یادوں کی بہار،

یادوں کی بہار،۔ عابد حسین قریشی ،۔ “عدل بیتی ” میں اپنی عدالتی زندگی کے بہت سے دلچسپ واقعات قلمبند کیے اور توقع سے زیادہ پزیرائی ملی۔ مگر پھر بھی کئی واقعات صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے سے رہ گئے ۔یوں تو اس طرح کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات کی ایک لمبی لڑی ہے مگر کوشش کروں گا کہ صرف وہی واقعات شیرء کیے جائیں جن میں کسی نہ کسی اخلاقی اور معاشرتی مسئلہ کی جھلک ہو۔ان واقعات میں اخلاقی گراوٹ کی جھلک بھی ہے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار اور عظمت انسانی کی داستان بھی ہے۔ کسی ضلع میں بطور ڈسٹرکٹ جج دو حقیقی بھائیوں میں تقسیم جائیداد کی ایک اپیل کی سماعت کے دوران جب دونوں بھائیوں میں راضی نامہ کرانے کی کوشش کی تو کچھ دلچسپ اور کچھ اخلاقی طور پر افسوس ناک حقائق کا انکشاف بھی ہوا۔ بیرون ملک مقیم بھائی نے زمین کا ایک قیمتی ٹکڑا اپنے والد کے نام خرید کر اس کے اوپر ایک کمرشل مارکیٹ بھی اپنی گرہ سے بنوائی ۔پاکستان میں مقیم دوسرا بھائی اس مارکیٹ کا انچارج بن گیا اور کرایہ وغیرہ بھی وصول کرتا رہا۔ باپ کی وفات کے بعد اسی جائیداد کا تنازعہ شروع ہو گیا۔ بیرون ملک مقیم بھائی نے دعویٰ تقسیم جائیداد دائر کرکے سول کورٹ سے ڈگری حاصل کر لی جسمیں دونوں بھائی برابر کے حصہ دار قرار پائے ۔ہم نے جھگڑا کو ختم کرنے کے لیے مصالحت کی کوشش کی تو پاکستان میں مقیم بھائی نے اس صورت میں اپنی اپیل واپس لینے پر رضامندی ظاہر کی اگر اس کی پیش کردہ اخراجات کی لسٹ کے مطابق دوسرا بھائی وہ رقم اسے ادا کرے جو اسکے بقول اس نے اس جائیداد کی دیکھ بھال اور کچھ متفرق اخراجات کی صورت میں برداشت کیے تھے۔ان میں کچھ بہت ہی نامناسب اور مضحکہ خیز اخراجات بھی تھے جن میں کوئی بیس ہزار روپے کی رقم والد صاحب کے چھوٹے پیشاب کے آپریشن پر بھی خرچ ہوئی لکھی گئی تھی ۔ میں سر پکڑ کر ششدر، درماندہ تصویر حیرت بنا رہ گیا کہ لالچ اور خود غرضی میں انسان کتنی منزلیں کس بے حسی میں پھلانگ جاتا ہے۔اور اسی بیٹے کو اسکے مرحوم باپ نے کس قدر چاہت،اور محبت میں کتنی عسرتوں اور تکلیفوں میں پالا پوسا ہوگا مگر یہ ناخلف،خائب و خاسر اور مخزول و نامراد ٹھہرا ۔جو درماندگی اور کمینگی کی اس منزل کا راہی ہے کہ اپنے باپ کی بیماری پر اٹھنے والے چند ہزار روپوں کا بھی حساب لکھ کر دوسرے بھائی سے حصہ مانگ رہا ہے۔ کیا کبھی اس کے باپ نے بھی اس بیٹے پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب کیا ہوگا اور کیا باپ کے احسانات اور احساسات کا حساب اولاد کبھی ادا کر سکتی ہے۔۔ 1987,1988 میں کھاریاں میں اپنی تعیناتی کے دوران ایک گارڈین شپ کی درخواست کا فیصلہ کرتے وقت نابا لغان کی والدہ کا جذبہ ایثار و قربانی دیکھ کر انسانی عظمت پر یقین کامل ہوا۔ ایک نوجوان دیہاتی جوڑا طلاق کے بعد دو بیٹوں کی حوالگی کے مقدمہ میں ہماری عدالت میں پیش تھا۔ ایک بچہ تقریباً سات آٹھ سال کا ماں کے ساتھ عدالت میں کھڑا تھا اور دوسرا بچہ دو تین سال کا ماں کی گود میں تھا۔وہ مرد اپنے گھر میں اکیلا ہی رہ گیا تھا اور اسکی سابقہ بیوی اسے ایک بچہ دینے پر رضامند تھی۔میرے پوچھنے پر کہ وہ کونسا بچہ باپ کو دینا چاہتی ہے اس عورت نے اتنی دلسوزی اور بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ سر یہ چھوٹا بچہ جو میری گود میں یہ پولیو کی وجہ سے معذور ہے اور یہ میں اپنے پاس رکھوں گی یہ مرد اسے کس طرح پالے گا جبکہ دوسرا صحت مند بچہ وہ باپ کے حوالے کرنے پر رضامند تھی۔ یہ جذباتی اور مسحور کن منظر دیکھ کر میرے سمیت عدالت میں موجود ہر شخص دم بخود رہ گیا۔ میں نے کہا کہ بی بی تو دونوں بچوں کی حقدارہ ہے مگر وہ وفا کی پیکر اپنا صحت مند بچہ بخوشی باپ کے حوالہ کر رہی تھی۔اس جذبہ کو ممتا کا نام دیں، عشق و سرمستی کہیں، سر افنگندگی کہیں، معراج انسانیت کہیں، عجز و انکسار کہیں، ایثار و قربانی کہیں یا کچھ بھی کہ ایک ممتا معذور بچہ رکھ کر اور صحت مند اپنے سابقہ خاوند کو دے کر مسرور بھی ہے، خورسند بھی، مطمئن بھی ہے اور حوصلہ مند بھی۔قربانی، ایثار، فریفتگی، جان نثاری ،والہانہ پن، آشفتگی ، شوق کی بے تابیاں اور جذب کی سر مستیاں ہی تو شاید ماں کی ممتا کے دوسرے نام ہیں ۔جو حالت نشاط ہو یا کسل مندی کی کیفیت ایک ہی جذبہ اور ایک ہی والہانہ پن سے اپنی اولاد پر قربان ہوتی ہے۔. متذکرہ بالا کہانی جب لاہور کی پوسٹنگ 1995 ،1996 کے دوران اپنے سابقہ کولیگ،ایک ادیب اور شاعر شیخ حسیب کو سنائی تو وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس سحر انگیز اور دلچسپ کہانی پر ایک ڈرامہ تحریر کر دیا جو اس زمانے میں PTV پر بھی چلا۔ اس طرح کے واقعات اثر انگیز اور دل پزیر ہونے کے ساتھ ساتھ عبرت انگیز بھی ہوتے ہیں ۔ اب جسکے جی میں آئے وہ پائے روشنی ۔

عابد حسین قریشی
ڈسڑکٹ اینڈ سیشن جج لاہور (ر)
==========================