سچ تو یہ ہے
=========
بشیر سدوزئی
=========
کراچی میں صرف یہی خوبی نہیں تھی کہ یہ مشرق وسطی سمیت ایشیائی خطے میں سب سے خوبصورت اور جدید شہر تھا۔ بلکہ فن وثاقت،علم و ادب کا مرکز اور ادبی سرگرمیوں کا گہوارہ بھی رہا۔جدید ہوٹل،قہوہ خانے اور کافی ہاوس ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کی افزائش اور تربیت کے مراکز ہوتے تھے،بلا تعصب نوجوان یہاں سے تربیت حاص کرتے جہاں شاعر و ادیب سر شام محفلیں جماتے، مشاعرے منعقد ہوتے، تخلیقات پر تنقید اور گفتگو ہوتی اور نوجوانوں کی اصلاح ہوتی۔علم و ادب کا یہ قافلہ گلی محلے تک پھیلا رہتا۔اس کا رنگ سارے شہر میں محسوس ہوتا،جدید ترین سینما گھروں میں رات گئے خاندان کے خاندان فلم دیکھنے میں مشغول ہوتے۔تمام ملکوں کی بڑی ائرلائنز کی پروازیں کراچی ائرپورٹ پر اترتی۔ نائٹ لائف کے سارے لوازمات اس شہر میں موجود ہوتے تب ہی غیر ملکی جوڑے سرشام بگی میں صدر سے کلفٹن روانہ ہوتے اور رات گئے واپس لوٹتے۔ پینے پلانے کی آزادی تھی لیکن کہیں کوئی غل غپاڑہ نہیں تھااور نہ کوئی پہرے دار کسی کا منہ سونگتا اور نہ کسی جوڑے سے نکاح نامہ طلب کرتا۔تب ہی کراچی پاکستان کے لیے ماں کی طرح تھا، ملک بھر میں کوئی بھی بےروزگار کراچی آتا اور نہ صرف روزگار حاصل کرتا بلکہ تعلیم اور تربیت کے ساتھ مال و دولت بھی اس کا مقدر ٹھرتا جیسے ازل سے اس کی قسمت میں لکھا گیا ہو۔الغرض کراچی ایک مہربان اور محبتوں کی روشنیوں اور رونقوں کا شہر تھا۔تب ہی تو یہ اک” شہر تھا عالم میں انتخاب “پھر کیا ہوا کہ کراچی اجڑنے لگا،قتل وغارت سے وہ ادبی محفلیں اجڑ گئیں کافی ہاوس بند اور قہوہ خانے ویراں ہو گئے۔ یہ دوچار سال کا قصہ نہیں پورے تین عشرے تک شہر ارواع خبیثہ کے سایہ میں رہا۔اس شہر میں اتنی جان تھی کہ تیس سال سے زائد آسیب کے زیر اثر رہنے کے بعد بھی زندہ رہا۔ تھوڑی سی استراحت ملی تو پھر زندگی لوٹ آئی، ادبی محفلیں، مشاعرے اور قہوہ خانوں کی آباد کاری پھر سے شروع ہوئی۔ گھروں پر محفلیں سجنے لگیں اور مقاملے و مباحثے ہونے لگے فلم گھر اور تھیٹر ہاوس بھی کھل رہے ہیں ۔آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی نہ صرف ترقی کر رہی ہے بلکہ شہر میں ضلعی سطح پر پھیل رہی ہے۔ رمضان المبارک اور اس کے بعد تواتر کے ساتھ مشاعرے منعقد ہو رہی ہیں۔بعض کا احوال تحریر ہوا بعض ضبط تحریر میں نہیں آ سکے۔تازہ مشاعرہ محترم شاعر خالد میر صاحب کے گھر نارتھ ناظم آباد میں منعقد ہوا جو نسیم شیخ کی ادبی تنظیم “موج سخن ادبی فورم پاکستان” کے زیر اہتمام کنینیڈا سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ ایک شام “پروین سلطانہ صبا” کے نام تھا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات کی کثیر تعداد امریکا، کینیڈا، برطانیہ دیگر یورپی اور مغربی ممالک میں منتقل ہو چکی۔ وہاں سے جب بھی کوئی اپنے شہر آتا ہے،احباب اس کی پذیرائی کے لیے کوئی تقریب منعقد کرتے ہیں ۔پروین سلطانہ صبا بھی کافی سال پہلے کینیڈا منتقل ہوئی تھی۔ ان دنوں کراچی میں ہیں ان کے احباب نے” موج سخن فورم پاکستان” کے بینر تلے معروف شاعر،ادیب و نقاد، فلاسفر فراست رضوی کی زیر صدارت ان کی پذیرائی اور حوصلہ آفزائی کے لیے یہ شاعری نشست منعقد کی جس میں انہوں نے خو بھی اپنا کلام پیش کیا۔