کشمیر کے بغیر بھارت سے تعلقات ؟


نوید نقوی
===========
1947 میں جب تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت دنیا کے نقشے پر وجود میں آئے تھے ، بھارت نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا 1971 میں جب مشرقی پاکستان میں ہماری مسلح افواج نے علیحدگی پسندوں کے خلاف آپریشن کیا تو اس وقت بھی ہمارے دشمن پڑوسی ملک نے مکتی باہنی نامی ایک دہشت گرد تنظیم بنا کر پاکستان کے خلاف انتہائی اقدام اٹھایا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور اس مکار دشمن نے ہم سے ہمارا دایاں بازو جدا کر لیا، اس ملک نے یہاں تک بس نہیں کیا بلکہ کشمیر پر بھی اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا اور مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتا رہا ہے۔ جب سے بھارت کی وزارت عظمیٰ بی جے پی جیسی دہشت گرد جماعت کے انتہا پسند لیڈر جسے گجرات کا قصاب بھی کہا جاتا ہے نریندر مودی کے ہاتھ میں آئی ہے نہ صرف کشمیریوں پر ظلم میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں پر بھی گھیرا تنگ کر دیا گیا اور ان کو RSS، BJP کی ایماء پر انتظامیہ نے نہ صرف تنگ کیا بلکہ ان کے گھروں تک کو ان دہشت گرد جماعتوں کی آشیرباد سے مسمار کیا گیا ان کو بے گناہ قتل کیا گیا، بھارت کے وزیراعظم مودی نے 5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے اس مسلمان اکثریت والی تاریخی ریاست کو بھارت میں ضم کر دیا اور انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی دھجیاں اڑا دیں۔ پاکستان نے اس دہشت گردانہ اقدام کی شدید مخالفت کی اور اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن مودی کی فاشسٹ حکومت پر جوں تک نہ رینگی، پاکستان نے بھارت سے ہر قسم کے تعلقات اور تجارت ختم کر دی اور مختلف تنازعات پر ہونے والے مذاکرات بھی ختم کرتے ہوئے انڈیا کا بائیکاٹ کر دیا۔ لیکن افسوس ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے کشمیر کا مقدمہ بھی زیر التوا رہا اور دن بہ دن پاکستان کی معیشت کی حالت بھی خراب ہوتی گئی اور رہی سہی کسر گزشتہ سال آنے والے سیلاب نے پوری کر دی اور کروڑوں پاکستانیوں کو اس وقت فوڈ سیکیورٹی کا سامنا ہے۔ ہمارے حکمران اب ملکوں ملکوں چکر لگا کر امداد اکٹھی کر رہے ہیں اور ملکی معیشت کا پہیہ جیسے تیسے چل رہا ہے، اس بیچ ملکی معیشت کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے بھارت سے مذاکرات شروع کرنے کے عزم کا اظہار کیا تاکہ معیشت پر مثبت اثر پڑے اور آٹے کے بحران کا سامنا کرتے عوام کو کچھ ریلیف مل سکے لیکن ان کی اس کاوش کو اپوزیشن جماعت نے تنقید کی زد پر لے لیا اور مجبوراً وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے ’العریبیہ‘ نیوز چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو کے چند گھنٹوں بعد وزیر اعظم آفس کے ترجمان نے وضاحت کی ہے انڈیا اور پاکستان کے درمیان بات چیت کا آغاز صرف اُسی وقت ہو سکتا جب انڈیا پانچ اگست 2019 کو انڈیا کے زیر انتظام کشیمر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے اقدام کو واپس نہیں لیتا۔وزیر اعظم آفس سے جاری ہونے والی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ ’وزیر اعظم پاکستان آن ریکارڈ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ (انڈیا اور پاکستان کے درمیان) بات چیت تبھی ممکن ہو سکتی ہے جب انڈیا پانچ اگست 2019 کے اٹھائے گئے اپنے غیر قانونی اقدام کو واپس لے۔ اس اقدام کی منسوخی کے بغیر مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔
