ایک ایسا شہر جو سیاحت کے علاوہ جاسوسوں کا بھی مرکز رہا ہے

رب کا جہاں
=====
نوید نقوی
============

سوڈان افریقہ کا ایک خوبصورت ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 1886068 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریباً 47,958,856 نفوس پر مشتمل ہے۔ خرطوم ملک کا دارالحکومت ہے۔ عروس سوڈان کے صحرائی علاقے میں بحیرہِ احمر کے ساحل پر ایک انتہائی پرامن تفریحی ریزورٹ ہے مگر یہ مسحورکن ریزورٹ اسرائیلی جاسوسوں کے لیے ایک خفیہ مشن کا بیس بھی رہا ہے۔ انھی واقعات پر مبنی فلم ریڈ سی ڈائیونگ ریزورٹ بھی 2019 میں نیٹفلکس پر ریلیز کی گئی تھی۔ مگر شاید اس جگہ کی اصل کہانی فلم سے بھی زیادہ شاندار اور حیران کن ہے۔ایک چمکدار پمفلٹ دعویٰ کرتا ہے بحیرہِ احمر پر واقع عروس، ایک الگ ہی شاندار دنیا، سوڈان میں غوطہ خوری اور صحرائی تفریح کا مرکز ہے جہاں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں اور فطرت کے حسن سے مالا مال اس شہر میں حسین پل بتاتے ہیں۔تصاویر میں ساحل پر سورج کی روشنی میں چمکتے رنگ برنگے مکان نظر آتے ہیں۔ ایک جوڑا غوطہ خوری کا سامان پہنے مسکرا رہا ہے۔

نایاب مچھلیوں کی تصاویر کے ساتھ دنیا کے شفاف ترین ساحلی پانیوں کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ بروشر کا مصنف لکھتا ہے کہ رات ہوتے ہی آسمان پر دمکتے لاکھوں ستارے جنت کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ کھلے آسمان تلے رات گزارنا زندگی بھر کے یادگار لمحات ہوتے ہیں۔سوڈان کے ساحل دنیا میں ان چند ساحلوں میں شمار ہوتے ہیں جہاں قدرت کا انمول خزانہ موجود ہے۔ بہترین کورل ریف اور ایک قدیم ڈوبی ہوئی کشتی کے ساتھ بظاہر عروس نامی سیاحتی مرکز غوطہ خوری کا شوق رکھنے والوں کے لیے کسی خواب سے کم نہیں ہے۔یہ پمفلٹ ہزاروں کی تعداد میں چھپے اور یورپ کے مختلف ٹریول ایجنٹس کو دیے گئے۔ خرطوم اور جنیوا کے دفاتر میں یہاں کے لیے بکنگ کی جانے لگی اور وقت کے ساتھ ساتھ سینکڑوں سیاح یہاں جانے لگے۔سفر بہت طویل تھا مگر جب سیاح اس نخلستان میں پہنچ جاتے تو انھیں اولین درجے کی سہولیات، تازہ ترین کھانے اور شراب میسر ہوتی۔ اس ریزورٹ کی وزٹرز بک میں باندھے گئے تعریفوں کے پُل اس بات کا ثبوت دیتے ہیں۔سوڈان کا انٹرنیشنل ٹوئرسٹ کارپوریشن بھی خوش تھا۔ اس نے یہ مقام خود کو یورپی کاروباری شخصیات کہنے والے ایک گروہ کو کرائے پر دیا اور ان کی کوششوں سے ملک میں پہلے غیر ملکی سیاح آ رہے تھے۔مگر ایک بات یہاں آنے والے سیاحوں اور مقامی حکام کو نہیں معلوم تھی، ریڈ سی ڈائیونگ ریزورٹ ایک فریب تھا۔ دراصل اس کے پیچھے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ تھا۔لیکن موساد نے اسے ایک انتہائی غیر معمولی مشن کے لیے استعمال کیا۔ سوڈان کے پناہ گزین کیمپوں میں پھنسے ہزاروں ایتھوپیائی یہودیوں کو نکال کر اسرائیل لے جانا۔اسرائیلیوں کے لیے سوڈان ایک دشمن ملک تھا جو کہ عرب دنیا سے منسلک تھا اور یہ کام صرف رازداری کی بنیاد پر چل سکتا تھا۔ یعنی سوڈان یا اسرائیل میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔
