کوسوو، مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان اور کشمیر ۔

سچ تو یہ ہے۔

بشیر سدوزئی
============
5جنوری کو سرحد کی دونوں جانب اور دنیا بھر میں کشمیریوں نے یوم حق خود ارادیت منا کر اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کرنے اور سیکریٹری جنرل سمیت امریکا یورپ اور ان کے اتحادیوں کو ذمہ داری کی یاد دہانی کرائی، جو انہوں نے 5جنوری 1948اور اس کے بعد وقفے وقفے سے لگ بھگ 16 قراردادوں میں رائے شماری کی ضمانت دی تھی۔ اس دن مظاہرے، سیمینار اور احتجاج منعقد ہوئے تاہم اس کا اندازہ نہیں کہ یہ جنگل میں مور ناچنے کے مانند اور نکارہ خانے میں توطی کی آواز تھی یا ان قوتوں تک آواز پہنچی جو اس سارے مسئلے کی طوالت کی ذمہ دار ہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام نے 15اگست 1947 کو راولاکوٹ کی سیاسی ٹیکری سے جس تحریک کا آغاز کیا تھا وہ ابھی تک جاری ہے لیکن 75سال کے بعد بھی صورت حال جوں کی توں ہے گویا اقوام متحدہ کی قراردادیں محکوم قوموں کو دھوکہ دینے کا آسان نسخہ ہے یا حق خود ارادیت کی گردان محض طفل تسلی۔ کشمیریوں کے ساتھ 70 کی دھائی تک تو دھوکہ اور طفل تسلی ہی دی جاتی رہی لیکن جب انہوں نے اس کی شکایت کی تو ان کا علاج شروع ہوا۔ وہ علاج ایک لاکھ نوجوانوں کا قتل عام، ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم، ہزاروں عورتوں کا بیوہ ہونا، ہزاروں افراد کا جیل کے ٹارچر سیلوں میں رکھا جانا اور 6 جنوری سوپور جیسے درجنہوں واقعات کا ہونا شامل ہے جس میں جموں و کشمیر کے عوام کے 40ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا۔ لیکن اقوام عالم وعدہ پورا کرنے کے لیے دونوں ممالک کے ثالثی کے لیا تیار ہونے کے انتظار میں ہے۔ اب تو سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے پاکستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر کہہ دیا کہ “مسئلہ کشمیر پر ہماری ثالثی کو بھارت ماننے کےلئے تیار نہیں ” گویا اقوام متحدہ کی قراردادوں پر حق خودارادیت کا یوم منانا بے مقصد اور بے کار کی مشق کے سوا کچھ نہیں۔ گوتریس نے بھی اسی ڈاکٹرآئن کو آگئیں بڑھایا کہ گڑھے مردوں کو کھودنے کا کیا فائدہ، جو مسئلہ اب تک حل نہیں ہوا اسے اب کیا حل ہونا ہے پھر دیکھ لیں گے فی الحال ملکی معیشیت کو درست کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ تجارت اور تعلقات بحال کئے جائیں ۔پاکستان کے سیاسی مدبروں، دانشوروں، سول سوسائٹی اور جموں و کشمیر کے عوام کے لیے سوچنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ 75 برس سے التواء کا شکار اس مسئلے کے اور کتنا عرصہ جوں کا توں لٹکے رہنے دیں گے اور اگر بھارت آج غالب آ چکا تو اس میں ہماری کتنی کوتاہی اور غلطی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہم مسئلہ کشمیر کے بیانیہ پر دنیا کو قائل کرنے میں ناکام ہوئے تو اب کیا لائے عمل اپنایا جائے کہ بھارت کو مذاکرات کے ٹیبل پر لانے کے لیے دنیا کی توجہ حاصل کریں۔ہم یہ شکایت تو کرتے ہیں کہ کوسوو، مشرقی تیمورز جنوبی سوڈان اور دنیا کی بہت سی قومیں آزاد ہوئیں، اقوام متحدہ کی نگرانی میں کئی مقامات پر ریفرنڈم کرائے گئے لیکن اقوام عالم جموں و کشمیر پر توجہ نہیں دیتی جس سے عالمی برادری کا دوغلے پن، منافقت اور دوہرہ معیار ظاہر ہوتا ہے۔ بے شک یہ شکایت تو جائز ہے لیکن دنیا سے شکایت کرنے سے قبل کشمیریوں کو ان قوموں کی آزادی کی تحریکوں اور اپنی طرز کا موازنہ بھی کرنا چاہئے اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہے اس پر ضرور توجہ دینا چاہیے۔ سب سے پہلے ہم “کوسوو” کی تحریک آزادی پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں کی قوم نے سربیا سے آزادی اور اقوام متحدہ کی ممبر شپ چاہا۔10 جون، 1999 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کر کے جنگ ختم کی اور کوسوو میں نیٹو کے امن فورس داخل ہوئی اس کے ساتھ ہی کوسوو کو نیم خودمختاری ملی 120 رکنی اسمبلی قائم ہوئی. وقت گزرنے کے ساتھ، مکمل آزادی کے لئے کوسوو کی نیم خود مختار ریاست نے سفارتی محاذ پر کام تیز کیا۔ اقوام متحدہ ، یورپی یونین امریکا اور روس کے ساتھ مذاکرات کئےاور سفارت کاری کے ذریعے ان کو حمایت پر آمادہ کیا۔ کوسوو کی نیم خود مختار ریاست کے لیے روس کو منانا ایک بڑا چیلنج تھا لیکن کوشش اور غیر جانب دار خارجہ پالیسی سے وہ مسئلہ بھی حل ہوا۔۔17 فروری، 2008 کو120رکنی کوسوو اسمبلی کے حاضر ممبران (109 ارکان نے) نے متفقہ طور پر سربیا سے آزادی کی منظوری دی۔سربیا نے اس کی مخالفت کی تاہم چار دن کے اندر، امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریلیا سمیت پندرہ ممالک کوسوو کی آزادی کو تسلیم کر چکے تھے۔2009 کے وسط تک، دنیا کے 63 ممالک، بشمول یورپی یونین کے 27 ارکان میں سے 22 کوسوو کو آزاد خود مختار ملک تسلیم کر چکے تھے۔ اور کئی درجن ممالک نے کوسوو میں سفیر تعینات کر لیے تھے. کوسوو انڈے اتنا ملک ہے جس کی آبادی لگ بھگ 18لاکھ ہے۔18لاکھ افراد نے آزادی حاصل کر لی اس لئے کہ وہ آزادی چاتے تھے تو دنیا نے ان کی خواہش کا احترام کیا۔ اگر وہ ایک ملک سے نکل کر دوسرے ملک میں شامل ہونا چاتے تو دنیا ان کی خواہش پر کبھی غور نہ کرتی۔ مشرقی تیمور ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی آبادی لگ بھگ 13 لاکھ کے قریب تر ہے۔1975 میں پرتگال سے آزاد ہوا تو انڈونیشیا نے قبضہ کر لیا۔ مغرب نے انڈونیشیا کی حمایت کی اس ڈر سے کہ مشرقی تیمور چین  کی مدد حاصل کر لے گاـ اس کم آبادی کی قیادت نے مغرب کو اپنی غیر جانب داری کی یقین دہانی کرا کر حمایت حاصل کی اور آزادی کی فضاء ہم وار ہوئی۔ 1999 میں انڈونیشیا ریفرینڈم پر رضی ہوا۔ریفرنڈم میں نتیجہ آزادی اور خود مختاری کے حق میں آیا تو سڑکوں پر تشدد اور قتلِ عام ہونے لگا اور سینکڑوں ہلاک ہوئےـ بلآخر اقوامِ متحدہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ 27 ستمبر، 2002 کو مشرقی تیمور کو اقوام متحدہ کی ممبر شپ حاصل ہوئی اس لیے کہ یہی اس کی خواہش تھی۔ جنوبی سوڈان افریکا کا ملک ہے جس کی کل آبادی82 لاکھ ہے۔9 جولائی 2011 میں 193واں رکن ملک کے طور پر اقوام متحدہ کی ممبر شپ حاصل کی۔ اس سے قبل جنوری2011ء  میں عوامی ریفرنڈم کے ذریعے جنوبی سوڈان کو ایک آزاد ملک بنانے کے حق میں ووٹ دیا گیا تھا۔ آزادی کے لیے یہاں کے عوام نے بھی جدوجہد کی بلآخر 2005 میں امن معاہدہ ہوا کہ مسائل کو پر امن اور جمہوری طریقے سے حل کیا جائے گا۔ ہہ ریفرنڈم اور آزادی اسی معاہدے کا حصہ تھی۔امریکا اور مغرب نے سوڈان کو مجبور کیا کہ وہ جنوبی سوڈان کے عوام کو حق خودارادیت دے لیکن اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں تھا کہ جنوبی سوڈان، سوڈان سے آزاد ہو گر کسی اور ملک جو سوڈان کا دشمن ہو میں شامل ہو رہا تھا۔ کوسوو ہو مشرقی تیمور یا جنوبی سوڈان ان قوموں نے آزادی کی جدوجہد کی اس کے لیے سفارت کاری کی ، امریکا اور مغرب نے ان کی آزادی میں مدد کی اور وہ آزاد ہو کر اقوام متحدہ کے ممبر بن چکے۔ جموں و کشمیر کے عوام کی سمت کس طرف ہے یہ ان کو خوب معلوم ہے اور وہ اپنی آزادی کے لیے کس قدر سفارت کاری کر رہے ہیں اس کا بھی انہیں اندازہ ہے۔ امریکا ہو یا مغرب چاہیے کوئی اسلامی ملک کشمیریوں کی مدد کیوں کر کریں گے جب وہ مدد مانگنے ان کے پاس جاتے ہی نہیں اور آج کی معزز دنیا میں آزادی کا مقصد اقوام متحدہ کی ممبر شپ اس کی ان کو طلب ہی نہیں۔ آزاد کشمیر میں نیم خود مختار ریاستی ڈھانچہ موجود ہے کیا یہ حکومت آزادی کے لیے سفارت کاری کر رہی ہے یا آزاد جموں و کشمیر کے عوام آزادی کی بات کرتے ہیں، کیا مقبوضہ کشمیر کے عوام اس طرح آزادی کی سفارت کاری یا جدوجہد کر رہے ہیں جس طرح کوسوو، مشرقی تیمور یا جنوبی سوڈان کے عوام نے کی ہے۔ اگر دنیا ہماری بات پر کان نہیں دھر رہی تو اس کا مقصد ہے کہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی، اور حال ہی میں آزاد ہونے والے ممالک کوسوو، مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کی تحریک آزادی میں مماثلت نہیں ہے۔ جب ہماری سمت ہی درست نہیں تو پھر ہمیں اقوام عالم کو کوسنے کا کیا حق ہے۔
==========================