3 دسمبر ۔۔۔۔۔عالمی دن برائے معذوراں ذہنی معذور بچوں کو بوجھ مت سمجھیں


تحریر ۔۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
================

بچے کسی بھی معاشرے اور قوم کی امانت ھوتے ھیں ان کی ٹھوس بنیادوں پر تعلیم و تربیت کرنا والدین کے ساتھ ساتھ معاشرے کی ذمہ داری ھے بلکہ ایک معاشرہ صرف اسی وقت مہذب کہلا سکتا ھے جب اس کے بچے صحت مند اور بہتر فضا میں پرورش پا کر باشعور شہری بن جاتے ہیں ۔لیکن خدا کی قدرت ھے کہ کئی بچے پیدائش کے وقت سے ھی ذہنی طور پر صحت مند نہیں ھوتے ایسے بچوں کو ذہنی معذور کا نام دیا جاتا ھے ان کے ذہنی طور پر معذور/ پسماندہ ھونے کے کئی اسباب ھیں

پیدائش سے پہلے بچے کی پرورش صحیح نہیں ھوتی زچگی کے دوران غلط قسم کی دوائیں کے استعمال یا غلط طریقہ علاج سے بچے پر غلط اثرات مرتب ھوتے ھیں جس سے وہ بچہ ذہنی طور پر معذور ھو جاتا ھے بعض اوقات پیدائش کے بعد کسی بیماری کی وجہ سے بھی بچے کی ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ھوتے ھیں اور وہ ذہنی معذوری کے شکار ھو سکتے ھیں
ناسازگار اور معاشرتی حالات بھی ذہنی معذوری کا سبب بنتے ہیں اگر بچوں کو مناسب غذا میسر نہ آئے یا ناقص غذا ملے تو پھر بھی ایسے بچوں میں ذہنی بیماریاں پیدا ھو سکتی ھیں
ایسے والدین جو منشیات استعمال کرتے ہیں ان کے بچے بھی ذہنی معذور پیدا ھو سکتے ھیں اگر پیدائش کے بچے کے دماغ کو کسی قسم کی چوٹ پہنچنے سے بھی ذہنی معذوری ھو سکتی ھے
دیہی علاقوں میں ایسے بچوں کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ذہنی طور معذور بچوں کو عام طور پر سائیں لوگ کا خطاب دے دیا جاتا ھے اور اللہ کی طرف سے کسی ناکردہ گناہ کی سزا خیال کیا جاتا ھے اور ان بچوں یوں ھی گلی محلوں میں چھوڑ دیا جاتا ھے کئی والدین ذہنی معذور بچوں سے بہت خوف زدہ ھوتے ھیں اور انھیں عام لوگوں سے چھپاتے ہیں بلکہ کئی پڑھے لکھی فیملی کو دیکھا گیا ھے کہ ان کے ھاں کوئی ذہنی معذور بچہ پیدا ھو جائے تو وہ بھی ایسے بچوں کو کسی کے سامنے نہیں لے آتے اگر کوئی ان کو ایسے بچوں کی بھلائی کے لئے کوئی مشورہ دے تو وہ اسے اپنے لئے طعنہ سمجھتے ھیں
حقیقت میں ایسے معصوم بچے زیادہ پیار محبت اور توجہ کے مستحق ھوتے ھیں ذہنی معذور بچوں کی اگر مناسب تربیت کی جائے تو وہ بھی معاشرے کے فعال رکن بن سکتے ہیں اور اپنے والدین کے لئے مدد گار ثابت ھو سکتے ھیں
جوں جوں لوگوں میں شعور آتا جارھا ھے وہ اپنے ذہنی معذور بچوں کو قبول اور ان کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینے لگے ھیں اور معاشرے میں بھی ایسے خصوصی بچوں کے لئے ھمدردی اور پیار بڑھ رھا ھے
دنیا بھر کی پاکستان میں بھی خصوصی بچوں کے حقوق کے لیے قانون سازی ھو چکی ھے اور بشمول ذہنی معذور تمام اقسام کے خصوصی بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے مساوی حقوق میسر ھیں حکومت پاکستان نے 1973 کے اہین میں خصوصی بچوں کو مکمل حقوق دئیے ھیں اور وہ بھی عام بچوں کی طرح تعلیم حاصل کرنے کا حق رکھتے ہیں اقوام متحدہ کی ہدایت پر پاکستان میں بھی 1981 میں معذور بچوں کا عالمی سال منایا گیا جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے 24 دسمبر 1981 کو آرڈیننس نمبر 11/1981 جاری کیا اس آرڈنینس کو جاری کرنے کا بنیادی مقصد معذور افراد کو روزگار مہیا کرنا اور ان کی فلاح وبہبود و بحالی تھا۔ پاکستان میں معذور لوگوں کی بحالی فلاح وبہبود ملازمت اور ان کی ذات سے متعلق مختلف معاملات کو حل کرنے کے اس آرڈنینس کا اجرا ایک انقلابی اور قابل تحسین قدم تھا
معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کو بہتر اور موثر انداز سے سرانجام دینے کے لیے پاکستان میں پہلی بار نیشنل اسپشل ایجوکیشن پالیسی کا بھی اجرا کیا گیا اور فیڈرل اور پنجاب لیول پر خصوصی بچوں کے ادارے قائم کئے گئے جن میں ذہنی معذور بچوں کے ادارے بھی شامل ھیں ڈائریکٹوریٹ آف اسپشل ایجوکیشن پنجاب نے ضلع لیول پر 12 ذہنی معذور بچوں کے ادارے بنائے جہاں پر اعلی تعلیم یافتہ ماہرین خصوصی تعلیم جدید علوم کی مدد سے ذہنی معذور بچوں کی تعلیم و تربیت بڑے احسن انداز سے سرانجام دیئے رھے ھیں جدید طریقہ تدریس کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کیا جاتا ھے شاداب انسٹیٹیوٹ کے علاؤہ حکومت پنجاب نے تحصیل اور ٹاؤن لیول پر بھی اسپشل ایجوکیشن سنٹر قائم کئے ھیں جہاں دیگر خصوصی بچوں کے ساتھ ذہنی معذور بچوں کے الگ سے شعبہ موجود ھیں۔
آئین میں 18 ویں ترمیم سے پہلے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ جنرل آف اسپشل ایجوکیشن اسلام آباد نے بھی ذہنی پسماندہ بچوں کے لئے پورے پاکستان میں تقریباً 12 مراکز قائم کیے تھے جہاں پر ذہنی معذور بچوں کو تعلیم و تربیت اور فنی تربیت دی جاتی تھی حکومت کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ بھی ذہنی معذور بچوں کی تعلیم و تربیت اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی زمہ داریاں سرانجام دے رھا ھے حکومت پنجاب محکمہ اسپشل ایجوکیشن کے زیر کنٹرول کام کرنے والے شاداب انسٹیٹیوٹ میں ایسے بچوں کو فنی تربیت بھی دی جاتی ھے
مخیر حضرات نے مختلف شہروں میں ایسے ادارے قائم کر رکھے ھیں جہاں پر جدید سہولیات سے ایسے بچوں کی بحالی کا کام جارھی ھے رائز سن انسٹیٹیوٹ،امین مکتب ،نیشنل اسپشل ایجوکیشن انسٹیٹیوٹ وغیرہ میں ذہنی معذور بچوں اور افراد کو مختلف ہنرز سکھائے جارھے ھیں
ذہنی معذور بچوں کی تعلیم و تربیت بڑا کھٹن صبر آزما اور محنت طلب کام ھے یہ فریضہ وھی شخص کر سکتا ھے جس کو اللہ پسند کر لیتا ھے جس کے دل میں ہمدردی اور رحم کا جذبہ اور خوف خدا موجود ھو ذہنی معذور بچوں کو سنبھالنا بہت مشکل ھوتا ھے بعض اوقات بچے کے منہ سے رال ٹپک رھی ھوتی ھے اور کبھی وہ رونے اور چیخنے لگتا ھے اور کلاس روم میں ان کو کنڑول کرنا نہایت مشکل ھو جاتا ھے ایسے میں اساتذہ کرام خاص طور پر خواتین اساتذہ اپنے مادرانہ جذبہ ہمدردی کے ذریعے ان بچوں پر کنٹرول کرتی ھیں اور جب وہ نارمل ھوتا ھے تو پھر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ھوئے ذہنی معذور بچوں سے مختلف سرگرمیاں کرواتی ھیں تدریسی معاونات کے ذریعے ان کو مصروف رکھنے کے کوشش کرتی ھیں