یہ آپریشن اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ اس کے بارے میں صرف ان لوگوں کو پتا تھا جو کہ آپریشن میں براہِ راست طور پر ملوث تھے۔ ان ایجنٹوں کے گھر والوں کو بھی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔موساد کے جاسوس دن کے وقت ریزارٹ کے مہمانوں کو ان کشتیوں میں گھماتے اور رات کو انہی میں یہودی پناہ گزینوں کو محفوظ مقامات تک پہنچاتے۔ ایتھوپیا کے یہودیوں کا تعلق ’بیتِ اسرائیل‘ نامی برادری سے تھا۔ یہ برادری کہاں سے آئی، اس بارے میں کچھ واضح نہیں۔کئی صدیوں تک یہی خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بنی اسرائیل کی اُس شاخ سے ہیں جو کہ ملکہِ شیبا اور پیغمبر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک بیٹے کے ہمراہ 950 قبل مسیح میں ایتھوپیا آ گئے تھے اور اپنے ساتھ ’آرک آف دی کوویننٹ‘ لے آئے تھے۔آرک آف دی کوویننٹ، اس طلائی صندوق کو کہتے ہیں جس میں یہودی عقیدے کے مطابق پتھر کی وہ دو سلیٹیں رکھی گئی تھیں جس پر حضرت موسیٰ کو خدا کی جانب سے ملنے والے دس احکامات درج تھے۔ایک اور خیال کے مطابق وہ قدیم اسرائیل میں خانہ جنگی سے بھاگ کر یہاں آئے تھے یا پھر یروشلم میں 586 قبل مسیح میں ایک یہودی عبادت گاہ کے تباہ کیے جانے کے بعد ملک بدر ہو کر یہاں آئے تھے۔
1970 کی دہائی کے ابتدا میں اسرائیل کے مذہبی راہبوں نے اس بات کی سرکاری توثیق کر دی تھی کہ ’بیت اسرائیل‘ یہودیوں کے ان دس لاپتہ قبائل میں سے ایک ہیں جن کا آٹھویں صدی قبل مسیح میں اسرائیل کی سلطنت پر حملے کے بعد سے تاریخ میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ایتھوپیا کے یہودی مقدس کتاب تورات کو مانتے ہیں اور یہودی مذہب کا انجیل میں پیش کردہ انداز طرز اپنائے ہوئے ہیں اور ان کی عبادت گاہیں روایتی یہودی عبادت گاہوں یعنی کنیسا سے ملتی جلتی ہیں۔مگر کئی صدیوں تک یہودیوں سے قطع تعلقی کے بعد وہ یہ سمجھتے تھے کہ وہ دنیا میں واحد یہودی ہیں۔ان میں سے ایک فرد، فرید اکلم 1977 میں ایتھوپیائی حکام کو مطلوب تھے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ملک میں باغیوں کی حمایت کرتے ہیں اور وہ یہودیوں کو اسرائیل جانے پر اکسا رہے ہیں۔تاہم فرید خوراک کے بحران اور خانہ جنگی سے بچنے کے لیے ہجرت کرنے والے غیر یہودی ایتھوپیائی پناہ گزینوں کے ساتھ سوڈان فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔سوڈان سے نکل کر انھوں نے ریلیف ایجنسیوں کو خط لکھے اور اسرائیل جانے میں مدد مانگی۔ ان میں سے ایک خط موساد کے ہاتھ لگ گیا۔اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم مناخم بیگن کے خیال میں اسرائیل مشکل میں مبتلا یہودیوں کے لیے غیر مشروط پناہ گاہ تھا۔ مناخم بیگن خود بھی نازی یورپ سے ہجرت کر کے آئے تھے اور بیت اسرائیل بھی اسی زمرے میں آتی تھی۔ انھوں نے فوراً موساد سے کہا کہ وہ آپریشن کریں۔
