فاز پلازہ اسلام آباد منفرد منصوبہ، ویران زمینوں کی آبادکاری کیسے؟۔

سچ تو یہ ہے،


بشیر سدوزئی

آزادی کے وقت آزاد کشمیر اور خاص طور پر پونچھ کے پہاڑی علاقوں میں غربت، پسماندگی اور ناخواندگی عروج پر اور ذرائع نقل و حمل ناپید تھے۔ لوگ وادیوں میں بند، غلہ اور گلہ بانی میں مصروف رہتے، وہی ان کا روزگار، وہی ان کی گزر بسر اور وہی ان کی کل کائینات ہوتی چھ ماہ کماتے اور چھ ماہ کھاتے رہتے۔ڈوگرہ حکومت نے دانستہ عوام کو ناخواندہ، پسماندہ اور غریب رکھا ہوا تھا تاکہ اس کے اطاعت گزار رہیں۔پونچھ شہر کو پہنجاب کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے واحد ذریعہ ایک کچی اور بعض جگہوں پر نا ہم وار سڑک اپنی گاڑی کے لیے تعمیر کر رکھی تھی جس کی تصویر کشی کرشن چندر اپنی تحریروں میں خوب کرتا ہے۔آزادی کے بعد راستے اور سڑکیں تعمیر ہونا شروع ہوئی لیکن اس کی رفتار بہت سست تھی۔60 کی دہائی میں راولاکوٹ کو براستہ منگ آزاد پتن( لچھمن پتن) کہوٹہ سے ملانے کے لیے سڑک کی تعمیر تو مکمل ہوئی لیکن عوامی ٹراسپورٹ کا مسئلہ پھر بھی باقی رہا۔ حکومت آزاد کشمیر کے پاس نہ وسائل تھے اور نہ انفراسٹرکچر کے وہ عوامی ٹراسپورٹ چلا سکے، راولاکوٹ کے ایک فرزند نے زمان بس سروس کے نام سے عوامی ٹراسپورٹ شروع کر کے یہ مسئلہ کافی حد تک حل کیا جو سواریوں کو راولاکوٹ سے راولپنڈی تک لاتی لے جاتی تاہم یہ فاصلہ 10 گھنٹوں اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ وقت میں طہ ہوتا،اب تو وسائل کی بھر مار ہے اور فاصلے بھی سمٹ گئے۔ ہر کسی کی ہر ممکن کوشش ہے کہ اس کے پاس اپنی سواری ہو۔ عوامی بس پر اب کوئی سفر بھی نہیں کرتا نہ ایسی سروس موجود ہے۔ زمان بس سروس کے مالکان کی اولادیں آج راولپنڈی اسلام آباد میں دیگر کاروبار میں نام و مقام کما رہی ہیں۔راولپنڈی کے سابق مئیر سردار نسیم خان کا تعلق بھی اسی خان دان سے ہے۔ اسی خان دان کے ایک اور فرزند سردار عمران عزیر خان رئیل اسٹیٹ اور کیٹرنگ سمیت متعدد دیگر کاروبار میں مشغول ہیں تاہم بحریہ ٹاؤن فیز 7 اسلام آباد میں وہ ایک شاندار اور جدید سہولیات پر مبنی “فاز ٹاور” کے نام سے نیا رہائشی اور تجارتی منصوبہ لائے ہیں۔سردار عمران عزیر خان کا کہنا ہے دادا نے زبان بس کے نام سے کاروبار شروع کیا تھا اس کے بعد آج تک ہمارے خان دان کے کسی فرد نے ملازمت نہیں کی۔ہم تین نسلوں سے کاروبار کر رہے ہیں اور الحمداللہ خوش ہیں کیوں کہ خوش حال اور صاحب حثیت ہیں ۔ میری خواہش ہے کہ ہمارے لوگ کاربار میں آئیں تب ہی علاقے میں خوش حالی آئے گی۔ فاز ٹاور تعمیراتی منصوبہ اسی نیت سے شروع کیا اور دو منزلیں کاروبار کے لیے مختص کی ہیں ۔ جہاں کشادہ دوکانیں اور ہال موجود ہیں جو کسی بھی بڑے اور بین الاقوامی برائڈ کے لیے موضوع ہیں وہ کھانے کی فرنچائز ہو یا پہننے کی علاقے کی نوعیت اور حیت ایسی ہے کہ ہر کاروبار پھلے پھولے گا ترقی کرے گا شرط یہ ہے کہ کاروبار کو سیاست کے طرز پر نہیں کاروبار کے تقاضوں کے مطابق چلایا جائے۔۔راولاکوٹ میں مقرر زیادہ تاجر کم ہوتے ہیں جب تک اس تناسب میں تناسب پیدا نہیں ہوتا حقیقی تبدیلی مشکل ہے۔ عمران عزیر خان کا کہنا تھا کہ پٹھوار میں زمین کا کاروبار عام ہے اس لیے گھر اور دوکان تو ہر جگہ مل سکتی ہے لیکن جو ضمانت فاز انٹرپرائزز پرائیویٹ لمیٹڈ فاز ٹاور اسلام آباد کے حوالے سے دیتی ہے وہ کم کم منصوبوں میں ہے، یعنی ایک ماڈرن سوسائٹی میں درمیانہ طبقے کے لیے دوکانیں اور فلیٹ، دو کمرے کا فلیٹ جو صرف ڈیڑھ سال میں حوالے کیا جائے گا ڈیڑھ کروڑ روپے تک آسان قسطوں میں دستیاب ہے اور تین کمروں کا فلیٹ پونے دو کروڑ سے کم مل سکتا ہے ۔