مخالفت اور تنقید بھی نجم سیٹھی کو ٹاپ ٹرینڈ بننے سے نہ روک سکی ، بابر اعظم اور نجم سیٹھی کی مسکراہٹ ، مخالفین پر بجلی بن کر گری ، بعض حاسدوں نے نجم سیٹھی کا مذاق اڑانے کے لیے اصلی تصویر کو رمیز راجہ اور نواز شریف کی تصویر سے بدل دیا ۔ پی سی بی اور پی ایس ایل کے کامیابیوں کے لیے بھرپور اقدامات کی وجہ سے نجم سیٹھی کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے

مخالفت اور تنقید بھی نجم سیٹھی کو ٹاپ ٹرینڈ بننے سے نہ روک سکی ، بابر اعظم اور نجم سیٹھی کی مسکراہٹ ، مخالفین پر بجلی بن کر گری ، بعض حاسدوں نے نجم سیٹھی کا مذاق اڑانے کے لیے اصلی تصویر کو رمیز راجہ اور نواز شریف کی تصویر سے بدل دیا ۔ پی سی بی اور پی ایس ایل کے کامیابیوں کے لیے بھرپور اقدامات کی وجہ سے نجم سیٹھی کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے موجودہ


اور سابق کھلاڑی ان کی پالیسیوں اور فیصلوں کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ رمیزراجہ حامی گروپ سے تعلق رکھنے والی کچھ آوازیں شور مچا کر شائقین کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن ان آوازوں پر کوئی کام نہیں دھر رہا پی سی بی

اپنے فیصلے کر رہا ہے اور پی ایس ایل کا اگلا سیزن بھی کامیابی سے منعقد ہونے کے لئے تیار ہے کوئٹہ میں نمائشی میچ کی تیاریاں مکمل ہیں دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کی نظریں پی ایس ایل پر لگی ہوئی ہیں تمام فرنچائز ٹیمیں اور ان کی انتظامیہ پرجوش ہے کھلاڑی پوری طرح تیار ہیں اور آنے والے دنوں میں شائقین کرکٹ کو پی ایس ایل کے ذریعے بہترین کرکٹ دیکھنے کو ملے گی ۔

========================
پی سی بی پوڈ کاسٹ کے خصوصی ایڈیشن میں بابراعظم، سرفرازاحمد اور شاہین شاہ آفریدی شامل ہیں، تینوں کپتانوں نے اپنے گذشتہ ایچ بی ایل پی ایس ایل کے تجربات کی روشنی میں آٹھویں ایڈیشن کے متعلق جائزہ پیس کیا ہے۔ آٹھویں ایڈیشن کا آغاز 13فروری کو ملتان میں ہوگا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) سے جمعرات کو جاری پی سی بی پوڈ کاسٹ کے 43ویں ایڈیشن میں پشاور زلمی کے نئے کپتان بابر اعظم، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے کپتان سرفراز احمد اور گزشتہ سال لاہور قلندرز کو پہلا ٹائٹل جیتوانے والے شاہین آفریدی شامل ہیں۔
تینوں چیمپئن کرکٹرز نے گزشتہ ایونٹس پراپنے مشاہدے کی روشنی میں پی ایس ایل کے آٹھویں ایڈیشن کے بارے میں جائزہ پیش کیا ہے جو 13 فروری سے 19مارچ تک کراچی، لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں کھیلا جائے گا۔

2021کی چیمپئن ملتان سلطانز 13فروری کو افتتاحی میچ میں چیمپئن لاہور قلندرز کی میزبانی کرے گی جبکہ پشاور زلمی کراچی میں 14 فروری کو کراچی کنگز سے مقابلہ کرے گی۔

