آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے الحمراءآرٹس کونسل میںجاری تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023 میں ”اکیسویں صدی میں پنجابی ادب“ کے موضوع پر سیشن کا انعقاد
لاہور ( ) آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روزمیں “اکیسویں صدی میں پنجابی ادب “کے فکشن پر زاہد حسین ، ڈاکٹر صغریٰ صدف اور کرامت مغل نے گفتگو کی ۔ جبکہ شاعری پر رخشندہ نوید اور علی عثمان باجوہ شرکاءگفتگو تھے ۔اجلاس میں نظامت کے فرائض رشم جمیل پال نے انجام دیے ۔ زاہد حسین نے فکشن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی زبان کا سفراتنا ہی طویل ہے جتنی اس کی تہذیب پرانی ہے۔ ڈاکٹر کرامت مغل نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی زبان کے اندر اخلاقیات پر زور دیا گیا ہے ۔ آج کے نئے لکھنے والوں کو پلاک (پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر) کے تعاون سے بہت سر پرستی ملتی ہے رخشندہ نوید نے ایسے موضوعات کو نوجوانوں کے سامنے لانے پر آرٹس کونسل کی کاوشوں کو سراہا ۔علی عثمان باجوہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس صدی کے لکھنے والوں کو نیا پن لانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی شاعری کو زیادہ مو¿ثر بنا سکیں ۔ آخر میں ڈاکٹر صغریٰ صدف نے پنجابی زبان کو اسکول کی سطح پر لازمی مضمون کا درجہ دینے پر زور دیا ۔
=======================
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے الحمراءآرٹس کونسل میںجاری تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023ءکے دوسرے روز تیسرے سیشن ” فرید سے فرید تک“ کا انعقاد
لاہور ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے الحمراءآرٹس کونسل میںجاری تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023ءکے دوسرے روز تیسرے سیشن ” فرید سے فرید تک“ کا انعقاد کیاگیا، جس میں ثروت محی الدین، صغریٰ صدف، طاہر سندھو اور فوزیہ اسحاق نے گفتگو کی، اجلاس میںنظامت کے فرائض اعجاز علی نے سرانجام دیے، ثروت محی الدین نے بابا فرید کی شاعری کا مقصد سمجھاتے ہوئے کہاکہ لوگوں کو ان کی شاعری سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور ہمیں اپنی انا کو چھوڑ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ احساس کمتری کو کیسے دور کیا جائے، معاشرے میں آج کل جو چل رہا وہ بابا فرید نے سالوں پہلے ہی بتادیا تھا، بزرگوں کی شاعری ہمیں برداشت کا سبق دیتی ہے، صغریٰ صدف نے کہاکہ صوفی ہمیشہ عام زبان کو اپناتا ہے تاکہ لوگوں کو آسانی سے سمجھا سکے، ان کے ذریعے ثقافت کا رنگ دنیا کے سامنے آیا، رقص، شاعری، موسیقی ہماری شخصیت کو نفیس بناتی ہے، ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے ، انسان کو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رہنا چاہیے ورنہ دماغ پریشر سے پھٹ جائے گا، فوزیہ اسحاق نے کہاکہ پنجابی زبان کی بنیاد سچ پر ے اور سچ خدا تعالیٰ ہے، بابا فرید کی شاعری سچ کی شاعری ہے، میاں محمد بخش ایک سچے شاعر تھے، آج کل پنجابی زبان کا رجحان بہت کم ہوگیا، ہم اپنے بزرگوں کی روایت کو بھول نہیں سکتے، ہمیں یہ روایت گرونانق سے ملی۔ طاہر سندھو نے کہاکہ فقہ کا علم، تہذیبی، معاشرتی جو اس وقت وارث شاہ کے علم میں تھا انہوں نے ہیر رانجھا میں بیان کردیاتھا ،ان کی شاعری نے لوگوں کو انصاف سکھایا۔
===========================
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے الحمراءآرٹس کونسل میںجاری تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023میںدوسرے روز چوتھے سیشن ” عوامی دانشوری کی روایت“ کا انعقاد