کلاس روم میں ذہنی معذور بچوں کو روزمرہ استعمال کی اشیاء کی تربیت دی جاتی ھے باتھ روم جانے کی ٹریننگ ،سلیقے سے اٹھنا بیٹھنا دوستوں اور دیگر اجنبی افراد کے ساتھ ملنا،بڑوں کا ادب ،اسلام و دعا اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزیں سکھائی جاتی ہیں جس سے وہ سوسائٹی اور معاشرے میں تھوڑا بہت خود کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں اور وہ اپنی معذوری کی وجہ سے کسی دوسرے کے لئے نقصان دہ نہیں رہتا۔۔بلکہ مناسب تربیت کے بعد ایسے بچے معاشرے کے لیے فائدے مند ثابت ھو رھے ھیں خصوصی بچوں کو کھیلوں کی تربیت لازمی دینی چاھیے سکول میں زیادہ سے زیادہ ھم نصابی سرگرمیوں کو انعقاد کرنے اشد ضرورت ھے
ھم سب کی یہ اسلامی اور اخلاقی زمہ داری ھے کہ ھم مجموعی طور پر خصوصی بچوں کی بحالی تعلیم وترتیب کے لئے اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کرنے کی کوشش کریں جہاں کہیں ایسے بچے دیکھیں ان کو فورا نزدیکی اسپشل ایجوکیشن کے مراکز میں ریفر کریں اور ان کے والدین کو گائیڈ کریں کہ وہ اپنے ذہنی اور دیگر معذور بچوں کو گھروں میں چھپ کر نہ رکھیں بلکہ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سہولیات سے فایدہ اٹھائیں اور اپنے معذور بچوں کو معاشرے کا فعال رکن بنانے میں اپنی اسلامی و اخلاقی زمہ داریاں پوری کریں۔اگر ذہنی معذور بچوں کی بحالی میں کھیلوں کے موثر کردار کا ذکر کریں تو اس میں اسپشل اولمپکس پاکستان کی خدمات بہت زیادہ اور لازوال ھیں اسپشل اولمپکس پاکستان نے ذہنی معذور افراد کو کھیلوں میں ٹریننگ دے کر عالمی کھیلوں کے مختلف ایونٹس میں شاندار کارکردگی دکھاتے ھوئے سینکڑوں میڈلز جیتے ھیں اسپشل اولمپکس پاکستان کے چیرمین انیس الرحمن نے پاکستان کے ذہنی معذور افراد کو دنیا بھر میں روشناس کروانے میں بڑا اھم خدمات سرانجام دی ھیں
عالمی دن برائے معذوراں کے مواقع پر محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب کے ذمہ داران سے درخواست ھے کہ وہ سکول ایجوکیشن کے ساتھ ایک ایم او یو سائن کریں کہ وہ ھر بڑے سکول میں جگہ فراھم کریں جہاں پر محکمہ اسپشل ایجوکیشن پنجاب الگ سے معذور بچوں کی تعلیم و تربیت کے ایک یونٹ قائم کریں اور اسپشل ایجوکیشن کے تربیت یافتہ اساتذہ و دیگر سٹاف معذور بچوں کی تعلیم و تربیت اور بحالی کے لیے کام کر سکیں تاکہ وہ معذور بچوں جو ابھی تک اسپشل ایجوکیشن کے اداروں میں داخل نہیں ھو سکے ان کو اپنے گھروں کے پاس ھی تعلیمی سہولیات فراھم کی جاسکے کیونکہ ابھی تک اسپشل ایجوکیشن کے ادارے ضلع تحصیل لیول پر ھی کام کر رھے ھیں جس سے معذور بچوں کی ابادی کا بڑا حصہ تعلیم و تربیت حاصل کرنے سے قاصر ھے۔
حکومت پنجاب سے ایک اور درخواست ھے کہ عام افراد میں معذوری کے بارے آگاھی پیدا کرنے کے لئے میڑک ایف اے بی اے ایم اے و دیگر پروگرام میں اسپشل ایجوکیشن کو بطور ایک اختیاری مضمون شامل کرے تاکہ تمام شعبہ جات کے لوگ خصوصی بچوں کی ضروریات اور معذوری کے بارے جان سکیں اور سوسائٹی کا ھر بندہ اپنی زمہ داری محسوس کرتے ہوئے معذور بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت اور بحالی میں اپنا حصہ ڈال سکے

============================