8 اکتوبر 2005 کے آنے والے شدید زلزلے کے موقع پر ڈاکٹر عامر ریاض بھٹہ کی قیادت میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور کی طبی ٹیم کی تاریخی و لازوال خدمات

تحریر ۔۔۔۔۔شہزاد بھٹہ
===================
جب سے دنیا وجود میں آئی ھے تب سے دنیا میں مختلف آفات جیسے سیلاب،سونامی، مختلف بیماریاں، ٹورنیڈو، سمندری طوفان، آتش فشاں، زلزلے یا تودے وغیرہ سے منسلک اثرات کا نام ہے جو ماحول پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ قدرتی وسائل، مالی اور جانی نقصان کا سبب بنتے ہیں آتی رھی ھیں اگر ھم دنیا میں آنے والے زلزلوں کی بات کریں تو پاکستان میں 8 اکتوبر 2005 کے تباہ کن زلزلے کو 17 سال ھو چکے ھیں پاکستانی تاریخ کے بدترین زلزلہ میں تقریباً 85 ھزار ہلاک ھوئے صوبہ پنجاب، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں 7.6ریکٹر اسکیل کی شدت سے آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور 2005ء میں دنیا کا چوتھا بڑازلزلہ تھا ۔جبکہ اس سے قبل 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے تباہ کن زلزلے سے تقریباً 50 ھزار لوگ ہلاک ھوئے تھے
اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ھے کہ دسمبر 2004ء میں 9.0ریکٹر اسکیل کی شدت سے انڈونیشیا کے زیر سمندر زلزلے کے باعث اٹھنے والی سونامی کی لہر کے نتیجے میں لاکھوں ہلاکتیں ہوئی تھیں۔


ایران کے شہر بام میں 2003ء میں زلزلے سے 30 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی شدت 6.7 تھی۔
جنوری 2001 میں بھارتی صوبے گجرات میں آنے والے زلزلے سے تقریباً 20ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جون 1990ء میں شمال مغربی ایران میں زلزلے کے نتیجے میں 40ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ جولائی 1976ء میں چین میں آنے والے زلزلے سے ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے قبل مئی 1970میں پیرو کے شہر ماونٹ ہواسکاران میں زلزلے اور مٹی کے تودے گرنے سے 70ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ اسی طرح دسمبر 1939ء میں ترکی کے شہر ایر زنکن میں تقریباً 40ہزار ہلاکتیں ہوئیں
1927ء میں چین میں زلزلے کی تباہی سے 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ چین ہی میں 1927میں ایک اور زلزلے میں دولاکھ افراد ہلاک ہو گئے۔
1923ء میں جاپان کے شہر اوکلا ہوما میں زلزلے نے ایک لاکھ 40ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔ جب کہ چین ہی میں 1920میں آنے والے ایک زلزلے سے 2لاکھ 35ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
1908میں اٹلی میں ایک زلزلہ آیا جس نے 83ہزار افراد کو ہلاک کر دیا۔ بھارتی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر کے مطابق چار سال پہلے 2018 میں آنے والا شدید زلزلہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ 120 سال کے دوران آنے والا شدید ترین زلزلہ تھا۔
اگر ھم پاکستان میں 8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے کی بات کریں تو پتہ چلتا ھے کہ اس زلزلے نے تباھی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے تھے بستیوں کی بستیاں منٹوں میں اجاڑ گئی ھزاروں لوگ ہلاک اور اتنے ھی زخمی ھوئے کروڑوں اربوں روپے کے مالی نقصانات ھوئے ذرائع امدورفت تباہی کا شکار ھو گئے ایسے تباہ کن اور برے حالات میں پاکستانی قوم نے اپنے متاثرین زلزلے بھائیوں کے لیے فوری اور دل کھول کر امدادی کارروائیاں کا آغاز کیا حکومتوں کے ساتھ ساتھ ھر مکتب فکر کے چھوٹے بڑے لوگوں سماجی و مذہبی تنظیموں نے اپنے متاثرین بہن بھائیوں کے لیے ھر طرح سے امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا پاکستانیوں نے یہ بات کر دی کہ وہ مصیبت میں گھڑی میں اپنے متاثرہ بھائیوں کے ساتھ ساتھ متاثرین زلزلہ کے لئے دنیا بھر امدادی سامان کے ڈھیر لگ گئے