بظاہر یہ وضاحت اس وقت جاری کرنا پڑی ہے جب اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف اور چند دیگر حلقوں کی جانب سے شہباز شریف کے انٹرویو کے چند اقتباسات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ مجھے شہباز شریف کے بیان (انٹرویو) پر حیرانی ہوئی۔ اس معاملے (مذاکرات) پر پاکستان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جب تک مودی حکومت کشمیر کی اصل آئینی حیثیت بحال نہیں کرتی اس وقت تک پاکستان مذاکرات نہیں کرے گا۔ (انڈیا سے) مذاکرات کی بھیک مانگنا پاکستان کی پالیسی نہیں۔ ہم شہباز شریف کی اس اپروچ پر مسترد کرتے ہیں.یاد رہے کہ دورہ
متحدہ عرب امارات کے دوران وزیرِ اعظم پاکستان شہباز شریف نے 16 جنوری کو العربیہ چینل کو انٹرویو دیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے متحدہ عرب امارات سے درخواست کی ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنا کردار ادا کرے۔شہباز شریف نے انٹرویو کے دوران نریندر مودی کو یہ پیغام دیا کہ آئیے بیٹھتے ہیں اور سنجیدہ مذاکرات کرتے ہیں۔ انھوں نے اس حوالے سے تفصیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا ہمارا ہمسایہ ملک ہے، میں اس بارے میں بہت واضح بات کروں گا کہ اگر ہم نے ایک دوسرے کا انتخاب نہیں بھی کیا، تب بھی ہم ہمیشہ کے لیے ہمسائے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم امن کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور ترقی کریں یا ایک دوسرے سے لڑیں، جھگڑیں اور وسائل ضائع کریں۔ شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان نے اپنا سبق سیکھ لیا، ہماری انڈیا سے تین جنگیں ہوئی ہیں اور ان جنگوں کی وجہ سے ہمیں مزید بدحالی اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن میں غربت، بیروزگاری وغیرہ شامل ہیں۔شہباز شریف نے نریندر مودی کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ میرا پیغام نریندر مودی کے لیے یہ ہے کہ آئیے بیٹھتے ہیں اور سنجیدہ مذاکرات کرتے ہیں تاکہ ہم اپنے مسائل کا حل نکال سکیں، جیسے کشمیر کا مسئلہ جہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا نے آرٹیکل 370 کے ذریعے کشمیریوں کی آزادی سلب کر دی ہے اور وہاں پر اقلیتوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا جا رہا ہے۔ یہ ختم ہونا چاہیے تاکہ دنیا بھر میں ایک پیغام جائے کہ انڈیا مذاکرات کے لیے تیار ہے اور ہم بھی امن کے لیے تیار ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ممالک کے وسائل کو اعلٰی تعلیم پر خرچ کرنا ہے اور اسے غربت کے خاتمے کے لیے استعمال کرنا ہے نہ کہ اس کے ذریعے اسلحہ اور بم خریدنے ہیں۔ وزیرِ اعظم مودی کو میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہم دونوں ممالک جوہری طاقتیں ہیں اور اگر خدانخواستہ جنگ ہو گئی تو کون زندہ رہے گا یہ بتانے کے لیے کہ کیا ہو گا۔ میں نے گذشتہ روز اپنے بھائی محمد بن زیاد سے درخواست کی ہے کہ متحدہ عرب امارات ایک برادر ملک ہے اور ان کے انڈیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ وہ دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ میں اس حوالے سے زبان دیتا ہوں کہ ہم انڈین رہنماؤں کے ساتھ خلوصِ نیت سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے درست کہا ہے ہمیں اپنے دشمن پڑوسی کو اس بات پر قائل کرنا چاہیئے کہ ہم ایک دوسرے سے مذاکرات کر کے ہی آگے بڑھ سکتے ہیں اور اس کے لیے اس کو مظلوم کشمیریوں پر ظلم و ستم ختم کرنا ہوگا
==============================