ملکی اداروں سے ایک سوال عوام سے وصول کردہ ٹیکس کہاں جارھے ھیں


تحریر ۔۔۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
=============


مجبور اور بے بس پاکستانی چوبیس گھنٹے ٹیکس ھی ٹیکس دیتے ھیں آخر یہ ٹیکس کن لوگوں کی جیبوں میں جارھے ھیں کیونکہ ملکی خزانہ تو صدی سے خالی ھے اور ھر پاکستانی حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور بیرونی ممالک سے قرضے لے کر ملکی معاملات چلاتی ھے
ابھی ھم نے بازار سے کارن سوپ کے دو پیالے لیے جن کی اصل قیمت 480 روپے ھے اور اس سوپ پر 16 فیصد کے حساب سے 77 روپے جی ایس ٹی بھی نہایت شرافت سے ادا کیا یوں دو پیالے سوپ ھمیں 557 روپے میں پڑے
اس طرح ھم تمام پاکستانی پانی کی بوتل، کھانے پینے و دیگر روزمرہ استعمال کی اشیاء سے لیکر بڑی سے بڑی گاڑی خریدتے وقت اصل قیمت کے ساتھ جنرل سیل ٹیکس و دیگر مختلف ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں جو حکومتی خزانوں میں جانے چاھیے مگر ٹیکسوں کی مد میں عوام سے لئے گئے پیسے ملکی خزانے کی بجائے کہیں اور جارھے ھیں اس لئے تو پاکستانی ملکی خزانے خالی رہتے ہیں
ھر ریاست عوام کے ٹیکسوں سے چلتی ھے اور ٹیکس اکٹھا کرنے کے مختلف محکمے ذمہ دار ھیں جن کی بنیادی ذمہ داری یہ ھے کہ وہ کاروباری حضرات سے ٹیکس وغیرہ کی مد میں پیسے وصول کرے اور حکومتی خزانے میں جمع کروائے مگر ان محکموں کے اہل کار ٹیکس تو اکٹھا کرتے ہیں مگر وہ پیسے خزانہ میں جمع کروانے کی بجائے اپنی تجوریاں بھرنے مصروف رہتے ہیں اور موج مستیاں کرتے ہیں اور حکومتیں بیرونی ممالک سے قرضے و امداد لے کر ملکی معاملات چلانے کی کوشش کرتی ھے آخر کب تک یہ لوٹ مار چلتی رھے گئی