موساد نے اپنے ایک اہلکار کو حکم دیا کہ وہ فرید کو تلاش کریں اور ایتھوپیائی یہودیوں کو سوڈان سے سمگل کر کے اسرائیل لانے کا انتظام کریں۔اسرائیلی افسر بتاتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ سوکھی گھاس کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے بعد فرید انھیں خرطوم میں ملے اور دونوں نے ایک ٹیم بنا لی۔فرید نے ایتھوپیا میں اپنی برادری کو پیغام بھیجنا شروع کر دیے کہ اسرائیل جانے کا راستہ سوڈان کے ذریعے ہے اور انھیں بھی وہاں آ جانا چاہیے۔اس پیشکش میں 2700 سال پرانا خواب پورا کرنے کا لالچ بھی پوشیدہ تھا۔ سنہ 1985 کے آخر تک تقریباً 14000 بیت اسرائیل والوں نے یہ خطرہ مول لیا اور 800 کلومیٹر کا خطرناک سفر پیدل طے کیا۔اس سفر کے دوران تقریباً 1500 یہودی پناہ گزین ہلاک، لاپتہ یا اغوا ہوگئے۔ چونکہ سوڈان جیسے مسلم اکثریتی ملک میں اور کوئی یہودی نہیں رہتے تھے اسی لیے انھوں نے اپنا مذہب چھپا کر رکھا اور مقامی آبادی میں گھل مل گئے تاکہ سوڈانی خفیہ پولیس انھیں پکڑ نہ پائے۔اس کے باوجود انھوں نے اپنی یہودی روایات اور عبادات نہیں چھوڑیں جیسے کہ یومِ سبت سے پہلے آگ کے شعلے بند کر دینا یا کھانے میں صرف وہ گوشت کھانا جو یہودی قوانین کے مطابق ذبح کیا گیا ہو۔ چھوٹے پیمانے پر خفیہ آپریشن کا فوراً ہی آغاز ہو گیا اور فرید اور اسرائیلی آفیسر کی نگرانی میں جعلی کاغذات پر خرطوم ہوائی اڈے سے لوگوں کو بھیجنے کا کام شروع کر دیا گیا۔ مگر جیسے جیسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا، یہ بات واضح ہوگئی کہ اس کا کوئی اور حل نکالنا پڑے گا۔ سوڈان ایتھوپیا کی طرح نہیں تھا جہاں خانہ جنگی اور پہاڑوں کی وجہ سے یہودیوں کو زمینی راستے سے ساحل تک نہیں پہنچایا جا سکتا تھا۔ سوڈان سے اگر وہ بحیرہِ احمر کو استعمال کرتے اور وہاں کشتی پہنچ جاتی تو وہ بڑے پیمانے پر کام کر سکتے تھے۔
سوڈان کے ساحل پر ممکنہ لینڈنگ کے علاقوں کی تلاش کے دوران ہی موساد کے ایجنٹوں کو عروس کا غیر آباد ریزورٹ ملا۔ یہ مقام پورٹ سوڈان سے تقریباً 70 کلومیٹر شمال میں واقع تھا۔اس جگہ کے منتظم نے انھیں بتایا کہ ایک اطالوی کمپنی یہاں ریزورٹ چلاتی تھی مگر کچھ سالوں سے یہ بند ہے۔ اس نے دروازے کھول کر انھیں گھمایا پھرایا اور ساری جگہ دکھائی۔ اگر یہ گاؤں ان کو مل جاتا تو وہ یہاں کے بادشاہ بن جائیں گے پھر وہ کچھ بھی کر سکتے تھے۔
سنہ 1974 میں مکمل ہونے والی اطالوی تاجروں کی بنائی ہوئی یہ ریزورٹ لال چھتوں والے 15 بنگلوں کا کلسٹر تھا، جہاں ایک بڑا باورچی خانہ، ایک بڑا ڈائنگ روم تھا جس کا دروازہ ساحلِ سمندر پر کھلتا تھا خود کو ایک جعلی سوئس سیاحتی کمپنی کا ڈائریکٹرظاہر کر کے اسرائیلی ایجنٹ نے سوڈانی حکام کو اس بات کا قائل کر لیا کہ وہ اس ریزورٹ کو دوبارہ آباد کر سکتا ہے اور سیاحوں کو واپس لا سکتا ہے۔ انھوں نے یہ ریزورٹ اسے ڈھائی لاکھ ڈالر پر کرائے پر دے دیا۔انھوں نے 15 مقامی سٹاف جیسے ویٹر، ڈرائیور وغیرہ کو نوکری پر بھی رکھا۔ ایک باورچی کو مقامی ہوٹل سے توڑا گیا۔ موساد اہلکار کا کہنا ہے کہ ہم نے انھیں دوگنی تنخواہ دی۔ سٹاف میں سے کسی کو ریزورٹ کا اصل مقصد معلوم نہیں تھا یا کہ ان کے گورے باس موساد کے ایجنٹ ہیں۔خواتین کو روزمرہ آپریشنز کا انچارج بنایا گیا کیونکہ خیال کیا جا رہا تھا کہ اس سے شکوک میں کمی آئے گی۔دن بھر مہمانوں کی دیکھ بھال کرنے کے بعد رات کے اندھیرے میں ایک ٹیم 900 کلومیٹر دور غیداریف کے مقام پر اکٹھی ہوتی۔
