پاکستان میں پینے کے لیے صاف پانی نایاب


تحریر ۔۔شہزاد بھٹہ
============
پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں صاف اور پینے کے پانی کی شدید کمی کا شکار ھوچکے ھیں جبکہ حکومتی ادارے اپنی عوام کو صاف اور شفاف پینے کے لیے پانی فراھم کرنے میں بری طرح سے فیل ھوچکے ھیں ۔
صاف پانی کا حصول عوام کا بنیادی حق ھے مگر لوگ اس سے بھی محروم ھیں وہ ادارے جن کی ذمہ داری ھے کہ وہ اپنے عوام کو ان کے گھروں تک صاف اور پینے کا پانی پہنچائے وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر فیل ھو چکے ھیں


ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگ ہیضہ،دست اورکئی دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی لگ بھگ اسی فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔شہروں میں تقربیا پندرہ فیصد لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر ھے جبکہ دیہات میں صورت حال کچھ بہتر ھے
شہروں میں پانی کے پائپ پرانے اور جگہ جگہ سے پھٹ چکے ھیں بلکہ گندے پانی کے سیوریج اور واسا کے پائپ ساتھ ساتھ چلتے ھیں اور جب صاف پانی کے پائپ پھٹ جاتا ھے تو ماھرین واسا اس پائپ کو ٹائر کے ربڑز سے باندھ دیتے ھیں مگر اس سے پانی کی لیکیج ھوتی رہتی ھے جس سے صاف اور گندہ پانی اکھٹے گھروں کو سپلائی ھوتا ھے جو عام لوگ پینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ھیں
اس گندے اور زہریلے پانی کے استعمال سے لوگوں میں بے شمار بیماریاں خاص طور پر ہیپاٹائٹس خطرناک حد بڑھ چکا ھے
ایک رپورٹ جو وزیر اعظم کو پیش کی گئی اس کے مطابق 5 فیصد پاکستانی ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ھیں آلودہ پانی بہت سی بیماریوں کی جڑ ہے اس کی وجہ سے ہیپیٹائٹس، ٹائیفائیڈ، ڈائریا، گیسٹرو سمیت پیٹ اور گلے کی بہت سی مختلف بیماریاں تشوشناک حدتک عام ہورہی ہیں۔
حکومتی اداروں نے سپلائی کے سالوں پرانے پائپ تبدیل کرنے کی بجائے مختلف علاقوں میں لاکھوں روپے مالیت کے مہنگے فلڑ پلانٹ لگائے ھیں جو ابادی کے بہت کم حصے کو صاف پانی مہیا کر رھے ھیں اور ان پر بھی لوگوں کا ہجوم رہتا ھے بالکل اکثر فلٹر پلانٹ خراب ھو چکے ھیں مگر واسا ان کی مرمت نہیں کرتا
لاھور کراچی پشاور راوپنڈی اسلام آباد فصیل اباد جیسے میڑوپولیٹن شہروں میں شہری برتن اٹھائے صاف پانی کے حصول کے لیے بھاگتے نظر اتے ھیں جو ایک فلاحی ریاست کے منہ پر تھپڑ ھے ایسے مناظر اپ کو ھر شہر میں نظر اسکتے ھیں
پاکستان میں اٹیم بن گیا موٹر ویز میڑو بس اوریج ٹرین، بڑے بڑے شاپنگ مال بن گئے بڑی بڑی سڑکیں اور پل و انڈر پاسز بن گئے رھائشی علاقوں میں تجارتی مراکز بن گئے بڑی بڑی سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں قائم ھو گئیں.
مگر افسوس نہایت بنیادی ضرورت صاف اور پینے کا پانی گھروں تک نہ پہنچایا جا سکا اور پاکستان پانی کی شدید کمی سے متاثرہ ممالک میں پہلے نمبروں میں شامل ھو چکا ھے پاکستان میں دریا ختم ھونے سے زیر زمین پانی کی سطح بہت زیادہ نیچے جا چکی ھے لاھور شہر میں 2004 میں زیر زمین میٹھا اور صاف پانی تقربیا چار سو فٹ گہرائی تک میسر ھوتا تھا جو آج تقریباً 1400 سو فٹ گہرا جا چکا ھے بارشیں ویسے ھی کم ھو چکی ھیں اگر برسات کے موسم میں بارشیں ھو بھی جائیں تو اس بارشی پانی کو ذخیرہ کرنے کا کوئی موثر انتظام نہیں بلکہ یہ سیلابی پانی ضائع ھو جاتا ھے یا پھر سمندر کی نظر ھو جاتا ھے
گھروں میں صاف پانی میسر نہ ھونے سے پانی مہیا کرنے والی کمپنیوں کا کاروبار خوب چمک رھا ھے پینے کے لئے پانی امیر لوگ بازاروں سے بآسانی حاصل کرلیتے ہیں امیر زادے چالیس پچاس روپے پانی کی چھوٹی بڑی بوتل تو لے سکتے ھیں اور گھروں میں استعمال کے لئے پانی کی بڑی بوتلیں بھی آجاتی ھیں مگرعوام کی اکثریت کیا کرے ؟ ان کو تو دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ھو چکا ھے اس لئے غریب عوام گندہ اور مضر صحت پانی ھی پینے پر مجبور ھے
ذرائع کے مطابق میاں شہباز کی حکومت کے دوران واسا لاھور نے پانچ ارب روپے کی لاگت سے ایک منصوبہ بنا کر حکومت پنجاب کو دیا جس میں لاھور شہر کی تمام پرانی پانی کی پائپ تبدیل کر کے نئی پائپ بچھانے کا منصوبہ تھا جس میں صاف پانی اور سیوریج کے پائپ کو الگ کرنا بھی شامل تھا مگر حاکم وقت نے اس 5 ارب مالیت کے فضول عوام دوست منصوبے کو منظور کرنے کی بجائے 87 ارب لاگت کے اوریج ٹرین منصوبے کی منظوری دے دی تاکہ دنیا کو نظر آسکے اور میں نام بن جائے اور ووٹ دینے والی عوام گندہ اور زہریلے پانی ھی پیتے رھیں فوری طور پر ضروری ھے کہ تمام پرانی اور خستہ حال پانی کے پائپ تبدیل کئے جائیں اور ان کی جگہ نئے پائپ جو سیوریج کی نالیاں سے الگ ھوں بچھائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شہروں میں پانی کی ٹینکیوں کو باقاعدگی سے صاف کیا جائےاور یہ کام مستقل بنیادوں پر کیا جائے تاکہ عوام کی اکثریت کو صاف پینے کا پانی میسر ھو سکے دریاؤں کے اطراف بند بنائے جائیں تاکہ سیلابی پانی دریاؤں میں رھے جس سے زیر زمین میٹھا پانی کی سطح اوپر آسکتی ھے
حکومت اور اس محکموں سے درخواست ھے کہ منصوبے مستقل بنیادوں پر بنائیں نہ کہ ڈنگ ٹپاو سسٹم کے تحت
=============================