زلزلہ میں ھزاروں پاکستانی شدید زخمی بھی ہوئے ان زخموں کی فوری طبی امداد کیلئے ملک بھر سے مختلف ماھرین صحت پر مشتمل میڈیکل ٹیموں نے متاثرہ علاقوں کا رخ کیا اور اپنے زخمی بہن بھائیوں کو فوری طبی امداد فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا
دیگر طبی ماہرین پر مشتمل ٹیموں کے ساتھ ساتھ گنگا رام ہسپتال اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور کے ڈاکٹرز پر مشتمل ایک ٹیم جس کی قیادت فرزند سیالکوٹ سرجن ڈاکٹر عامر ریاض بھٹہ کر رھے تھے اس طبی ٹیم میں مختلف طبی شعبہ جات کے ماھر ڈاکٹرز جن میں سینیر رجسٹرار ڈاکٹر سیلم دو لیڈی ڈاکٹر اور 8 پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شامل تھا نے آزاد کشمیر کے متاثرین زلزلہ کو طبی امداد فراہم کرنے کے 8 اکتوبر 2005 کو روانگی کا پروگرام بنایا فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاھور کی امدادی ٹیم کے لئے بیکن ہاؤس سکول سسٹم کی چیئرپرسن مس خورشید قصوری نے فوری طور پر ایک منی بس کا بندوست کیا اس کے علاؤہ پروفیسر اکبر چوہدری پرنسپل فاطمہ جناح میڈیکل کالج اور بیکن ھاؤس کی طرف سے امدادی اشیاء جن میں مختلف میڈسن، ٹینٹ، کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے، دو عدد بڑے جنریٹرز مالی و دیگر سہولیات کا فوری بندوست کیا اور امدادی سامان ڈاکٹر عامر بھٹہ انچارج طبی ٹیم کے حوالے کیں
گنگا رام ہسپتال و فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی طبی امدادی ٹیم نے اپنے لیڈر ڈاکٹر عامر بھٹہ کی قیادت میں 9 اکتوبر 2005 کی شام کو مظفر آباد آزاد کشمیر کے لیے اپنے سفر کا آغاز گیا اور راولپنڈی اسلام آباد سے ھوتے ھوئے رات گئے مری پہنچ گئی جبکہ اس وقت مری میں ویرانیوں کے سائے چھائے ھوئے تھے تمام بازار ہوٹل وغیرہ بند ھو چکے تھے اور سوگوار ماحول نے پورے علاقے میں ڈھیرے ڈالے ھوئے تھے ایسے میں مری کے ایک رہائشی تاجر نے جب لاھور سے آنے والی امدادی میڈیکل ٹیم کو دیکھا تو اس نے فوراً ڈاکٹرز کے لیے اپنے بند ہوٹل کے دروازے کھول دئیے امدادی ٹیم کے لئے رھائش اور کھانے پینے کا انتظام کیا
مری میں رات گزارنے کے بعد ڈاکٹر عامر بھٹہ کی ٹیم نے مظفر آباد آزاد کشمیر کی جانب اپنا سفر شروع کیا راستے میں جگہ جگہ زلزلے کی تباہ کاریوں دیکھی جا سکتی تھیں جبکہ آزاد کشمیر کا ہیڈ کوارٹر مظفرگڑھ آباد مکمل طور پر تباہ ھو چکا تھا
8 اکتوبر کے زلزلے میں 83 ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے ھزاروں زخمی ھوئے زلزلے سے مظفر آباد اور باغ کے بیشتر علاقے متاثر ہوئے تھے 8 اکتوبرکے زلزلے سے 28لاکھ افراد بے گھر بھی ہوئے تھے، اس زلزلے میں مظفرآباد کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا زلزلے کے بارے میں اطلاعات جوں ہی ملک کے مختلف علاقوں میں پہنچیں سیاسی اور سماجی تنظیموں اور سرکاری اور غیر سرکاری اداروں نے متاثرین کے امداد کے لئے اپنے اپنے طور پر سرگرمیوں کا آغاز کردیا تھا اسوقت کے صدرپاکستان جنرل پرویز مشرف نے ایک ریلیف فنڈ بھی قائم کیا جس میں لاکھوں لوگوں نے عطیات دیئے زلزلہ زدگان کی امداد کے سلسلے میں بیرون ممالک بھی پیچھے نہیں رہے۔
11 نومبر 2005ء کو وفاقی حکومت اور عالمی اداروں کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس سلسلے میں 5 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 57 لاکھ افراد متاثر ہوئے
