آزاد کشمیر پر حملے کی تیاری، خطہ میں ایٹمی جنگ کا خطرہ ؟

سچ تو یہ ہے۔
=====

بشیر سدوزئی،
=====

انتہائی باخبر ذرائع کے مطابق مودی سرکار نے اپنے حمایتیوں کے اطمینان کے لیے آزاد کشمیر پر حملے کی تیاری مکمل کر لی ہے، اور وہ کسی بھی وقت اچانک لائن آف کنٹرول کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرے گا۔اگر اس نے اپنے ان عزائم پر عمل کیا تو خطے میں کارگل طرز کی جنگی صورت حال اور ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں جس سے انڈو پاک ہی نہیں ہمسایہ ممالک کے عوام کے متاثر ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔مودی کا خیال ہے کہ پاکستان کے اندرونی خلفشار اور معاشی بحران کے باعث آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کا یہ مناسب وقت ہے۔ جس کا ماضی میں اس کے ساتھی اعلان کرتے رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق اس حملے کا زیادہ امکان پونچھ اور میرپور سیکٹر سے ہے جہاں پر ہدف حاصل کرنا بھارت آسان سمجھ رہا ہے۔ بھارت نے آزاد کشمیر پر حملے کی تیاری اسی دن سے شروع کر رکھی ہے جب وزیر دفاع راج ناتھ سنگ نے 27 اکتوبر 2022کو پڈگام میں بیان دیا تھا کہ اب ہماری فوج کا رخ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی طرف ہے جس پر قبضہ ان کی منزل ہے۔اس اعلان کے فوری بعد بھارتی سرکار مقبوضہ کشمیر میں غیر علانیہ جنگی ماحول پیدا کر رہی ہے۔ امن اماں کے نام پر پہلے سے کثیر تعداد میں آرمی کے باوجود حالیہ دنوں خاموشی سے فوجی نفری میں اضافہ کیا گیا فی الوقت 15 لاکھ سے زیادہ مسلحہ آرمی اور پیرا ملٹری فورسز کو مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں پہنچایا جا چکا ہے اور سرحدی علاقوں میں نقل و حمل دیکھی گئی ہے، پونچھ راولاکوٹ ، کوٹلی ،بھمبر۔ اور میر پور سیکٹر کی سرحد کے قریب ترین علاقوں کے عوام کا کہنا ہے کہ رات کو سرحد پار گاڑیوں کی آمدورفت میں آچانک اضافے سے محسوس ہو رہا ہے کہ فوجی نقل و حمل غیر معمولی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں پچھلے چند ماہ کے دوران تیزی کے ساتھ فوجی حکمت عملی پر کام جاری رکھا ہوا ہے حتی کہ ہندو شہریوں کو نان اسٹیٹ ایکٹر فورسز کے طور پر تیار کیا جا رہا جن کو سخت جان فوجی تربیت دے کر اسلحہ تقسیم کیا گیا۔تاکہ جنگی صورت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے یہ انتہاء پسند ہندو کارکن فوج کے شانہ بشانہ لڑیں اور بوقت ضرورت مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں سے بھی نمٹ سکیں۔فوج کی مدد اور جموں و کشمیر کے نہتے و معصوم عوام کے قتل عام کے لیے “ویلیج ڈیفنس گارڈز”کے نام سے نان اسٹیٹ ایکٹر فورس کو گاوں گاوں تیار کیا جا رہا ہے۔ اس سول فورس کو مختلف کیمپوں میں آرمی نہ صرف جنگی اسلحہ استعمال کرنا سیکھا رہی ہے بلکہ سخت ترین جسمانی فوجی تربیت بھی دے رہی ہے۔ اب تک 50ہزار سے زائد نان اسٹیٹ ایکٹر کی فورس مکمل ہو چکی جس کو اسلحہ مہیا کیا گیا ہے جب کہ اس میں بتدریج اضافہ کیا جا رہا ہے ۔ اس فورس کو بھارتی آرمی کی سرپرستی حاصل ہے۔ پونچھ سیکٹر پر بھارتی حملے کے منصوبے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت وادی کشمیر میں حالات خراب ہیں لیکن ولیج ڈیفنس گارڈز کی اکثریت راجوری اور پونچھ میں تیار کی جا رہی ہے جہاں قدرے امن ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں تحریری سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سنٹرل ریزرو پولیس فورس نے گزشتہ ماہ 6 جنوری سے 25 جنوری تک 948 ولیج ڈیفنس گارڈ کے ارکان کو تربیت دی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں ضلع راجوری میں ولیج ڈیفنس گارڈز کے 5 ہزار سے زائد ارکان جن میں اکثریت ہندوئوں کی ہے،کو تربیت کے بعد فوجی اسلحہ دیاگیاجب کہ مزید گارڈز بھی تیار کئے جارہے ہیں۔صرف جموں ریجن میں پونچھ سمیت مسلم اضلاع میں اب تک تقریباً 28 ہزار ویلج ڈیفنس گارڈز آتشی اسلحہ کے ساتھ تعینات کئے گئے ہیں جن کی یہ ذمہ داری ہے کہ علاقہ پولیس کے ساتھ اشتراک سے گاوں گاوں امن اماں کے نام پر حریت پسندوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور جہاں ضروری سمجھتے ہیں وہاں آتنگ وادیوں کے خلاف کارروائی کریں ۔ بھارت کی یہ کارروائی غیرقانونی اور کسی ضابطہ اخلاق کے تحت لائے بغیر نان اسٹیٹ ایکٹر کو ہتھیار فراہم کئے جانے کے مترادف ہے تاکہ وہ سہولت کے ساتھ مسلمانوں کا قتل عام کر سکیں ۔تازہ ترین صورت حال میں مختلف اضلاع سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ویلج ڈیفنس گارڈز انتہائی بداخلاقی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ان کے خلاف نہتے شہریوں کے قتل، خواتین کی عصمت دری ، چوری و ڈگیتی، ظلم و تشدد اور منشیات کی خرید و فروخت سے متعلق مختلف تھانوں میں 200 سے زائد مقدمات درج ہوئے ہیں اس کے باوجود حکومت ان نان اسٹیٹ ایکٹر کی سرپرستی جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہٹلر کے پیروکار مودی اور اس کے فاشسٹ ساتھیوں نے خطہ میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اپنی سی کوشش شروع کر دی ہے اور خطرے ناک منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ جس سے برصغیر میں ایٹمی جنگ کے خطرات پیدا ہو چکے ہیں باوثوق ذرائع کے مطابق بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان کی روشنی میں یہ ساری تیاریاں ہو رہی ہیں جو اس نے 27 اکتوبر 2022ء کو کشمیر پر قبضہ کی یاد تازہ کرنے کی تقریب سے بڈگام میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ جموں و کشمیر کا قصہ اب تمام ہوا۔ ہماری فوجوں کا اب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے تمام علاقے اور گلگت بلتستان کا رخ ہے اور ان کو واپس حاصل کرنا ہماری منزل ۔ وزیر دفاع کے اس بیان کے فوراً بعد فوج کے علاقائی کمانڈر نے کہا تھاکہ ” ہم پاکستان پر چڑھائی کرنے کے لیے تیار ہیں اور صرف حکومت کے حکم کا انتظار کر رہے ہیں” لگتا ہے کہ بھارتی فوجی کمانڈر کی انتظار ختم ہو رہی ہے۔بڈگام میں جلسہ عام سے خطاب کے دوران بھارتی وزیر دفاع کے اس بیان کو پاکستان کی حکومت اور افواج نے سنجیدہ لیا یانہیں البتہ خود بھارت نے اس کو سنجیدہ لیا ہوا ہے۔وہ ثابت کرنے چاہتا ہے کہ وزیر دفاع کی یہ صرف بھڑک نہیں ہماری پالیسی ہے۔پاکستان کے ایک دفاعی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ’ایل او سی پر جنگ بندی ہے مگر انڈیا سرحدوں پر خاموشی کے باوجود اپنی فوجی کمک اور اسلحہ جمع کرتا رہتا ہے، جیسا کہ آج کل مشاہدے میں آیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سرحدی علاقوں میں بھارتی فوج غیر معمولی نقل و حمل میں مصروف ہے۔ تجزیہ نگار کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر پر اچانک بھا رتی حملے کی تیاری کی خبریں گئی ذرائع سے آ رہی ہیں تاہم یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا مقام اور وقت کیا ہو سکتا ہے۔پاکستان کی فوج کو بھارت کے اس منصوبے کا ادراک ہے اور وہ بھی پوری طرح سے کسی بھی چیلنج کے لیے چوکس ہے۔ ملک کی سلامتی کے لیے تمام ادارے، سیاست دان اور عوام ایک پیج پر ہیں،بھارت شاید بالاکوٹ ٹائپ کا دوسرا ایڈوینچر کرنا چاہتا ہے۔لیکن اس کو پاکستان کی فوجی قوت اور ایٹمی طاقت کا اندازہ ہونا چاہیے کہ اس کے ساتھ بالاکوٹ میں ہوا کیا تھا ۔ایسا نہ ہو کہ مودی کے فاشزم کی سزا پورے خطے کے عوام کو ملے ۔دو ایٹمی قوت میں سے کسی ایک کے جارحانہ عزائم نہ صرف دونوں ممالک کے عوام بلکہ پورے خطے کے لیے خطرے ناک ہیں” ۔ بھارت میں کروڑوں ہندو انتہاء پسند اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی اس امید سے ہیں کہ 2024 میں جب مودی جی نئے انتخابات میں جائیں گے اس سے پہلے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر چڑھائی کر کے اسے واپس حاصل کر لیں گے۔اسی طرح کے خیالات جموں کے راجیو ڈوگرہ کے ہیں وہ کہتے ہیں ! ” جب تک مودی ہیں تب تک سب کچھ ممکن ہے۔ وہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے وعدے کے مطابق واپس حاصل کرکے دکھائیں گے، ورنہ ہم انہیں معاف نہیں کریں گے۔جو شخص چین کو للکار سکتا ہے، اس کے سامنے پاکستان کی کیا وقعت ہے؟”برلن میں ہرمین ہرچل جو جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ہیں کا خیال ہے کہ “ہندوتوا کے سیاسی پس منظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت ایسا تجربہ کرے لیکن پاکستان کا دفاع اتنا کمزور نہیں کہ آسانی سے اپنے حصے سے دستبردار ہوسکے۔ یہ خبریں گشت کر رہی ہیں کہ سرحد پر فوجی نقل و حمل بڑھ گئی ہے مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جنگ اگر ہوگی تو دو جوہری ممالک کے درمیان ہوگی۔بھارت اس وقت دنیا کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہے جیسا کہ اس نے آرٹیکل 370 ختم کرنے میں لی تھی لیکن کوئی ملک جنگ کی حمایت نہیں کر سکتا۔بھارت کی نظر محض کشمیر پر ہے، گلگت بلتستان اس کی نظر میں اہم نہیں اس کا نام لینے کا مقصد محض امریکہ اور یورپ کی توجہ حاصل کرنا ہے، جو سی پیک کے خلاف اور چین کو گھیرنے کے لیے بے تاب ہیں” مودی سرکار اپنے ان حمایتیوں کی امیدوں کو یقینی بنانے کے لیے آزاد کشمیر کے کسی حصہ پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ انتخابات میں بتا سکے کہ میں نے نہ صرف 79 سال پرانے آرٹیکل 370 کو بغیر کسی جھجھک اور مزاحمت کے ختم کر دیا بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا کچھ علاقے بھی قبضہ میں لے لیے ہیں۔ پاکستان کی افواج اور آزاد کشمیر کی حکومت کو چوکس رہنے کی ضرورت ہے خاص طور پر سرحدی علاقوں میں رہائش پذیر شہریوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ بھارتی فوج کی نقل و حمل پر نظر رکھیں اور کسی غیرمعمولی صورت حال سے فوری طور پر مقامی انتظامیہ کو مطلع کریں۔
================