26 اپریل 2023 بروز بدھ کو منعقد ہونے والی یہ شام شاعروں کی کثرت کے باعث رات میں ڈھل گئی اور تین گھنٹے پنتالیس منٹ بلا ناغہ صرف کلام پر ہی گزارہ ہوا۔ گویا ساڑھے آٹھ بجے سے رات ایک بجے تک شاعر اور سعامین طعام کلام اور “تقریب تو بہر ملاقات چاہیے” کے مصداق مصروف رہے اور گھر پہنچتے رات کے ڈھائی بج گئے۔پھر یاد آیا کراچی تو “اک شہر تھا عالم میں انتخاب ” کراچی کی شامیں کراچی کی راتیں پھر سے لوٹ رہی ہیں۔اس خوبصورت اور کامیاب مشاعرے کے مہمانِ خصوصی جناب رفیع الدین راز،جناب سعید الظفر صدیقی،جناب رونق حیات، جناب اختر سعیدی اور جناب رفیق ساغرتھے جب کہ مہمانِ اعزازی جناب طارق جمیل،بقلم خود بشیر سدوزئی،جناب فیاض علی فیاض، محترمہ ریحانہ روحی،جناب رشید سارب،اور جناب ندیم خاورکا انتخاب ہوا۔ میزبان مشاعرہ یاسر سعید صدیقی نے گرج دار آواز کے ساتھ مسند نشین کو سامنے کی کرسیوں پر براجماں ہونے اور تلاوت کلام کی سعادت کے لیے جناب نظر فاطمی کو دعوت دی۔ جن شاعر اور شاعرات نے کلام پیش کیا ان میں جناب مقبول زیدی،ڈاکٹر نثار احمد نثار،ڈاکٹر نزہت عباسی،جناب نسیم شیخ، جناب حیدر حسنین جلیسی، جناب صاحبزادہ عتیق الرحمن،حکیم ناصف، جناب نظر فاطمی،جناب یاسر سعید صدیقی،جناب سید شائق شہاب،محترمہ شمیم چوھدری،جناب باقر عباس فائز شامل تھے۔ مشاعرے کا آغاز باقر عباس کے کلام سے ہوا۔
ارے عشق میں جان لٹانے کی باتیں ۔
یہ اب ہیں پرانے زمانے کی باتیں۔۔
شاہق شہاب،
محبت کا اشارہ ہو گیا ہے۔
یہ دل تمارا ہو گیا ہے۔
ملا کچھ نہیں ہمیں۔
سب کچھ تمارا ہو گیا۔۔
محترمہ شمیم چوہدری۔
کیا خبر تھی چھین کر سب کچھ انا لے جائے گی۔
اس کے در پر مفلسی کی انتہاء لے جائے گی۔۔
یاسر سعید صدیقی ۔میزبان نے اپنے مقام کا تعین خود کر لیا حالاں کہ وہ سینئیر اور بڑے شاعر ہیں اگر میزبان کوئی دوسرا ہوتا تو ان کا نمبر بعد میں آتا۔
دیکھو اتنا سا کام کرتا ہوں،۔۔
میں محبت کو عام کرتا ہوں۔
جو بھی کرتا ہے بات اردو میں۔۔
اس کو بڑھ کر سلام کرتا ہوں ۔
نظر فاطمی۔۔۔۔
یوں تو محفل میں سب ہی اجنبی ہوتے ہیں مگر۔۔۔۔
ایک مسکان شناسائی میں ڈل جاتی ہے۔
عبدالحکیم ناصر۔۔۔۔
سچ ہے ظالم ہی ہو کرتی ہے سوتیلی ماں۔۔
اس کی مشہور ہے دہشت گردی، عید کے چار دن بعد میری شادی کردی۔
صاحبزادہ عتیق الرحمن۔
وہ جو بدلا ہے تو تم بھی بدل کر دیکھو ۔۔۔
دو قدم اس سے الگ ہو کے چل کر دیکھو۔۔
حیدر حسین جلیسی۔۔
مزاح
نسیم شیخ ۔۔
زندگی پہنچی تھی مجھ سے کتراتے ہوئے۔۔۔
ہو گیا برباد میں خود کو سمجھاتے ہوئے۔
خالد میر۔میزبان
آنکھ نے پیاس کا منظر نہیں دیکھا ہو گا۔۔۔
مقبول زیدی۔۔۔۔
کبھی نہ رکھا کسی مد میں باو تاو کا شوق۔۔
ملا تھا ورثہ میں کچھ ایسا رکھ رکھو کا شوق۔۔۔
ڈاکٹر نثار احمد
شام غم اوڑھے ہوئے ہی اپنے لان میں ۔۔
ہاتھ میںرے جل رہے ہیں تیرے آتش دان میں ۔۔
ڈاکٹر نذہت عباسی
تم سے بھی یہ شرط لگائی جا سکتی یے۔
دل سے تماری یاد بھلائی جا سکتی ہے۔۔۔
ریحانہ روحی۔
وہی ایک مرد ایک عورت اور اس کے بیچ میں دنیا۔
وہی ہنگامہ فطرت اور اس کے بیچ میں دنیا۔۔۔
ندیم خاور۔۔حیدرآباد ۔۔
تھی بہت اندھیرے میں میری بے ہنر آنکھیں ۔
