لاہور ( مدثر قدیر )پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج ذیابیطس یعنی شوگر کی بیماری کے خلاف آگاہی کا عالمی دن منایاجارہا ہے اس دن کو منانے کا اہتمام ،1991میں ذیابیطس کی عالمی فیڈریشن کی درخواست پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے کیا اور تب سے اب تک یہ دن ہر سال کسی تھیم کے تحت منایا جاتا ہے اس سال کا تھیم ذیابیطس کی دیکھ بھال تک رسائی ہے۔دنیا بھر میں 46کروڑ سے زائد لوگ ذیابطیس کے مرض کا شکار ہیں اور لاکھوں اس بیماری میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اس بیماری کے شکار افراد کو اپنی حالت سنبھالنے اور پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے مسلسل دیکھ بھال اور مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 1 کروڑ پانچ لاکھ سے زیادہ ہے اور سالانہ بنیاد میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد میں 2 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہورہا ہے۔عالمی یوم ذیابیطس کی مناسبت سے اومیگا نیوز نے اس بیماری کے خلاف عوامی آگاہی پر مبنی ٹیلی فورم کااہتمام کیا جس میں گفتگو کرتے ہوئے طبی ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس تاحیات ساتھ رہنے والے ایسی طبی حالت ہے جو ہر سال لاکھوں افراد کو ہلاک کرتی ہے اور یہ کسی کو بھی لاحق ہو سکتی ہے۔یہ بیماری اس وقت پیدا ہوتی ہے جب جسم اپنے اندر موجود شکر (گلوکوز) کو حل کر کے خون میں شامل نہیں کر پاتا اس کی پیچیدگی کی وجہ سے دل کے دورے، فالج، نابینا پن، گردے ناکارہ ہونے اور پاؤں اور ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہر چوتھا پاکستانی نہ صرف ذیابیطس کا شکار ہےبلکہ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور 2005 کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں 50 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔اس موقع پر بات کرتے ہوئے وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر احسن وحید راٹھور کا کہنا تھا کہ آپ شوگر کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں مگر اس کے لیے صحت مند اقدامات کی ضرورت کرنا ہوگی ،کھانے پینے میں اعتدال کی طرف جائیں اور روزانہ چہل قدمی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور اس چیز سے پرہیز کریں جس میں نشاستہ شامل ہو۔وائس چانسلر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر خالد مسعود گوندل کا عالمی یوم ذیابیطس کے حوالے سے کہنا تھاکہ اس دن کو منانے کا اولین مقصد ذیابیطس کے بارے میں آگاہی ہے۔ شوگر کی بنیادی وجوہات میں موٹاپا، غیر صحت مند طرز زندگی، ذیابیطس کی خاندانی تاریخ، غیر متوازن خوراک، بلڈ پریشر، خون میں چربی کی مقدار کا عدم توازن شامل ہیںجبکہ اس سے بچنے کے لیے مریضوں کو اپنی خوراک کو تبدیل کرنا بھی ضروری ہے اور ہم اس ضمن میں سر گنگارام ہسپتال میں ایک علیحدہ اینڈو کرائنولوجی ڈیپارٹمنٹ بنانے جارہے ہیں کیونکہ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے۔وائس چانسلر فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ظفر علی چوہدری نے اس موقع پر اپنی گفتگو میں بتایا کہ شوگر کا مرض بڑا موذی ہے اور لوگوں کو اکثر معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی شوگر بڑھ رہی ہے اور جب مرض شدت اختیار کرجاتا ہے تو اس کی علامات آنی شروع ہوجاتی ہیں جیسے جسم لاغر اور انسان انفیکشنز کا شکار ہونا شروع ہوجاتا ہے تب مریض کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے شوگر ہوچکی ہےاوراس کے لیے ضروری ہے کہ شوگر کا ٹیسٹ سال میں دوبار کروالیا جائے اور ایسا خاندان جس میں یہ بیماری موجود ہے وہاں پر تو بچپن ہی سے ٹیسٹ کروانے چاہیے تاکہ بیماری کی کیفیت کا پتہ چل سکےاور علاج شروع ہوجائے۔