بشیر سدوزئی کے سفر نامہ ”کوہ قاف کی چوٹیاں“ کی ملک کے بڑے ادیبوں اور عالموں میں پذیرائی

پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل، فراست رضوی،رنق حیات،خالد معین،شکیل خان نے ادب میں شاہکار اضافہ قرار دیا

کراچی( ) بشیر سدوزئی کی حال ہی میں شائع ہونے والی ساتویں کتاب سفرنامہ آذربائیجان ”کوہ قاف کی چوٹیاں“ ملک کے بڑے ادیبوں اور ادب کے عالموں میں پذیرائی حاصل کر رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کے معروف محقق اور ادیب،پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل( ستارئہ امتیاز )نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے بشیر سدوزئی کی تصانیف ”کوہ قاف کی چوٹیاں“ اور بلدیہ کراچی سال بہ سال حددرجے معلوماتی تصانیف ہیں ، یہ تصنیف ہمیشہ یادگار رہیں گی موخرالذکر تصنیف تو محض بلدیہ کی تاریخ نہیں بل کہ ایسی تصنیف ہے جو کراچی شہر کی تاریخ بھی بیان کرتی ہے۔مصنف نے ایک خاصی قابل ستائش کتاب تصنیف کی ہے جو اپنی نظیر آپ کہی جاسکتی ہے۔ اس نوعیت کی کسی اور تصنیف کو میں نے اس قدر منظم و معلوماتی نہیں دیکھا اگرچہ متعدد کتابیں اس نوعیت کی دیکھی اور پڑھی ہیں۔لیکن نہایت محنت و جستجو سے تمام بنیادی معلومات بلدیہ سے متعلق اس میں یک جا کردی گئی ہیں۔ڈاکٹر معین الدین عقیل نے مزید لکھا کہ دوسری تصنیف بل کہ سفرنامہ آذربائیجان بھی نہایت پرکشش تصنیف ہے جو میرے ذوق سے یوں مناسبت رکھتی ہے کہ سفرنامہ اور سفر واسفار سے مجھے عین دلچسپی رہی ہے۔خواہش کے باوجود آذر بائیجان نہ جاسکا اب وسیلہ فراہم کردیا گیا ہے کہ میں اسے فاصلاتی ہیئت میں دیکھ سکوں اور لطف اٹھاوں۔ معروف دانشور و نقاد فراست رضوی نے کہا کہ بشیر سدوزئی کا سفر نامہ آذربائیجان روایتی سفر نامہ اور نہ خود نمائی نہیں ہے۔یہ سفر نامہ ایسا ہے کہ آج کے سفر ناموں میںبہترین شاہکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سفر نامہ میں آذربائجان کی سیاحت کے ساتھ ثقافت، معیشت اور تاریخ لکھی گئی ہے جو ادب کی اس صنف میں ناپید ہو رہی ہے۔ اس کتاب میں خاص بات یہ کہ مسافر نے سارے سفر کے دوران اپنے وطن سے تعلق نہیں توڑا۔جناب فراست رضوی نے کہا کہ جس انداز میں بشیر سدوزئی نے تاریخ و تجارت کو ادبی رنگ دے کر سفر نامہ مکمل کیا اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ انہوں نے بشیر سدوزئی کو مشورہ دیا کہ سب کچھ چھوڑ کر سفر کرنا اور لکھنا شروع کر دو اس نئی نسل کو بہت فائدہ ہو گا۔معروف شاعر رنق حیات نے کا کہ بشیر سدوزئی نے پریوں کے دیس کی جو کہانی لکھی ہے اس کو پڑتے ہوئے، انسان تصور میں آذربائجان میں ہی گھوم رہا ہوتا ہے۔ بہت کی خوبصورتی کے ساتھ سفری روئیداد لکھی گئی ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ کتاب اور صاحب کتاب ادب و ادیب میں گرنقدر اضافہ ہے۔معروف شاعر و ادیب خالد معین نے کہا کہ اس کتاب میں ایک نیا بشیر سدوزئی سامنے آیا ہے،جس کو اب ادیب کہا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کہ کتاب کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ صاحب کتاب ہوشیار لکھاری کے جو اپنے قاری کو تھکنے نہیں دیتا بلکہ قاری کو قدم بہ قدم ساتھ لے کر چلتا ہے۔ شکیل خان نے لکھا کہ کئی اور سفرناموں کی طرح اس میں ناکتخدا حسینوں کا ذکر کچھ کم ہے اس سفرنامہ میں ہر موڑ بلکہ ہر صفحہ پر آپ کو کوئی قتالہ نہی ملتی کوئی بار اور باروالی آپ کا راستہ نہی روکتی۔ ”کوہ قاف کی چوٹیاں“ میں بشیر سدوزئی ایک مختلف رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں سفر آور ہمسفروں کا ذکر کرنا محفل اور دوستوں کے درمیان ہوکر بھی تنہا ہونا، معیشت، معاشرت، صنعت اور سیاست کا ذکر کرنا اور اس پر مفصل گفتگو کرنا اس کتاب کی خصوصیات میں شامل ہیں۔اس کتاب کی تیاری میں مصنف نے بہت تحقیق اور جستجو کی ہے۔
==================