بغاوت سے متعلق شقوں کا خاتمہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان
==================
قرونِ وسطیٰ میں حکمرانوں پر تنقید یا ان کی توہین کو بغاوت سمجھا جاتا تھا۔ جب برطانوی حکومت نے 1857کی جنگ آزادی کو کچلا تو پھر 1886 میں پولیس کو منظم کرنے کے لیے قانون نافذ کیا۔

اس پولیس ایکٹ میں سلطنت برطانیہ کے خلاف آواز اٹھانے کو سنگین ترین جرم بغاوت قرار دیا گیا اور پولیس ایکٹ میں دفعہ 124 ایف ، 153 ایف اور 505 شامل کی گئیں۔ ان دفعات کے تحت زبانی تحریر یا کسی اور طریقہ سے حکمرانوں پر تنقید کو بغاوت قرار دیا گیا۔

ان دفعات کے تحت 7 سال سے عمر قید تک کی سزائیں لازمی قرار دی گئیں۔ برطانوی ہند حکومت نے 1947 میں اپنے اقتدار کے خاتمہ تک ہزاروں رہنماؤں، صحافیوں، ادیبوں اور شعراء کو برطانوی حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنے یا آزادی کا مطالبہ کرنے پر مختلف مدت کی سزائیں دی گئیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے 75 سال بعد بھی آج ان ہی قوانین کے تحت سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کیا جا رہا ہے ، مگر انڈیپنڈنٹ ایکٹ کے تحت ہندوستان کا بٹوارہ ہوا اور دو ریاستیں بھارت اور پاکستان وجود میں آئیں۔

انڈیپنڈنٹ ایکٹ میں واضح طور پر لکھ دیا گیا تھا کہ برطانوی ہند میں جو قوانین نافذ العمل تھے وہ کن ریاستوں میں نافذ رہیں گے۔ اس ملک کے مسائل کا آغاز اس کے قیام کے فوری بعد سے ہی ہوگیا۔ پہلے صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی کانگریس حکومت کو برطرف کیا گیا۔

خان عبدالغفار خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف بغاوت اور امن و امان میں خلل ڈالنے، ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور اشتعال انگیز تقاریر کے الزامات کے تحت مقدمات درج ہوئے اور خان غفار خان اور ان کے ساتھیوں کو برسوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ بلوچستان میں عبدالصمد اچکزئی اور ان کے ساتھیوں ، سندھ اور پنجاب میں ہاری رہنما ، ٹریڈ یونین کارکنوں اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں اور ترقی پسند ادیبوں کو ان ہی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا۔

مشرقی بنگال میں بنگالی زبان کو قومی زبان کا درجہ دینے، بنگالی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانے والے مولانا بھاشانی، شیخ مجیب الرحمن ، مونی سنگھ اور سیکڑوں رہنماؤں اور کارکنوں کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔

عظیم شاعر فیض احمد فیض، سجاد ظہیر اور محمد حسین عطاء وغیرہ کو راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کیا گیا۔ 1954میں کمیونسٹ پارٹی اور اس سے ملحقہ تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ، یوں کمیونسٹوں اور ان کے ہمدردوں کے علاوہ ہاری کمیٹی ، مزدور تنظیموں اور کالعدم ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں اور کارکنوں کے بغاوت ، اشتعال پھیلانے اور امن و امان کی صورتحال پیدا کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایوب خان کے دور حکومت میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن اور ان کے کئی ساتھیوں کے خلاف اگرتلہ سازش کیس کے عنوان سے بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا ۔

جنرل ایوب خان کی حکومت کے خلاف انقلابی شاعری تخلیق کرنے پر شاعر انقلاب حبیب جالب پر بھی یہی دفعات لگائی گئیں۔ جنرل یحییٰ خان نے عوامی لیگ کے منتخب نمایندوں کو اقتدار منتقل کرنے کی تحریک کی حمایت کرنے والے بنگالی سیاست دانوں، سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور دانشوروں کو بھی ان دفعات کے تحت بند کیا۔

سندھ اور پنجاب میں کمیونسٹ پارٹی اور اس کی ملحقہ تنظیموں نے مشرقی بنگال میں عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا تو وہ بھی بنگالی کارکنوں کی طرح سزا کے مستحق قرار پائے۔

پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے احکامات کے تحت نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں ولی خان، غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اﷲ مینگل، ارباب سکندر خلیق اور پیپلز پارٹی کے منحرف رہنماؤں معراج محمد خان اور علی بخش تالپور وغیرہ کو بغاوت کے الزام میں حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کا دورِ اقتدار انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں بدترین دور قرار دیا جاسکتا ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور تحریک بحالی جمہوریت MRD کے رہنماؤں سمیت سیکڑوں صحافیوں، ادیبوں، خواتین اور وکلاء کو بغاوت اور دیگر الزامات کے تحت گرفتار کیا ۔ اٹک سازش کیس کے علاوہ کئی اور سازش کیس قائم کیے گئے۔

سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو اور پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں کئی سیاسی رہنماؤں کے خلاف بغاوت اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کے الزام میں کوئی مقدمہ قائم نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کی دوسری حکومت میں ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے۔ ایک وقت ایسا تھا کہ ایم کیو ایم کے تمام رہنماؤں اور ہزاروں کارکنوں کے خلاف بغاوت اور دیگر امتناعی قوانین کے تحت مقدمات درج ہوئے۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں مسلم لیگی رہنماؤں کے علاوہ بلوچستان کے قوم پرست رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے۔

بلوچ قوم پرست رہنما اختر مینگل کو مہینوں جیل میں بند رکھا گیا۔ انسانی حقوق کمیشن نے 2002میں یہ بیانیہ ترتیب دیا تھا کہ 1973کے آئین میں بغاوت سے متعلق دفعات شہریوں کے بنیادی حقوق اور انسانی حقوق کے اقوام متحدہ کے چارٹر کی سول اینڈ پولیٹیکل رائٹس کنونشنز کی خلاف ورزی ہے ، مگر اس معاملہ میں پیش رفت نہ ہوسکی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں میں بلوچ قوم پرستوں کے خلاف اسی نوعیت کے مقدمات قائم ہوئے۔

عمران خان کی حکومت میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو ان ہی قوانین کے تحت جیلوں کا سامنا کرنا پڑا اور اب موجودہ دور میں شیخ رشید احمد اور فواد چوہدری پر ان ہی دفعات کے تحت مقدمات قائم ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلہ یہ دیا ہے کہ ایک ہی جرم میں ملک کے مختلف حصوں میں مقدمات درج ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایچ آر سی پی کا بیانیہ ہے کہ اگرچہ گالی گلوچ، دھمکی آمیز زبان یا بد زبانی کو ہرگز جائز قرار نہیں دیا جاسکتا مگر سیکشن 124اے، 153 اے اور 505 کے تحت سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایچ آر سی پی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بغاوت کا قانون ضابطہ تعزیرات پاکستان سے ختم کیا جائے کیونکہ ان قوانین کے غلط استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے۔

ایچ آر سی پی کے اس مطالبہ پر مخلوط حکومت کے اکابرین کو سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے ، اگر آج انھوں نے ان نوآبادیاتی قوانین کو ختم کردیا تو یہ کل ان کے خلاف استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ جمہوری نظام کے استحکام کے لیے انگریزوں کے دیے ہوئے ان قوانین کی تبدیلی ضروری ہے

https://www.express.pk/story/2440165/268/
==================