اس موقع پر پرنسپل پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و امیر الدین میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے پاکستان میں ذیابیطس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو خطرے کی گھنٹی قرار دیا ان کا کہنا تھا ایسی خواتین جنہیں ذیابیطس کا مرض نہیں ہوتا لیکن دوران حمل ان کی شوگر ہائی رہتی ہے اس کی بنیادی وجہ ذہنی دباؤ اور جسمانی تبدیلیا ں ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسی خواتین کو گائناکالوجسٹ سے اپنا طبی معائنہ با قاعدگی سے کروانا چاہیے تاکہ شوگر کی زیادتی اور ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کیاجا سکے جو زچگی کے دوران ماں و بچے کی زندگی کے لئے خطرات پیدا کرتے ہیں جبکہ مریض کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ادویات اور انسولین لگانے میں کسی قسم کی ہجکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔پرنسپل سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پروفیسر محمد فاروق افضل کا موضوع کی مناسبت سے کہنا تھا کہ ایسا مریض جس کی شوگر کنٹرول میں نہ آرہی ہو اور اس کاوزن بھی بڑھتا ہی جارہا ہو تو اس مریض کے لیے بیریاٹک سرجری کرنا ہی بہتر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے نہ صرف اس کا وزن کنٹرول میں آئے گا بلکہ اس کی شوگر بھی خاص حد سے اوپر نہیں جائے گی اور مریض شوگر کی مزید پیچیدگیوں میں جانے سے بچ جائے گا۔پرنسپل کالج آف آفتھمالوجی پروفیسر ڈاکٹر ذاہد کمال صدیقی نے اپنی گفگتو میں شوگر کوانسان کی بینائی متاثر کرنے کاذریعہ قرار دے دیا ان کا کہنا تھا کہ شوگر کی زیادتی کی وجہ سے انسان کی بینائی بھی ختم ہوسکتی ہے کیونکہ کہ یہ براہ راست آنکھ کے پردے کو متاثر کرتی ہے اور اس کی وجہ سے آنکھ میں موتیا بھی اتر آتا ہےان کا کہنا تھا کہ جب مریض کے خون میں گلوکوز کا لیول مناسب حد سے بڑھ جاتا ہے تواس کی آنکھ کے عدسے میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کے باعث آنکھ کا پانی جذب ہونے لگتا ہےاور مریض کو وقتی طور پر دھندلا نظر آتا ہے۔ یہ جسم کی طرف سے ایک الارم ہوتا ہے کہ شوگر کی مقدا رکافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ذیابیطس کے عالمی دن کی مناسبت سے اومیگا نیوز سے بات کرتے ہوئے پروفیسر آف نیورالوجی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر احسن نعمان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو اور دماغی تنزلی کے مسائل کے درمیان تعلق بڑا واضح ہے۔ ذیابیطس کے شکار 60 سال سے زائد عمر کے افراد میں ڈیمنشیا کا امکان 70 فیصد زیادہ ہوتا ہےکیونکہ ذیابیطس سے دماغ کو جانے والی خون کی شریانوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے جس سے خلیات کو خون اور دیگر غذائیت کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ پروفیسر آف میڈیسن علامہ اقبال میڈیکل کالج پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود خان نےشوگر کو انسان کی تمام بیماریوں کی جڑ قرار دے دیا ان کا کہنا تھا شوگر لیول کی حد سے ذیادتی اور کمی انسانی جسم پر اثر انداز ہوتی ہے اور ہمارے اعضاء براہ راست اس کی زد میں آتے ہیں جس کی وجہ سے معذوری کا خدشہ بھی رہتا ہےانھوںنے مزید بتایا کہ اس حوالے سے گھر کے افراد کی یہ ذمہ داری ہےکہ وہ ذیابطیس کے مریض سے صرفِ نظر نہ کریں اور نہ ہی مریض کو کسی قسم کی بے احتیاطی کرنے دیں، خاص طور پر ایسے مریضوں کا خاص خیال رکھیں جو زائد عمر اور اپنا خیال خود رکھنے سے قاصر ہیں۔ماہر امراض دل کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ہارون عزیز خان بابر نے اپنی گفتگو میں بتایا کہ ذیابیطس کے شکار افراد میں امراض قلب کا خطرہ دو سے تین گنا زیادہ ہوتا ہےکیونکہ ذیابیطس کے مریضوں کی خون کی شریانیں سکڑ جاتی ہیں جس کے نتیجے میں ہائی کولیسٹرول اور ہائی بلڈ پریشر جیسے عوامل کا خطرہ پیدا ہوتا ہےجبکہ شریانوں میں اکڑن کے نتیجے میں امراض قلب کا امکان بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہےاور اچھا طرز زندگی ذیابیطس اور امراض قلب دونوں کی روک تھام کرسکتا ہے۔سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے پروفیسر آف گیسٹرو انٹالوجی پروفیسر ڈاکٹر محمد آصف گل نے بتایا اگر کسی شخص کے جگر پر چربی چڑھ جائے تو اس کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اگر مریض ذیابیطس کا شکار پہلے ہو تو جگر کے مرض کا امکان بھی ہوتا ہےجو دونوں صورتوں میں نقصان دہ ثابت ہوتا ہےجبکہ ذیابیطس کے شکار 80 فیصد افراد کے جگر پر چربی چڑھنے کی وجہ سے خون میں گلوکوز کا لیول کنٹرول ہونا مشکل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے سوجن اور درد کی شکایت ضرور پیدا ہوتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جگر اپنا کام معمول کے مطابق نہیں کرپاتا۔ پروفیسر آف میڈیسن اینڈ اینڈوکرنالوجسٹ فاطمہ میموریل ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کھانا کھانے کے بعد جسم کاربوہائڈریٹس کو گلوکوز میں تبدیل کر دیتا ہے جس کے بعد پینکریاز یعنی لبلبے میں پیدا ہوانے والا ہارمون، جسے انسولین کہتے ہیںجسم کو ہدایات دیتا ہے کہ وہ توانائی حاصل کرنے کے لیے اس گلوکوز کو جذب کرے۔