تیرے مزاج کو میں کیسے آشکار کروں جو تو نہیں ہے،اسکا کیسے اقرار کروں

تیرے مزاج کو میں کیسے آشکار کروں
جو تو نہیں ہے،اسکا کیسے اقرار کروں

مانا کہ خوش گمانی بھی ضروری ہے مگر
جو بات سچ ہے،اسکا کیسے انکار کروں

ہے خواہش کہ اب کہ روبرو آئو
چلائو نشتر تم، توپھر میں بھی کوئی وارکروں

نکل آئوں اگر میں اپنے اضطرار سے تو
تمھارے درد کے موسم کو پھر بہار کروں

کوئی آس، کوئی بات، کوئی قرار تو ہو
کوئی اشارہ ہو، تو پھر میں انتظارکروں

وہ اپنی ذات کے خول سے نکلے تو سہی
میں اسکے ہمقدم چلنے کا پھر اصرار کروں

شکوہ ہی سہی، کوئی تو کبھی بات کرے
وہ لب کھولے توپھر میں بھی کوئی تکرار کروں

( ام۔حسین)سعودی عرب

==============================