قبیلے بیت اسرائیل کی ایک ٹیم کو ایتھوپیائی یہودیوں کو کیمپس سے بھگا کر غیداریف لانے کی ذمہ داری دی گئی۔پہلے ایتھوپیائی یہودیوں کو 24 گھنٹے کا نوٹس دیا جاتا تھا کہ انھیں لے کر جایا جا رہا ہے۔ انھیں یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ کہاں لے جا رہے ہیں، بس یہ سمجھتے تھے کہ یروشلم لے جائیں گے۔جب وہ ریزورٹ کے قریب پہنچتے تو اسرائیلی بحریہ کے خصوصی دستے چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر آتے اور پناہ گزینوں کو ایک اسرائیلی بحری جہاز پر لے جاتے جو انھیں اسرائیل لے جاتی۔یہ آپریشن مارچ 1982 میں روک دیا گیا کیونکہ ٹرانسفر کے دوران سوڈانی فوجیوں نے انھیں دیکھ لیا۔ ان کا خیال شاید یہی ہوگا کہ سمگلرز ہیں اسی لیے فوجیوں نے فائرنگ شروع کر دیا تاہم پناہ گزین بچ کر بھاگ گئے۔اس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ بحری راستے سے لے جانا بہت خطرناک ہے اور نیا پلان بنایا گیا۔ ایجنٹوں سے کہا گیا کہ سی 130 ہرکیولیز طیاروں کے لینڈنگ کے لیے موضوع مقام ڈھونڈا جائے۔ پناہ گزینوں کو خفیہ طور پر ملک سے ایئر لفت کیا جانا تھا۔ریزورٹ کے مہمانوں میں مصری آرمی کا ایک یونٹ، اور برطانوی سپیشل فورسز کا یونٹ بھی آیا۔ اس کے علاوہ خارطوم میں تعینات غیر ملکی سفارتکار اور سوڈانی حکام بھی آتے اور انھیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ان کے میزبان اصل میں کون ہیں۔عروس اتنے پیسے بنا لیتا تھا کہ اپنا خرچہ چلا لیتا اور موساد اس بات پر بہت خوش تھی کہ چلو جیب سے خرچہ کر کے ریزورٹ تو نہیں چلانا پڑ رہا۔ادھر دوسری جانب ایئر لفٹ جاری تھا۔ اسرائیلی فضائیہ کے ماہرین نے دوسری جنگِ عظیم کا ایک برطانوی ایئر فیلڈ ڈھونڈ لیا اور مئی 1982 میں پہلی پرواز وہاں رات کے اندھیرے میں اتری جس پر اسرائیلی کمانڈو سوار تھے۔ بہت سے ایتھوپیائی یہودیوں نے تو اس سے پہلے بڑے ٹرک نہیں دیکھے تھے تو ان کو ہری لائٹ لہراتے کمانڈو تو خلائی مخلوق معلوم ہوتے تھے۔ وہ جہاز کے اندر جانے سے ڈرتے تھے۔1984 کے آخر میں سوڈان میں قحط آ گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ پناہ گزینوں کو نکالنے کے عمل میں تیزی لائی جائے۔ امریکی مداخلت اور سوڈانی صدر جعفر نمیری کو ایک بھاری رقم دینے کے بعد اسرائیل نے سوڈان کو اس بات پر قائل کر لیا کہ یہودیوں کو یورپ جانے دیا جائے۔ مگر انھوں نے اس بات کی اجازت صرف اس صورت میں دی کہ انھیں خفیہ طورپر کیا جائے ناکہ عرب ممالک ان پر تنقید نہ کریں۔
ایتھوپیائی یہودیوں کو یہودی بیلجیئن ایئر لائن سے ادھار پر لیے گئے بوئنگ طیارے پر پھر 28 خفیہ ایئر لفٹ آپریشنز کے ذریعے برسلز لے جایا گیا اور پھر وہاں سے اسرائیل۔ اس آپریشن کا نام آپریشن موزم (موسیٰ) رکھا گیا۔آئندہ چھ برسوں کے درمیان اور آپریشن ہوئے جن کے ذریعے کل 18000 بیت اسرائیل یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا گیا۔جہاں تک بات ہے فرید اکلم کی تو سنہ 1980 میں ان کی شناخت منظرِ عام پر آ گئی تھی اور انھیں اسرائیل سمگل کرنا پڑا تھا۔ جب سنہ 2009 میں ان کا انتقال ہوا تو موساد کے سابق سربراہاں کے علاوہ ہزاروں ایتھوپیائی یہودیوں نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ انھیں آج بھی ایک قومی ہیرو مانا جاتا ہے۔
========================