یونیورسٹی اور انڈسٹری میں لینگویج گیپ کو دور کرنا ہوگا ، نئی یونیورسٹی کو چلانا آسان بگڑی ہوئی درسگاہ کو دوبارہ کھڑا کرنا مشکل ترین ٹاسک ، چھ مہینے میں پہلا پی ایچ ڈی تیار کرلیں گے ، داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیض اللہ عباسی کی جیوے پاکستان کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔

یونیورسٹی اور انڈسٹری میں لینگویج گیپ کو دور کرنا ہوگا ، نئی یونیورسٹی کو چلانا آسان بگڑی ہوئی درسگاہ کو دوبارہ کھڑا کرنا مشکل ترین ٹاسک ، چھ مہینے میں پہلا پی ایچ ڈی تیار کرلیں گے ، داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیض اللہ عباسی کی جیوے پاکستان کے لیے محمد وحید جنگ سے خصوصی گفتگو ۔

تفصیلات کے مطابق داؤد یونیورسٹی کی گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے گزشتہ دنوں ایک خصوصی نشست میں انہوں نے پاکستان کی سرکردہ نیوز ویب سائٹ جیوے پاکستان ڈاٹ کام کی جانب سے محمد وحید جنگ کے استفسار پر بتایا کہ یہ بہت ہی زبردست تعلیمی ادارہ بنا تھا پرائیویٹ سیکٹر میں پھر نیشنلائزیشن ہوئی تب بھی یہ ٹھیک تھا بعد میں یہاں پرابلمز آنا شروع ہوئی دیگر یونیورسٹیز کی طرح یہاں بھی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بنا مشرف صاحب کے دور میں واقع یونیورسٹیز کو سنبھال لیا گیا لیکن داؤد کالج کی جانب کسی نے دیکھا ہی نہیں ۔پھر سال دو ہزار گیارہ میں یہ ادارہ وفاق سے صوبے کو منتقل ہوا صوبائی حکومت نے اسے کالج سے یونیورسٹی بنانے کے بارے میں سوچا اور سال 2013 میں اسے یونیورسٹی بنا دیا گیا میں اس یونیورسٹی کا پہلا وائس چانسلر تھا