لاہور ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے الحمراءآرٹس کونسل میںجاری تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023ءمیںدوسرے روز تیسرے سیشن ” عوامی دانشوری کی روایت“ کا انعقاد ہال IIIمیں کیاگیا، جس کی صدارت افتخار عارف نے کی ، اظہارِ خیال کارنے والوں میں سینئر صحافتی غازی صلاح الدین، ناصر عباس نیئر اور اُسامہ صدیق شامل تھے جبکہ جعفر احمد نے نظامت کے فرائض انجام دیے، صدارتی خطبہ میں افتخار عارف نے کہاکہ ہمارے ہاں خیالات تخلیق نہیں ہورہے جب تک عوام اور خلق خدا کے ساتھ کوئی جگت نہ ہو تو آپ کتنے ہی بڑے اسکالر کیوں نہ ہوں منسوخ کردیے جائیں گے اور جنہوں نے خلق خدا کے فیصلے کو نہیں مانا وہ تاریخ میں بے نقاب اور منسوخ ہوئے۔ انہوں نے کہاکہ عوامی دانشوری کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے عوام سے جڑنا ہوگا، 50برسوں میں ہماری کسی جامعات اور ادب سے کوئی بڑا دانشور نہیں نکلا، بلوچستان جیسے صوبے میں سبط حسن کا حلقہ اثر بہت وسیع ہے ، ان کی کتابیں بہت پڑھی جاتی ہیں، انہوں نے کہاکہ فکر انگیز گفتگو کرنے والے میڈیا کے نمائندے دانشور نہیں ہوسکتے، جو کسی خیال کو تخلیق نہیں کرتا اور اس کی روایت کو آگے نہیں بڑھاتا۔ عوامی دانشوری کو آگے بڑھانے اور دانشور بننے کے لیے اسے معاشرے سے جڑنا ہوگا۔ ناصر عباس نیر نے کہاکہ ہمیں اپنے ذہن کو کشادہ کرنا ہوگا، بلاشبہ تخلیق، شاعری اور ادب پر بہت کام ہوا مگر ہمیں کوئی بتانے والا نہیں کہ سوسائٹی میں کیا ہورہا ہے، علم تخلیق کرنے والے لوگ ناپید ہوچکے ہیں، ہمیں عام لوگوں کی بات کرنی چاہیے ۔ غازی صلاح الدین نے کہاکہ کتابیں ہمارا ہتھیار ہیں، سوچنا اور لوگوں کو سوچنے پر آمادہ کرنا بہت مشکل کام ہے جس میں مذہبی انتہا پسندی بہت بڑی رکاوٹ ہے، ہم اجتماعی مسائل کا حل ذاتی طور پر دیکھتے ہیں جس میں اپنا مفاد ہو، اس ملک میں مسائل کو سمجھنے اور سنجیدہ حل نکالنے کی اشد ضرورت ہے ، انہوں نے کہاکہ کتاب لکھنے آسان ہے مگر یہ بات معنی رکھتی ہے کہ اس کتاب کو کتنے لوگوں نے پڑھ کر اس سے سبق سیکھا اور اس کے پیغام کو آگے بڑھایا، فکشن نگار اُسامہ صدیق نے کہاکہ اقبال جیسے لوگ صدیوں میں پیداہوتے ہیں، نوجوان نسل کو کتابوں کے قریب لانا ہوگا، ہمیں آنے والی نسل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ وہ ہمت اور بہادری سے کام کرسکیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں ماڈرن ازم اور سوشل میڈیا سے وابستہ ہونا پڑے گا ہمارے ہاں لیگل اکیڈمی کا فقدان ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل عوامی دانشوری کی روایت برقرار رکھے تو انہیں معیاری کتابوں کی فراہمی ممکن بنانا ہوگی۔
====================
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے الحمراءآرٹس کونسل میںجاری تین روزہ پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2023میںدوسرے روز کا آغاز”اردو فکشن میں نیا کیا ” سے ہوا
لاہور ( )الحمراءآرٹس کونسل میں جاری پاکستان لٹریچر فیسٹیول کے دوسرے روز کے پہلے سیشن ©”اردو فکشن میں نیا کیا “کی صدارت طاہرہ اقبال نے کی جب کہ اویس کرنی ، اخلاق احمد ، ناصر عباس نیر، ضیاءالحسن اور حفیظ خان نے اظہار خیال کیا ۔جب کہ آمنہ مفتی نے میزبانی کی اویس کرنی نے کہا کہ اردوادب ایسے مرکز سے نکل کراس جگہ پھیل گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زبان کی حرمت کے لئے چلنے والی تحریکوں میں دور میں ہر خطے کے ادیبوںکا بڑا کردار ہے اخلاق احمد نے کہا کہ ناول اور افسانہ لکھنے والوں نے بہت ہی مشکل راہ اپنائی ہے یہ مختصر مدت کا نہیں سال ہر سال کا کورس ہوتا ہے۔ یہ ایسا کٹھن کام ہے کہ بعض اوقات ایک اچھا نقاد ایک شہر میں صرف ایک شخص کو اچھا افسانہ نگار گر دانتا ہے۔ ناصر عباس نیر نے کہا کہ نئے فکشن پر اگر نگاہ ڈالی جائے ۔ووسمجھ میں آتی ہے کہ اس کا آغاز ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہوا ۔ہمارے ہاں دو نقطہ نظر سے متاثر ادیب ہیں تا ہم انتظار حسین نے فکشن کی اصطلاح کو رد کر کے نئی کہانیوں پر زور دیا ضیاءالحسن نے کہا کہ اردو ادب میں نیا دیکھنے کے لئے دیکھنا ہوگا کہ عالمی ادب میں نیا کیا ہے ۔ نئے ادب کا موضوع دراصل آج کے دور کا انسان ہے ۔ جو ترقی یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تباہی کا بھی شکار ہے نئے دور کے انسان کو آج کے ناول نے مخاطب کیا ۔اسلئے ہمیں فکشن میں نیا محسوس ہوتا ہے حفیظ خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اردو ناول کی عمر `160 اور افسانے کی عمر 120سال ہے 160 سال پہلے ا سٹیم انجی کا دور تھا اور ہم بلیٹ ٹرین کے دور میںہیں لہٰذا ناول اور افسانے کا موضوع بھی بدل گیا ہے ادب کا فیصلہ کہ وہ کیا ہے اور اس میں نیا کیا ہے قاری زیادہ بہتر کر سکتے ہیں ۔
=================