ٹورنامنٹ کی تاریخ میں سب سے زیادہ رنز (2,413) بنا نے والے بابر اعظم نے کہا ہے کہ ہر ایچ بی ایل پی ایس ایل ایڈیشن اپنی مسابقتی نوعیت کی وجہ سے میرے لیے انتہائی دلچسپ ہوتا ہے، ہر سال ایک مختلف چیلنج ہوتا ہے کیونکہ وہ کھلاڑی جن کے ساتھ آپ سارا سال پاکستان کے ڈریسنگ روم میں شریک ہوتے ہیں وہ آپ کے مخالف بن جاتے ہیں۔ایک نئی فرنچائز اور ایچ بی ایل پی ایس ایل کا ایک نیا سیزن میرے لیے مزید اہمیت رکھتا ہے اور میں اس سفر میں ایک اچھی شروعات کرنے کا منتظر ہوں۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کے ساتھ ایک سیزن اور کراچی کنگز کے ساتھ 6 سیزن کے دوران مختلف کھلاڑیوں کے ساتھ ڈریسنگ روم کا اشتراک کرنے سے مجھے بہت مدد ملی۔ جب آپ دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، ان کی ذہنیت، تربیت اور مختلف حالات سے نمٹنے کے طریقے کے بارے میں جانتے ہیں تو آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ میرے لیے ایچ بی ایل پی ایس ایل میں سنچری سکور کرنا ایک خواب ہے کیونکہ میرے پاس پہلے ہی دو ٹی 20 سنچریاں ہیں۔
میں اس ایچ بی ایل پی ایس ایل میں تھری فگر کا نشان حاصل کرنے کے بارے میں مثبت ہوں اور امید کرتا ہوں کہ بڑے سکور کے لیے جلد ہی صحیح وقت آئے گا۔ تمام سیزن میں اپنی فرنچائز کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی کپتانی کرنے والے واحد کھلاڑی سرفرز احمد نے کہا کہ ایچ بی ایل پی ایس ایل نے پاکستان میں کرکٹ کی ترقی میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس نے ہمارے کھلاڑیوں کو ایکسپوزر فراہم کیا ہے اور انہوں نے کیمرہ اور ہجوم کے دبائو کو ہینڈل کرنے کا طریقہ سیکھا ہے، جو ایک بین الاقوامی کرکٹر کے طور پر بڑھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
چونکہ ایچ بی ایل پی ایس ایل ایک بڑا برانڈ ہے، ہر کوئی اس میں کھیلنا چاہتا ہے اور دنیا بھر سے ٹاپ کھلاڑی اس میں شامل ہوتے ہیں، ہر کوئی ان کرکٹرز کو نوٹ کرتا ہے جو کارکردگی دکھاتے ہیں۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2017کی فاتح ٹیم میں وہ کھلاڑی تھے جنہوں نے ایچ بی ایل پی ایس ایل میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ فخر زمان، حسن علی، فہیم اشرف، شاداب خان یا رومان رئیس ہوں،یہ کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے اور پی ایس ایل فرنچائزز نے انہیں منتخب کیا۔
ایچ بی ایل پی ایس ایل میں ان کی شاندار کارکردگی نے انہیں قومی ٹیم میں جگہ دی۔لہذا ملک میں کرکٹ کی ترقی میں لیگ کا کردار بہت زیادہ ہے۔ لاہور قلندرز کی قیادت میں تبدیلی کے ساتھ ہی ان کی قسمت میں بڑی تبدیلی آئی۔ قلندرز نے سپیڈسٹار شاہین آفریدی کی کپتانی میں ملتان سلطانز کو ہوم گرائونڈ قذافی سٹیڈیم میں کھچا کھچ بھرے ہجوم کے سامنے شکست دے کر اپنا پہلا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
ٹورنامنٹ کی تاریخ میں تیسری سب سے زیادہ 20.77پر 70وکٹیں حاصل کرنے والے شاہین آفریدی نے کہا کہ ایک کپتان کے طور پر میں صرف میدان میں موجود لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتابلکہ ان کے بارے میں بھی سوچتا ہوں جو بینچ پر بیٹھے ہیں۔ آپ کو ٹیم میں ہر ایک کھلاڑی کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے اور ہر کسی کے ساتھ یکساں اور میچ ونر کے طور پر پیش آنا ہوتا ہے، چاہے اس کی سنیارٹی کچھ بھی ہو۔
قیادت کا سب سے اہم پہلو دبائو کو سنبھالنا ہے،مجھے دبائو کو سنبھالنے اور اپنی فیصلہ سازی کے ساتھ اچھے ہونے کی ضرورت ہے، کیونکہ اگر میں نے دبائو کو بڑھنے دیا تو میری ٹیم ٹوٹ جائے گی۔ جب بھی میں میدان میں اترتا ہوں سامنے سے قیادت کرنے کی کوشش کرتا ہوں اورضروری سمجھتا ہوں کہ خودبھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کروں کیونکہ اس سے میرے کھلاڑیوں میں اچھی کارکردگی دکھانے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
============
سیکرٹری کھیل بلوچستان محمد اسحاق جمالی نے کہا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت صوبے میں کھیلوں کے میدان آباد کرنے اور کھلاڑیوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ 5 فروری کو کوئٹہ گلیڈی ایٹرز اور پشاور زلمی کے مابین ہونے والا نمائشی میچ کوئٹہ میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے جنرل منیجر ڈومیسٹک کرکٹ جنید ضیاءسے ملاقات کے دوران کیا۔
اس موقع پر ڈائریکٹر جنرل کھیل درا بلوچ اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر سپورٹس امان اللہ خان درانی بھی موجود تھے۔ ملاقات میں بلوچستان میں کرکٹ کے فروغ، کھلاڑیوں کی بین الاقوامی سطح پر شمولیت، کوئٹہ میں فرسٹ کلاس میچز اور انٹرنیشنل میچز کی بحالی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