روشنی بڑھا ڈالی ماں نے چوم کر آنکھیں ۔۔
رشید سحر۔
شاید اسی کی رہ پہ چلنے لگا ہوں میں ۔۔
ہر بات سے جو اپنی مکرنے لگا ہوں میں ۔۔۔۔
فیاض علی فیاض۔۔
پہلے توڑا گیا میں اندر سے ۔۔
پھر ہٹایا گیا ہوں منظر سے
اختر سعدی۔۔
کس کے ہاتھوں پہ مچلتا دل کس کا۔
کون اس شہر میں ہے چانے والا کس کا۔
محترمہ پروین سلطانہ صبا۔
جب لہو تیار ہو آنکھوں سے بہنے کے لیے۔۔۔
موضوع ہوتی ہے طبعیت شعر کہنے کے لیے۔۔
رفیق ساغر۔ حیدرآباد
دروازے پر دستخط دینا پڑتی ہے۔
نظروں کو کشکول بنانا پڑتی ہے۔
موجیں خود ساحل پر لے آتی ہیں ۔لیکن پہلے جان سے جانا پڑتا ہے۔۔
جناب رونق حیات ۔۔۔
خواہشیں اس لیے دنیا کی میں کم رکھتا ہوں ۔
کہ سکونت کے لیے ملک عدم رکھتا ہوں ۔۔
ہجر کی دہلیز پر رونے رلانے کے لیے۔۔۔
ہم کو آنکھیں مل گئیں آنسوؤں بہانے کے لیے۔۔
ذہن و دل سے اس کی یادوں کا دباو ختم ہو۔۔۔
آگ کے دریا سے پانی کا بہاو ختم ہو۔۔۔۔
سعید الظفر صدیقی ۔
صبر ٹوٹا تو حوصلہ دے گا۔۔۔
درد ہی درد کی دوا دے گا۔۔۔۔
اسی کو دیکھنے والے نہیں تھے بستی میں۔۔۔
جو خواب ان کو بےدار کرنے والا تھا۔۔۔۔
یہ خیر گزری کہ اس تک پہنچ گیا۔۔۔
ورنہ میں ہر وجود سے انکار کرنے والا تھا۔۔۔
رفح الدین راز۔
ابھی کپڑے بدن پر ہیں ابھی انسان باقی ہے۔۔۔
ابھی بمشکل پہرن یہ آخری پہچان باقی ہے۔۔۔
ہمیں پر ختم ہوئی عظمت ہنر مندی۔۔
ہمارے بعد نہ مٹی سے کچھ بنایا گیا۔۔۔
وہ راستہ بھی نہ کھل پایا میرے قدموں پر۔۔۔۔
ہزار بار جس راستہ پر میں آیا گیا۔۔۔۔
فراست رضوی۔
صدارتی خطبے میں انہوں نے محترمہ پروین صبا کے کلام کی تعریف کی اور کہا کہ محترمہ مغرب میں رہتے ہوئے مشرقی عورت ہیں اور ان کی طرز زندگی ان کی شخصیت کو بھی شاعری کی طرح قابل قدر بنا دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیار غیر سے آنے والی شاعرات کے بارے میں میرے رائے مختلف ہے لیکن محترمہ پروین سلطانہ صبا ایک الگ خاتون ہیں۔یہ حقیقی اور ہمارے معاشرے کی نمائندہ شاعرہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ برصغیر میں اردو شاعری کے دو نقطہ نظر ہیں۔ایک کہتا ہے معاشرہ اہم ہے۔۔۔ معاشرے کے لیے لکھیں عام آدمی کے دکھوں کے لیے لکھیں اس نظریے کے موجد سرسید احمد خان تھے۔ترقی پسندوں کی سوچ ہے کہ فرد کی اہمیت کو نمایاں کیا جائے۔ یہ دونوں نظریے ساتھ چل رہے ہیں ۔۔
لیکن میر تقی میر نے ترقی پسند نہ ہونے کے باوجود ذات کو اہمیت دی۔۔ انہوں نے کہا کہ صبا نے غم کی شاعری کی ہے لیکن دوسروں کو غم نہیں دیتی۔۔۔زندگی کے بھیڑیوں سے جنگ کی مغرب میں رہ کر مشرقی عورت ہے۔۔ نساہی ادب کا چرچہ ہے لیکن میں مشرقی نساہی تحریک کی حمایت کرتا ہوں جس میں نکاح، مذہب اور خاندان کو جائز سمجھا جاتا ہے ۔۔۔
مغربی نساہی تحریک میں سب سے پہلا اعتراض شادی پر ہے۔ وہ مذہب کے خلاف ہے۔اس میں ضابطہ اخلاق موجود نہیں ۔۔ انہوں نے اپنا کلام بھی پیش کیا
اب لے جائے بیچ بھنور میں یا لے جائے کنارے پر۔۔۔
میں نے خود کو چھوڑ دیا ہے وقت کے دہارے پر۔۔۔
ہم ٹوٹی کشتی کے مسافر ہم سے پوچھوں موت کا خوف۔
تم کو کیا اندازہ تم تو کھڑے ہو کنارے پر۔۔
نسیم شیخ کے شکریہ پر رات ایک بجے تقریب ختم ہوئی۔
========================