آپ کو شوگر کا اس وقت سامنا کرنا پڑتا ہے جب جسم میں مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں ہوتی یاں کام نہیں کرتی جس کی وجہ سے گلوکوز ہمارے خون میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور پھر شوگر کا مرض لاحق ہو جاتا ہے جو براہ راست انسانی جسم کو متاثر کرتا ہے ۔ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر صومیہ اقتدار نے عالمی یوم ذیابیطس آگاہی پر اومیگا نیوز کو بتایا کہ پاکستان میں ذیابیطس کا مرض دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور گزشتہ 9 برس میں 30 لاکھ مریضوں کا اضافہ ہوا ہےجو الارمنگ ہےان کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کی دو اقسام ہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں لبلبہ انسولین بنانا بند کر دیتا ہے جس کی وجہ سے شکر خون کے بہاؤ میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے ایسا جینیاتی اثر کی وجہ سے بھی ہوسکتا اور وائرل انفیکشن کی وجہ سے بھی کہ لبلبے میں انسولین بنانے والے خلیے خراب ہو جاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں کا دس فیصد ٹائپ ون کا شکار ہیںجبکہ ٹائپ 2 ذیابیطس میں لبلبہ یا تو ضرورت کے مطابق انسولین نہیں بناتا یا جو بناتا ہے وہ ٹھیک طریقے سے کام نہیں کرتی اورایسا عموماً درمیانی اور بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ تاہم یہ مرض کم عمر کے زیادہ وزن والے افراد، سست طرزِ زندگی اپنانے والے افراد کو بھی لاحق بھی ہو سکتا ہےجبکہ کچھ حاملہ خواتین کو دورانِ زچگی ذیابیطس ہو جاتا ہے جب ان کا جسم ان کے اور بچے کے لیے کافی انسولین نہیں بنا پاتا۔ایسوسی ایٹ پروفیسر آف میڈیسن پوسٹ گریجویٹ انسٹیٹیوٹ ڈاکٹر اسرار الحق طور کا کہنا تھا ٹائپ 2 شوگر کا کئی سالوں تک معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ہائپرگلیسیمیا کی علامتیں آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہیں جو کہ بہت خطرناک ہے اور اس کی علامتیں ظاہر ہونے تک یہ جسم کے بڑے عضو کو نقصان پہنچا چکا ہوتا ہےاس کی وجہ سے گردے اور عصبی امراض میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ بہت اہم ہے کہ زیادہ نقصان ہونے سے پہلے شوگر کی جلد از جلد تشخیص ہو جائے۔ 45 سال کی عمر کے بعد ہر ایک کو اپنا شوگر لیول چیک کروانے کا ایک معمول بنا لینا چاہیے۔خالی پیٹ خون میں ہمیشہ شوگر کا لیول 70 سے 110 کے درمیان ہونا چاہیے۔ اسسٹنٹ پروفیسر آف میڈیسن کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی ڈاکٹر بلال عزیز نے اپنی گفتگو میں شوگر کے مرض کی علامات بارے بتایا کہ بہت زیادہ پیاس لگنا،
معمول سے زیادہ پیشاب آناخصوصاً رات کے وقت،تھکاوٹ محسوس کرنا،وزن کا کم ہونا،دھندلی نظراور زخموں کا نہ بھرناشامل ہیں جبکہ
ٹائپ ون ذیابیطس کی علامات بچپن یا جوانی میں ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ذیابیطس کا زیادہ تر انحصار جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل پر ہوتا ہے لیکن آپ صحت مند غذا اور چست طرزِ زندگی سے اپنے خون میں شکر کو مناسب سطح پر رکھ سکتے ہیں۔
ذیابیطس کے عالمی دن کی مناسبت سے اومیگا نیوز سے بات کرتے ہوئے طبی ماہرین اس بات پر متفق نظر آئے کہ اس بیماری کے خلاف صحت مند خوراک کا رجحان اپنانا پہلی شرط ہے اورپروسیس کیے گئے میٹھے کھانوں اور مشروبات سے پرہیز جبکہ سفید روٹی اور پاستا کی جگہ خالص آٹے کا استعمال پہلا مرحلہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ریفائنڈ چینی اور اناج غذائیت کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے وٹامن سے بھرپور حصہ نکال دیا جاتا ہے ان سے پرہیز ضروری ہے ۔طبی ماہرین کے مطابق صحت مند غذاؤں میں سبزیاں، پھل، بیج، اناج اور اومیگا تھری شامل ہیں جبکہ یہ ضروری ہے کہ وقفے وقفے سے کھانا کھایا جائے اور بھوک مٹنے پر ہاتھ روک لیا جائے۔ذیابیطس کا زیادہ تر انحصار جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل پر ہوتا ہے لیکن آپ صحت مند غذا اور چست طرزِ زندگی سے اپنے خون میں شکر کو مناسب سطح پر رکھ سکتے ہیں۔ذیابطیس کے مریض کی ادویات اور انسولین کے معاملے میں صرف معالج کی ہدایات پر عمل کریں۔ کوئی بھی غیرمعمولی چیز سامنے آنے پر فوری معالج سے رجوع کریں۔
===================
Load/Hide Comments