سیکرٹری کھیل بلوچستان نے کہا کہ 5 فروری کو کوئٹہ میں نمائشی میچ منعقد ہونے جا رہا ہے جس سے صوبے میں کرکٹ کو فروغ ملے گا۔

ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان میں کھیل اور کھلاڑی ترقی کریں۔ بلوچستان میں کرکٹ کے حوالے سے ٹیلنٹ موجود ہے ضرورت انہیں مواقع اور سہولیات فراہم کرنے کی ہے۔ پی سی بی کے جنرل منیجر ڈومیسٹک کرکٹ جنید ضیانے بلوچستان کے کرکٹرز کی صلاحیتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں ٹیلنٹ موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی سی بی کوئٹہ میں کرکٹ کے فروغ اور ایونٹس کے انعقاد کیلئے عملی اقدامات اٹھائے گی
========================
قومی کرکٹ ٹیم کے اسٹار فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کل نکاح کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔

شاہین آفریدی کا نکاح کل شام شاہد آفریدی کی صاحبزادی انشا کے ساتھ ہوگا۔

نکاح کی تقریب کراچی کے مقامی کلب میں منعقد ہوگی جس میں شرکت کے لیے قومی فاسٹ بولر کے اہل خانہ کراچی پہنچ گئے۔

خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ مہندی کی تقریب آج رات منعقد ہوگی۔

==============================
سابق ٹیسٹ آل راؤنڈر یاسر عرفات قومی ٹیم کے نئے بولنگ کوچ ہوں گے اور وہ مکی آرتھر کے اسسٹنٹ کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں گے۔

مکی آرتھر کی عدم موجودگی میں یاسر عرفات قومی ٹیم کے کوچنگ اسٹاف کے سربراہ کی خدمات بھی انجام دیں گے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی نے مستقبل میں قومی کرکٹ ٹیم کی کوچنگ کے حوالے سے مکی آرتھر کی خدمات حاصل کرنے کی ٹھان لی ہے، اگرچہ مکی آرتھر انگلش کاؤنٹی ڈاربی شائر کے ساتھ وابستہ ہیں۔

نجم سیٹھی سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی منتخب ٹیم کے ساتھ پاکستان کرکٹ ٹیم کے معاملات دیکھنے اور چلانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

اس حوالے سے نجم سیٹھی نے مکی آرتھر جو اس وقت انگلینڈ میں موجود ہیں، ان کو اختیارات تفویض کیے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کا کوچنگ اسٹاف رکھ کر پاکستان ٹیم کی کوچنگ کے معاملات کو آگے بڑھائیں۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اس تناظر میں 54 سال کے مکی آرتھر نے قومی ٹیم کے نئے بولنگ کوچ کے لیے 40 سال کے یاسر عرفات کا انتخاب کرلیا ہے۔

یاسر عرفات نے حال ہی میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ سے لیول فور اسپیشلسٹ کوچ کی ڈگری حاصل کی ہے۔