ڈیفینس ہاوسنگ اتھارٹی فیز 1 کے بالکل سامنے بحریہ ٹاؤن فیز 7 میں زیر تعمیر اس منصوبے کی اسلام آباد ڈیوپلپمنٹ اتھارٹی سے باقاعدہ منظوری حاصل کی گئی ہے۔اس پر کسی کو شک ہو تو سی ڈی اے کی وائب سائیڈ ملاحظہ کر سکتا ہے ۔ فوجی فاونڈیشن اسپتال کے قریب تر اس منصوبے تک مختلف چھ سمتوں سے راستے جاتے ہیں۔گائف کھلنے والوں کی دلچسپی کے لیے بھی خوشخبری ہے کہ گائف کلب اس منصوبے سے 700 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ منصوبے میں اہل پی جی کا سنٹرل سسٹم اور اسکورٹی کا خاص انتظام ہو گا۔۔عمران عزیر خان اپنے اس منصوبے کی مارکٹنگ سے زیادہ اپنے لوگوں کو تجارت کی دعوت دینے کراچی تشریف لائے اور کراچی میں کشمیری معززین کو ایک اجلاس میں منصوبے کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی اور سوالات جوابات کا سیشن بھی ہوا۔ سردار ارشد محمود جو کراچی میں سیاسی و سماجی رہنما کے طور پر نمایاں ہوئے ہیں اس منصوبے کے نمائندے ہیں دلچسپی رکھنے والے حضرات عمران عزیز خان کے ساتھ برائے راست یا ارشد محمود سے رابطہ کر سکتے ہیں کراچی میں آزاد کشمیر کے ایک اور کاروباری شخصیت نے کفیلا کے نام سے ہوٹل چین شروع کی ہے۔ ان کی اس چین کی ڈیفینس برانچ کی تیسری فلور پر بریفنگ کے ساتھ طعام کا بھی انتظام تھا۔معززین کشمیر نے کثیر تعداد میں طعام خوہانی میں بھر پور شرکت کی ۔ راولاکوٹ میں سنجیدہ حلقوں نے زمین کے استعمال اور وہاں سے پیداوار حاصل کرنے پر عملی اقدامات شروع کر دئے ہیں جو آزاد کشمیر کے عوام کے لیے ایک خوش کن پیغام ہے۔یکم جنوری کو نمب تراڑ کے مقام پر سبزی منڈی کے قیام کے حوالہ سے مقامی کسانوں اور کیمونٹی کے ماہرین زراعت کا مشاورتی اجلاس کا انعقاد ہوا جس میں کسانوں کی حوصلہ آفزائی کے لیے کچھ فیصلے اور اعلانات ہوئے جو علاقے میں زراعت کے فروغ اور آبائی پیشہ کی بحالی کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس موقع پر ماہرین نے کہا کہ کاشت کاری کے لیے وسیع و عریض زمین کی ضرورت نہیں بلکہ فلیٹ میں بھی سبزیوں کو اگایا جا سکتا ہے۔ گھر میں تازہ پھل اور سبزیاں اگانے سے بڑی رقم محفوظ کی جا سکتی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر اس پر خرچ ہوتی ہے ۔ بازار میں ملنے والی سبزیوں کے مقابلے میں گھرکی سبزیاں کھانے سے زیادہ غذائیت اور ذہنی تناؤ سے بھی نجات ملے گی۔ مبینہ طور پر اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ راولاکوٹ میں سبزی منڈی قائم کی جائے گی جہاں مقامی کسانوں کو سبزیاں اور فروٹ فروخت کرنے کی سہولت ہو گی۔ یہ بہت ہی مثبت اقدام ہے اس سے علاقے میں ایگریکلچر کو دوبارہ فروغ ملے گا جو تقریبا ختم ہو چکا۔ جب کہ تجارتی سرگرمیوں میں اصافہ اور عوام کو معیاری اور تازہ سبزیاں بھی دستیاب ہوں گی۔ راولاکوٹ یونیورسٹی اور مقامی انتظامیہ کو ایسے اقدامات کی حوصلہ آفزائی کرنا چاہیے۔ گو کہ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کے باعث زراعی زمین پر سمنٹی گھر تعمیر ہونے سے اس حوالے سے بہت زیادہ نقصان ہوا لیکن ماہرین نے کسانوں کی رہنمائی کا جو فیصلہ کیا اس سے بہت سارے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہی آج بھی ایک دوکنال زمین ہر فرد کے پاس موجود ہے اور اس کے استعمال سے تازہ خوراک کا حصول ممکن ہے ۔ اس اجلاس میں ملوٹ بن گراں کے سردار عبدالرشید چغتائی بھی تشریف لائے جو آزاد کشمیر کے مثالی زمیندار ہیں ان کے تجربات سے بھی لوگوں کو سیکھنا چاہئے۔
 
======================