آپ یقین مانیں جب میں یہاں آیا تو یہ یونیورسٹی تو بہت دور کی بات ہے کالج بھی نہیں لگتا تھا بلکہ اسکول جیسا حال تھا عمارت کو کھنڈر بنادیا گیا تھا آہستہ آہستہ کر کے ٹرانسفورم کرنا شروع کیا یونیورسٹی میں ۔ویسے تو دیکھا جائے تو اس ادارے کی گولڈن جوبلی سال 2012 میں ہو جانی چاہیے تھی لیکن اس وقت یہاں کے حالات ایسے نہیں تھے کہ ہم تقریبات منعقد کرتے اب ہم نے اس کو مستحکم کیا اور سال ،2022 میں گولڈن جوبلی تقریبات منارہے ہیں اصولی طور پر اس کے ساٹھ سال مکمل ہو چکے ہیں اس ادارے کو داؤد فیملی نے بنایا اور کھڑا کیا ہم نے حسین داؤد کو خصوصی تقریبات میں مدعو کیا کیونکہ ان کے بزرگوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی اور اس فیملی نے تعلیم کے لئے بڑی خدمات انجام دیں جو قابل تعریف ہیں ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ ریسرچ سمیت یہاں بہت سی سرگرمیاں چل رہی ہیں ماضی میں تو یہ سوچنا بھی مشکل تھا کہ یہاں ریسرچ کریں گے اور خود فنڈنگ کریں گے تب یہاں ایک بھی پی ایچ ڈی نہیں تھا آج 70 پی ایچ ڈی ہیں جو مختلف ملکوں سے آئے ہیں اور پڑھا رہے ہیں مزید تیس پی ایچ ڈی دو سے تین سال میں آ جائیں گے جو بھائی پڑھ رہے ہیں سال 2018 میں جب پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیا ماسٹرز پروگرام شروع کیا ہمارے پاس کم لوگ تھے لیکن آج پچاس ماسٹرز ہیں اور چھ مہینے کے اندر پہلا پی ایچ ڈی پروڈیوس کریں گے ریسرچ کے شعبے میں ہماری کوشش ہے کہ جو ملکی ضروریات ہیں اس کے مطابق ریسرچ ہو۔ واٹر کوالٹی کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں کراچی کے مختلف اضلاع سے پانی کے سیمپل لے کر رپورٹ تیار کرائی ہے پتہ چلے ہم کس قسم کا پانی پی رہے ہیں اس کے مسائل کیا ہیں اور اس کی وجہ سے کون سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں ہمارے پاس اپنی لیبارٹری ہے ہم اسی قسم کے مزید پروجیکٹس کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں سال 2015 سے لے کر آج تک یونیورسٹی میں مختلف اسٹوڈنٹ چیپٹرز اور سوسائٹیز بنائی ہیں جو مختلف سیمینار کانفرنس اور دیگر سرگرمیاں منعقد کرتی ہیں آج تو تین سیمینار ہو رہے ہیں ہماری کوشش ہے کہ ہم خود وسائل فراہم کریں اور 40 فیصد تک جائیں ہم سائبر سکیورٹی کمپیوٹر سائنس انفارمیشن سسٹم جیسے بیچلر پروگرام پڑھا رہے ہیں شروع میں ہمارے پاس نو ڈیپارٹمنٹ تھے آج 14 ڈیپارٹمنٹس ہیں ان پروگراموں میں فیس اسٹرکچر کو کم رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے طلبہ کی تعداد زیادہ ہے کمپیوٹر سائنس میں پچاس کی گنجائش تھی ڈیڑھ سو بچے آئے ۔
سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال اور یونیورسٹی کے کردار کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ سو خواتین ڈاکٹرز جو مختلف ملکوں سے آئے اس کے ساتھ مل کر ہم نے پروجیکٹ پر کام کیا ہے لاڑکانہ اور دیگر اضلاع میں مریضوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ایپ بنائی ہے اور ان کو ادویات کی فراہمی اور علاج معالجے کی سہولتوں کے حوالے سے ریکارڈ رکھا جا رہا ہے ہماری ورکشاپس اور پروگراموں میں بلوچستان اور دیگر علاقوں کی یونیورسٹیز کے لوگ بھی شرکت کرتے ہیں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے لیے ہم کام کر رہے ہیں مجھے اس عہدے پر ساڑھے نو سال ہو گئے ہیں پچھلے سال میرے عہدے کی معیاد پوری ہو گئی تھی اب نئے وائس چانسلر کی تلاش تک مجھے کام کرنے کے لیے کہا گیا ہے ہماری کوشش ہے کہ ضروریات کے مطابق یونیورسٹیز میں ریسرچ اور کام کئے گئے میں اپنے تجربے کی روشنی میں کہتا ہوں کے انڈسٹری اور یونیورسٹیز کے درمیان گیپ ہے اور یہ انڈسٹری اور یونیورسٹی کی لینگویج گیپ کا مسئلہ ہے اسے حل کر لیا تو انڈسٹری اور یونیورسٹیز ایک دوسرے کے قریب آجائیں گی اپنے کیرئیر کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ مجھے

شروع سے ہی پی ایچ ڈی کرنے کا شوق تھا ہمارے دور میں سرکاری نوکریاں آسانی سے مل رہی تھی سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی تھی جب میں نے کہہ رہی ہوں شروع کرنا تھا تو تین ‏jobs دستیاب ہیں جن میں ایک پاکستان اسٹیل مل لگ رہی تھی کے ڈی اے بن رہا تھا اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ کی جاب تھی مجھے پتا تھا کہ اسکالرشپ ملے گی اور میں پی ایچ ڈی کر سکوں گا میں نے وہی راستہ لیا ۔ میں سوئی سدرن گیس کمپنی کا ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر بنایا گیا پھر میں نے سندھ میں ایک شوگر مل لگائی گیارہ مہینے میں اسے کھڑا کیا ۔ایک زمانے میں میں امریکہ چلا گیا وہاں دس سال رہا پھر مجھے پاکستان بلا لیا گیا اور مجھے ایم ڈی سوئی سدرن گیس کمپنی بنا دیا گیا پھر اس یونیورسٹی میں وائس چانسلر بن گیا اللہ نے شاید کوئی خاص کام لینا تھا تعلیم کے شعبے میں اس لیے میں یہاں آگیا اور مجھے خوشی ہے کہ یہ بہت مشکل کام تھا جو میں نے کیا اور اللہ نے کامیابی دی میں سمجھتا ہوں کہ نہیں یونیورسٹی کو چلانا آسان ہوتا ہوگا بگڑی ہوئی یونیورسٹی کو بنانا بہت مشکل ہوتا ہے حکومت اور ایجوکیشن کمیشن اور میرے دوستوں طلبا اور اساتذہ نے میرا ساتھ دیا ان سب کا شکر گزار ہوں ۔
============================