یاسر عرفات نے گزشتہ کرکٹ بورڈ میں کوچنگ میں دلچسپی ظاہر کی تھی تاہم انہیں ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس سینٹر ندیم خان نے کوئی مؤثر جواب نہیں دیا تھا۔

راولپنڈی میں 12 مارچ 1982ء کو پیدا ہونیوالے یاسر عرفات نے فروری 2000ء سے ستمبر 2012ء تک پاکستان کے لیے 3 ٹیسٹ، 11 ون ڈے اور 13 ٹی 20 بین الاقوامی میچ کھیلے ہیں۔

===================================
پاکستان کے سابق کپتان اور کوچ مصباح الحق نے پی سی بی کی جانب سے مکی آرتھر کو ایک بار پھر عہدہ دینے کو پاکستان کرکٹ پر طمانچہ قرار دے دیا۔

ایسے میں کہ جب مکی آرتھر کے پاکستان کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر کے عہدے پر واپس آنے کا امکان ہے، مصباح الحق نے سابق پاکستانی کھلاڑیوں پر نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور اس وقت نجم سیٹھی کی زیر نگرانی کام کرنے والے پاکستان کرکٹ بورڈ کو کوچنگ کے لیے غیر ملکی کوچ لانے پر مجبور کرنے کا الزام لگایا۔

2016 سے 2019 تک پاکستان ٹیم کی کوچنگ کرنے والے مکی آرتھر کے ساتھ پی سی بی کی بات چیت 3 ہفتے قبل تعطل کا شکار ہوگئی تھی لیکن حالیہ دنوں میں فریقین کے درمیان مذاکرات میں تیزی آگئی ہے، کرکٹ بورڈ ان کے ساتھ بطور ٹیم ڈائریکٹر معاہدہ کرنے کے قریب ہے جب کہ گزشتہ دور میں وہ بطور ہیڈ کوچ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔

اگر مکی آرتھر پاکستانی کوچ کی ذمہ داریاں قبول کرلیں تو بھی وہ ڈربی شائر کے ساتھ طویل مدتی معاہدہ برقرار رکھیں گے، فریقین نے ایک معاہدہ اور شیڈول تیار کیا ہے جس کے مطابق وہ دونوں عہدے برقرار رکھ سکیں گے۔

یہ اقدام عالمی کرکٹ کے لیے غیر معمولی ہوگا جس میں مکی آرتھر ہر دورے پر پاکستانی ٹیم کے ساتھ نہیں ہوں گے لیکن ان کے پاس ان کا منتخب کردہ سپورٹ اسٹاف گروپ ہوگا جو آپریشنز چلائے گا۔

مصباح الحق نے معروف کرکٹ ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو کو بتایا کہ یہ ہمارے کرکٹ سسٹم پر ایک طمانچہ ہے کہ ہم ایک ہائی پروفائل فل ٹائم کوچ بھی تلاش کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ شرم کی بات ہے کہ بہترین کوچ پاکستان آنا نہیں چاہتے اور ہم ایسے شخص کو کوچ کے عہدے پر رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں جو پاکستان کو سیکنڈ آپشن کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس شرمناک صورتحال کے لیے میں اپنے نظام کو موردِ الزام ٹھہراتا ہوں جو اتنے کمزور خطوط پر استوار ہے کہ کوئی بھی اس نظام کا استحصال کر سکتا ہے۔

سابق کپتان نے کہا کہ ہمیں خود کو موردِ الزام ٹھہرانا چاہیے کہ ہم نے اپنے ہی لوگوں کی بے عزتی کی، ان کی ساکھ خراب کی اور ان کا برا تشخص اجاگر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ اور سابقہ کھلاڑی ایک دوسرے کا احترام نہیں کرتے، میڈیا اور سابق کھلاڑی ریٹنگ کے لیے اپنے یوٹیوب چینلز کا استعمال کرتے ہوئے ہماری کرکٹ کی ساکھ اور اقدار کو نقصان پہنچا رہے ہیں جس کے نتیجے میں یہ تاثر ملتا ہے کہ ہم نااہل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ شائقین ہمیشہ خفا اور نالاں رہتا ہے، وہ میڈیا پر چلنے والی منفی خبریں دیکھ کر غلط تاثر لیتا ہے، کھلاڑیوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف رنجش اور حقارت کے ساتھ بات کرنے سے ہماری کمیونٹی کی قدر کم ہوتی ہے اور منفی تاثر بن جاتا ہے، اس طرح کی بات چیت کے دوران کھیل کے معروضی اور تعمیری نکات کو کم ہی موضوع بحث بنایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کرکٹ ملک کا سب سے مقبول کھیل ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کا ذکر کم ہی ٹھیک طریقے سے شہ سرخیوں میں کیا جاتا ہے۔