گنگا رام ہسپتال لاھور اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی مشترکہ ٹیم نے ماؤنٹین بٹالین کیمپ مظفر آباد پہنچ کر کیمپ کے انچارج کرنل صاحب سے رابط کیا ٹیم کے انچارج ڈاکٹر عامر بھٹہ نے کرنل صاحب سے درخواست کی کہ وہ میڈیکل امدادی ٹیم کے لئے ایمرجنسی ہسپتال قائم کرنے کے ضروری انتظامات کرنے میں مدد کریں کرنل صاحب نے لاھور سے آنے والی میڈیکل ٹیم کو خوش آمدید کہتے ھوئے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ مہمان ڈاکٹرز ٹیم کی ھر ممکن مدد اور رہنمائی کی جائے فوری طور پر فوجی جوانوں کی مدد سے کیمپ ہسپتال قائم کردیا اور مریضوں کو فوری ہنگامی طبی امداد فراہم کرنا شروع کردی جیسے ھی متاثرہ علاقوں میں ہنگامی ہسپتال قائم ھونے کی اطلاع پھیلی تو زلزلے سے متاثرہ افراد نے گنگا رام ہسپتال کے قائم شدہ ٹینٹ ہسپتال میں فوری طبی امداد کے لیے آنا شروع کردیا ڈاکٹر عامر بھٹہ کی زیر قیادت میڈیکل ٹیم نے مریضوں کی دیکھ بھال اور طبی سہولیات فراہم کرنے شروع کی
ماؤنٹین بٹالین آزاد کشمیر کیمپ کے انچارج کرنل نے ڈاکٹر عامر بھٹہ کو ایک آرمی جیپ مہیا کی جس میں انہوں نے چند ڈاکٹر ساتھیوں کے ھمراہ زلزلے سے متاثرہ شہر کا وزٹ کیا مظفر آباد کی زیادہ عمارات اور سڑکیں تباھی کا شکار ھو چکی تھیں وزٹ کے دوران ڈاکٹر عامر کو عباس انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز کی بلڈنگ نظر آئی جو بالکل خالی پڑی ھوئی تھی لیکن دروازوں پر تالے تھے جس پر ڈاکٹر صاحب کی ٹیم نے چند مقامی افراد کی مدد سے ہسپتال کے تالے توڑے اور ہسپتال کا وزٹ کیا اور فصیلہ کیا کہ یہاں پر ہنگامی ہسپتال قائم کیا جائے ڈاکٹر صاحب نے فوری طور پر مقامی ضلعی انتظامیہ اور فیڈرل گورنمنٹ اسلام آباد سے رابط قائم کیا اور ضروری اشیاء کی فراہمی کا مطالبہ کیا جس پر فوری طور پر فیڈرل حکومت کے احکام نے ہسپتال سے متعلقہ ضروری ساز و سامان فراہم کرنے کا وعدہ کیا جس پر ہنگامی بنیادوں پر حکومتی اداروں نے ضروری ساز و سامان کے ساتھ ساتھ طبی سامان، آپریشن تھیٹرز کی اشیاء اور دوائیں مظفر آباد پہنچا دیں یوں ایک دو دن میں عباس انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز مظفر آباد میں متاثرہ علاقوں میں پہلے ہسپتال نے باقاعدہ کام شروع کر دیا ہسپتال قائم کرنے میں حکومتی اداروں کے ساتھ مختلف این جی اوز جن میں خاص طور پر ایدھی فاؤنڈیشن شامل ھے نے بھی گنگا رام ہسپتال لاھور کی طبی ٹیم کی بھرپور امداد کی
ڈاکٹر عامر بھٹہ اور ان کی طبی ٹیم نے ضلعی انتظامیہ ڈی ایچ او صحت مظفر آباد و مقامی رضاکاروں کی مدد سے زلزلے سے متاثرہ زخمی افراد کی دن رات چوبیس گھنٹے خدمت کی شدید زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دے کر اسلام آباد روانہ کردیا جاتا ڈاکٹر عامر بھٹہ نے بتایا کہ ان کی طبی ٹیم نے چند روز میں سینکڑوں ھزاروں افراد کو صحت کی سہولیات فراہم کی گئی ضروری آپریشن کئے گئے ڈاکٹر عامر بھٹہ اور انکی میڈیکل ٹیم کی اپنے زخمی بہن بھائیوں جس جنونی انداز سے چوبیس چوبیس گھنٹے انتھک محنت کی اس کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے زبردست خراج تحسین پیش کیا
گنگا رام ہسپتال اور فاطمہ جناح میڈیکل کالج کی ٹیم کے علاؤہ دیگر حکومتی و نجی اداروں نے بھی متاثرہ علاقوں میں ہنگامی میڈیکل کیمپ و عارضی ہسپتال قائم کئے اور زلزلے سے زخمی ھونے والے اپنے بہن بھائیوں کو ھر ممکن مدد کرتے ھوئے ایک مثال قائم کی
ڈاکٹر عامر بھٹہ نے بتایا کہ ایدھی فاونڈیشن کے فیصل ایدھی نے بھی زلزلہ متاثرین کے لیے دن رات خدمت کرتے رھے بلکہ فیصل ایدھی کی درخواست پر اغا خان ہسپتال کراچی نے زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے 50 سے زاہد ماھر نرسیں مظفر اباد بھیجی جہنوں نے عباس انسٹیٹوٹ اف ہیلتھ سائنسز میں ان کی ٹیم کے ساتھ مل کر زخموں کی خدمت کی
زلزلے زدہ علاقوں میں آنے والے دنیا بھر کے میڈیا اور مختلف افراد نے ڈاکٹر عامر بھٹہ اور ان کی انقلابی ٹیم کی سرگرمیوں کو بے حد سراہا بلکہ آزاد کشمیر کے صدر نے لاھور میں ھونے والی ایک تقریب میں ڈاکٹر عامر ریاض بھٹہ کی آزاد کشمیر کے زلزلے متاثرین کے لیے خدمات انجام دینے پر زبردست خراج تحسین اور ایک یادگاری شیلڈ بھی پیش کی
===========================================