سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کے زیراہتمام سندھ انفارمیشن کمیشن کے تعاون سے معلومات تک رسائی کے قوانین پر عمل درآمد اور آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے آر ٹی آئی کانفرنس کا انعقاد کیا

کراچی (رپورٹر) سینٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کے زیراہتمام سندھ انفارمیشن کمیشن کے تعاون سے معلومات تک رسائی کے قوانین پر عمل درآمد اور آئندہ کی حکمت عملی کے حوالے سے آر ٹی آئی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کانفرنس میں وزیراعلی کے مشیر اورسینیٹر سید وقار مہدی، ایم کیو ایم پاکستان کے رکن صوبائی اسمبلی عباس جعفری، سی پی دی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی، خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کی چیف انفارمیشن کمشنر فرح حامد خان، پنجاب انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر شاہ، سندھ انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر نصرت حسین، انفارمیشن، پی پی ایف کے جنرل سیکرٹری اویس اسلم علی، سابق جج جسسٹس رخسانہ احمدسمیت صحافیوں، سماجی کارکنوں اور شہریوں نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلی کے مشیر سینیٹر سید وقار مہدی نے کہا کہ سندھ حکومت شہریوں کو معلومات تک رسائی کا حق فراہم کرنے کےلئے ہرممکن اقدامات کرنے کو تیار ہے، انہوں نے کہا کہ وہ متعلقہ محکموں سے ملکر سندھ کے معلومات تک رسائی کے قانون میں موجود خامیوں کو دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے معلومات تک رسائی کے قانون کے اہمیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پہلے صرف اراکین اسمبلی کو سرکاری محکموں سے سوال پوچھنے کا حق حاصل تھا اب اس قانون کے بعد کوئی بھی شہری کسی بھی سرکاری ادارے سے معلومات حاصل کرکے اس کی کارکردگی کا جائزہ لے سکتا ہے۔ سید وقار مہدی کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس قانون کو سلیبس کا حصہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
سی پی ڈی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مختار احمد علی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ماضی قریب میں پاکستان نے ممعلومات تک رسائی کے حوالے سے کافی پیش رفت کی ہے، آئین میں آرٹیکل 19 اے کا شامل کرنے سے شہریوں کو معلومات کی فراہمی کا حق دیا گیا جو ایک بڑی پیش رفت تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ معلومات تک رسائی کے قوانین میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، وفاق اور سندھ میں معلومات تک رسائی کے قوانین کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مختار علی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے سابق چیف انفارمیشن کمشنر اور سول سوسائٹی کی جانب سے کمیشن کے ممبران کی مدت ملازمت پوری ہونے سے قبل ہی وفاقی وزارت اطلاعات کو لکھا تھا کہ نئے کمشنرز کی تعینات کا عمل شروع کیا جائے اس کے باوجود کمشنرز کی تعیناتی کا عمل بروقت مکمل نہیں کیا جاسکا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن نے گزشتہ دو ماہ سے غیر فعال ہے۔ موجودہ حکومت نے کمیٹی بنائی تھی کہ توشہ خانہ کے متعلق رولز بنائے جائے، میڈیا اطلاعات کے مطابق توشہ خانہ کی معلومات کے حوالے سے رولز بنانے کی بجائے معلومات تک رسائی کے قانون میں ہی ترمیم پر غور کررہی ہے۔
پنجاب انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر شاہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ جب انہوں نے بطور چیف انفارمیشن کمشنر ذمہ داری سنبھالی تو بیوروکریسی کی جانب سے شدید مذاحمت کا سامنا رہا، عملے کی بھرتی کے معاملے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں تاہم اس کے باوجود انہوں نے شہریوں کو معلومات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کیا۔ محبوب قادر شاہ کا مزید کہنا تھا کہ پنجاب انفارمیشن کمیشن نے دس ہزار سے زائد فیصلے جاری کئے اور کمیشن نے ان فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے اقدامات بھی کئے ہیں۔
خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن کی چیف انفارمیشن کمشنر فرح حامد خان نے کانفرنس میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معلومات تک رسائی کے قوانین میں سیاسی حکومت کی سنجیدگی انتہائی ضروری ہے۔ 2013 میں جب خیبرپختونخوا میں معلومات تک رسائی کا قانون بنا سرکاری اداروں میں اس قانون کی انتہائی دہشت تھی اور شہریوں کی درخواستوں بہت سنجیدگی سے لیا جاتا تھا، لیکن بدقسمتی سے آہستہ آہستہ حکومت کی سنجیدگی ختم ہوتی گئی ۔2019 کے بعد سے کبھی خیبرپختونخوا کا کمیشن مکمل فعال نہیں ہوسکا، کمشنر کی اسامیوں خالی رہی، جولائی 2022 سے صرف خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن میں صرف چیف انفارمیشن کمیشن تعینات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انفارمیشن کمیشنر کی تعیناتی کے لئے حکومت سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک کی معلومات کے مطابق انفارمیشن کمشنر کی تعیناتی کے لئے سمری تیار کرلی گئی ہے۔ انفارمیشن کمشنر کی اسامیاں خالی ہونے کے باعث خیبرپختونخوا انفارمیشن کمیشن میں سترہ سو سے زائد انفارمیشن زیرالتوا ہیں، 2013 کے بعد سے اب تک 44 ہزار شہریوں نے معلومات تک رسائی کے قانون کو استعمال کیا جن میں 13 ہزار شہریوں کو سرکاری اداروں کی جانب سے معلومات فراہم کی، جبکہ 10 ہزار سے زائد شہریوں نے سرکاری اداروں کی جانب سے معلومات نہ ملنے پر کمیشن کو شکایت درج کرائی، کمیشن ان شکایات پر 8 ہزار سے زائد آرڈرز جاری کئے۔ سندھ انفارمیشن کمیشن کے چیف انفارمیشن کمشنر نصرت حسین نے اس موقع پر بتایا کہ سرکاری ادارے یہ نہیں چاہتے کہ انفارمیشن کمیشن مضبوط اور موثر ہوں لیکن اس کے برعکس ہمیں سرکاری اداروں کی جانب سے بہت اچھا رسپانس آیا ہے، اب تک سندھ انفارمیشن کمیشن کو 150 سے زائد شکایات موصول ہوئیں ہیں جن میں سے 25 شکایات کو نمٹا دیا گیا ہے باقی شکایات پر کاروائی جاری ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ محدود وسائل کے باوجود سندھ انفارمیشن کمیشن کی ویب سائٹ کا اجرا کر دیا ہے جہاں معلومات تک رسائی کا قانون مختلف زبانوں میں موجود ہے۔ ویب سائٹ کو مزید بہتر بنایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ 200 سے زائد اداروں کو پبلک انفارمیشن آفیسرز کی تعیناتی کے لئے خطوط لکھے ہیں لیکن اس پر سرکاری اداروں کی جانب سے کوئی موثر جواب موصول نہیں ہوا۔ شہریوں میں معلومات تک رسائی کے قانون کے حوالے سے آگاہی کا سلسلہ بھی جاری ہے، سندھ انفارمیشن کمیشن نے مختلف تعلیمی اداروں میں آگاہی سیمنارز کا بھی انعقاد کیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکن صوبائی اسمبلی عباس جعفری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھ انفارمیشن کمیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ توشہ خانہ ایک چھوٹا سا کیس ہے اگر شہری معلومات تک رسائی کے قوانین کو موثر طریقے سے استعمال کریں تو بہت بڑے راز افشاں ہونگے۔ سندھ انفارمیشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ عوام کے مفاد میں معلومات تک رسائی پر موثر اقدامات کرے۔ بلوچستان سے رکن صوبائی اسمبلی قادر نائل نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ باقی صوبوں میں معلومات تک رسائی کے قوانین پر عمل درآمد کی بات ہورہی ہے لیکن بلوچستان میں اب تک کمیشن بھی نہیں بن سکا۔ 730 دن سے زائد کا وقت گزرنے کے باوجود تا حال معلومات تک رسائی کے قانون کے حوالے سے رولز نہیں بنائے جاسکے، تاہم ہائی کورٹ کے حکم پر اس حوالے سے پیش رفت ہورہی ہے۔ سی پی ڈی آئی کے پروجیکٹ کواڈینیٹر سید رضا علی نے کانفرنس کی افادیت اور اہمیت کے حوالے سے شرکا کو بتایا کہ ملک میں معلومات تک رسائی کے قوانین تو موجود لیکن اس کے باوجود شہریوں کو سرکاری اداروں سے معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، کانفرنس کا مقصد ان مشکلات کا جائزہ لینا اور ان کا حل تلاش کرنا ہے۔ سینیئر صحافی، سید علی شاہ نے اس موقع پر بتایا کہ ملک کے باقی معاملات کی طرح بلوچستان کے عوام کو معلومات تک رسائی کے حق کی فراہمی کے معاملے پر بھی پیچھے رکھا جارہا ہے، سول سوسائٹی اور میڈیا کی مسلسل جدوجہد کے بعد معلومات تک رسائی کا قانون کو تو بنا دیا گیا لیکن اس پر عمل درآمد میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ انفارمیشن کمیشنر کی تقرری کا اختیار سیاسی حکومت کے پاس ہوتا ہے جس سے اس عہدے پر تقرری کے بعد انفارمیشن کمشنر مفاہمت کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہہیں۔ پاکستان پریس فاونڈیشن کے جنرل سیکرٹری اویس اسلم علی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معلومات تک رسائی کے قوانین اہمیت کے برعکس ان قوانین کو استعمال کرنے والے شہریوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ اس حوالے سے شہریوں اور بالخصوص صحافیوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ ان کی صلاحتیں بڑھانے کی بھی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کو معلومات تک رسائی کے قوانین کے تحت درخواست دینے اپنا معمول بنانا چاہئے، جو صحافی باقاعدگی سے ان قوانین کو استعمال کرتے ہیں انہیں سرکاری محکموں سے معلومات بھی ملتی ہیں۔
==============================