مصباح الحق نے کہا کہ یہ افراتفری ہے، سابق کرکٹرز قومی چینلز پر اپنے ساتھی کرکٹرز کا مذاق اڑاتے ہیں جس سے شائقین کو غلط تاثر جاتا ہے، ہمارے ملک کے کرکٹ سسٹم میں عزت و احترام اور سازگار ماحول نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی سی بی ہمیشہ غیر ملکی کوچز کی حمایت کے لیے تیار ہے لیکن کبھی بھی مقامی کوچز کو سپورٹ نہیں کرتا، انہیں بیرون ملک کوچ رکھنے کا شوق ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مقامی لوگوں کو آسانی سے سیاست زدہ کیا جاسکتا ہے اور وہ نااہل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کیا ہم جانتے ہیں کہ یہ پی سی بی کی بیوروکریسی ہے جس نے اس کو سیاست زدہ کیا ہے؟ جب وہ بیوروکریسی دباؤ میں آتی ہے تو وہ مقامی کوچز کو قربان کردیتے ہیں اور ان کا محاسبہ اور احتساب کبھی نہیں ہوتا، یہ بدانتظامی اور نظام میں ہونے والی مسلسل تبدیلیاں ہیں جو ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہم کبھی بھی اپنی کرکٹ کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تلاش نہیں کر پاتے۔

سابق کوچ نے کہا کہ اب ایک عام بیانیہ ہے کہ پاکستان کرکٹ میں ایک بھی قابل آدمی نہیں ہے اور وہ باہر دیکھنے پر مجبور ہیں، بھارت جیسی کامیاب ٹیمیں مکمل طور پر مقامی کوچز کی جانب منتقل ہو چکیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہاں کی پالیسیاں اس قدر غیر مستقل اور مبہم ہیں کہ ہم کبھی بھی اس پر اتفاق رائے تک پہنچنے کے قابل نہیں ہو پاتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کچھ بہت اچھے لوگ ہیں جیسے محمد اکرم، عاقب جاوید، انضمام الحق، وقار یونس وغیرہ جو اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں لیکن ان کی شہرت کو بری طرح سے داغدار کردیا گیا اور لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عہدے کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ احسان مانی کے دور میں پی سی بی نے نوجوان سابق کرکٹرز کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن بورڈ کے اندرونی ورکنگ کلچر کی وجہ سے کئی سابق کھلاڑی اس میں شمولیت سے گریزاں تھے۔

مصباح الحق نے کہا کہ وسیم اکرم اس کی ایک بہترین مثال ہیں جنہوں نے ہمیشہ خود کو پی سی بی میں ملازمت سے دور رکھا اور عوامی نظروں میں آنے والے عہدوں سے ہٹ کر مختصر مدت کے معاہدوں کے تحت کام کرنے کو ترجیح دی۔

انہوں نے کہا کہ انضمام نے بطور چیف سلیکٹر شمولیت اختیار کی اور اپنی مدت پوری کرنے کے بعد آئندہ طویل مدتی ذمے داری نہ لینے کا فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ احسان مانی کے دور میں پی سی بی نے مقامی کوچز کی ٹریننگ کے لیے ایک منصوبہ بنایا تھا اور نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو پلیئر اور کوچ کی ترقی کے لیے ہائی پرفارمنس سینٹر میں تبدیل کر کے اس کی اصلاح کی تھی اور بڑی تعداد میں کوچز کو بھرتی کیا تھا، لیکن رمیز راجا چیئرمین پی سی بی بننے کے بعد گراس روٹ اور ڈومیسٹک لیول پر بیرون ملک کوچز لائے اور پورے ڈھانچے کو ری سیٹ کیا۔