہ برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ تاہم، عصمت دری اور جنسی تشدد کے معاملات میں سمجھوتہ ایک عام المیہ ہے۔

صوبائی انسانی حقوق کے ادارے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عصمت دری ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ انسداد عصمت دری (تحقیقات اور مقدمہ) ایکٹ 2021 اور فوجداری قوانین (ترمیمی) ایکٹ، 2021 کو خواتین اور بچوں پر مشتمل عصمت دری اور جنسی زیادتی کے جرائم کے فوری ازالے کو یقینی بنانے کے لیے نافذ کیا گیا تھا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ ایس ایچ آر سی پراسیکیوٹر جنرل کو ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کی سفارش کرتا ہے۔

سارنگ شر کی رہائی
200 اپریل، جمعرات کو خیرپور کی ضلعی اور سیشن عدالت نے ایک ریٹائرڈ ہائی اسکول ٹیچر سارنگ شر کو رہا کیا، جسے سوشل میڈیا پر ایک بچے کی عصمت دری کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد مجرم قرار دے کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

جمعرات کو ہونے والی سماعت میں ایڈیشنل اینڈ سیشن جج ثمینہ منگی نے جیل انتظامیہ کو ہدایت کی کہ مجرم کو تین متاثرین کے والدین کی جانب سے معاف کیا جاچکا ہے اس لئے اسے رہا کیا جائے۔

سارنگ شر نے خیرپور کی سینٹرل جیل میں دو سال اور نو ماہ سلاخوں کے پیچھے گزارے۔

سارنگ شر کے خلاف درج کیے گئے مقدمات کے مطابق جولائی 2020 میں، تحصیل ٹھری میرواہ کے تارکو اسکول کے ریٹائرڈ اسکول ٹیچر، 63 سالہ سارنگ شر نے اپنے گھر میں 10، 12 اور 15 سال کی تین طلباء کو گھر پر ٹیوشن دینے کی آڑ میں ریپ کرنے کی کوشش کی۔

ملزم طالب علموں کی ویڈیوز ریکارڈ کرنے کے بعد انہیں بلیک میل کرتا تھا۔

متاثرین کے والدین کی شکایت پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات کے تحت سارنگ شر کے خلاف تین الگ الگ مقدمات درج کیے گئے۔

متاثرہ طلباء کے خاندان غریب ہیں جبکہ شر برادری کا علاقے میں کافی اثر و رسوخ ہے۔

سارنگ شر کی بریت کی خبر وائرل ہونے کے بعد کئی لوگوں نے ایک تصویر کو ری ٹویٹ کیا جس میں سارنگ کو ایک لڑکے کی عصمت دری کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ دوسروں نے اسی تصویر پر مبنی خاکہ شیئر کیا۔

صحافی سمیر میندھرو نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’’یہ ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہے، جسے عدالت نے ’ٹھوس ثبوتوں‘ کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا۔ جبکہ جولائی 2020 میں اس کی گرفتاری سے قبل، اس کی چھوٹے بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں۔ پیارے پاکستان میں انصاف کا اس طرح مذاق اڑایا جاتا ہے۔“

نیوز اینکر ڈاکٹر نازیہ میمن نے لکھا کہ ”ایک ایسے مجرم کو دیکھ کر بہت دکھ اور مایوسی ہوئی جو ٹیوشن سنٹر میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور ویڈیو بنا کر وائرل کرتا تھا، خیرپور کے استاد سارنگ شر کو خیرپور کی عدالت نے بری کر دیا ہے۔ انتہائی شرمناک۔“

https://www.aaj.tv/news/30325764/shrc-started-investigation-on-sarang-shars-release
===================================