پاکستان میں غیرمعمولی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے بعد کالا باغ ڈیم کے حق میں ایک مہم شروع ہوگئی ہے۔

پاکستان میں غیرمعمولی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کے بعد کالا باغ ڈیم کے حق میں ایک مہم شروع ہوگئی ہے۔

پاکستان میں پانی سے وابستہ ہر مسئلے کا حل ڈیم کی تعمیر کو بتایا جاتا ہے جبکہ ڈیم پانی سے وابستہ مسائل کی اصل وجہ ہوتے ہیں اور پوری دنیا سے بڑے ڈیموں کا خاتمہ ہورہا ہے، صرف امریکا میں 2020 کے دوران 23 ریاستوں سے 69 ڈیموں کا خاتمہ کیا گیا ہے۔

اگر کالا باغ ڈیم ہوتا بھی تو موجودہ سیلاب میں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ یہ سیلاب کالا باغ ڈیم کے نشیبی علاقوں میں آیا ہے، اسی طرح موجودہ برسات میں تقریباً 135 بلین کیوبک میٹر سے زائد بارش کے پانی نے سیلاب کی شکل اختیار کی ہے اور پاکستان کے سب سے بڑے تربیلا ڈیم کی گنجائش 12 بلین کیوبک میٹر ہے۔


پانی کا کوئی بھی ذخیرہ سیلابی صورت حال میں ایک بم کی طرح ہوتا ہے جو اوور فلو ہونے کی صورت میں اطراف کے شہروں کو مکمل طور پر تباہ کردیتا ہے، جیسا 1992 میں سیلابی صورت حال کے دوران منگلا ڈیم نے تباہی مچائی، ایک ہزار سے زائد لوگ مارے گئے اور 40لاکھ افراد متاثر ہوئے۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ڈیم نہیں ہوں گے تو پانی کہاں سے آئے گا یا سیلاب پر کیسے قابو پایا جائے گا، دنیا کے مختلف خطوں میں پانی کے الگ مسائل اور ان کے حل ہیں، سیلاب سے بچاؤ کا طریقہ بڑے ڈیم نہیں بلکہ چھوٹے آبی ذخائر کی تعمیر اور پانی کی قدرتی گزرگاہوں سے آبادیوں یا کسی بھی قسم کی تعمیرات کا خاتمہ ہے، اسی طرح پشتوں کی تعمیر اور شجرکاری بھی سیلاب کو روکنے میں معاون ثابت ہوتی ہے جبکہ پانی کی قلت کی صورت میں بھی بڑے ڈیم مسئلے کا حل نہیں، اس بات کو سمجھنے کے لئے آپ کو پانی کے امور کے مقامی ماہرین کی رائے کو جاننا ہوگا۔

پانی کے امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کی تحقیق کے مطابق جب سے دنیا بنی ہے، ہمارے خطے کو ایک خاص میکنزم سے پانی ملتا ہے اور اس پانی کے حصول کے تین ذرائع ہیں۔


جنوب میں بحرہند، آسمان پر سورج اور شمال کی جانب ہمالیہ، کوہ ہندوکش اور قراقرم کے پہاڑی سلسلے ۔۔

جب سورج سمندر پر چمکتا ہے تو بادل بنتے ہیں، یہ بادل شمال کی جانب سفر کرتے ہیں کہ جہاں پہاڑی سلسلے ہیں، ان کے پہاڑوں سے ٹکرانے پر بارش اور برف باری ہوتی ہے، یہ بادل گلیشئیر بننے کی بھی وجہ ہیں اور انہی گلیشئیرز کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوکر پورے ملک تک پہنچتا ہے۔

لاکھوں سال گزرگئے، ہمارے خطے میں فراہمی آب کا یہ نظام چل رہا ہے اور یہ اسی صورت میں ختم ہوسکتا ہے کہ جب سمندر خشک ہوجائے، سورج کی روشنی گل ہوجائے یا پہاڑ اُڑ جائیں۔

یہ قدرت کا اتنا زبردست سسٹم ہے کہ دنیا میں جتنی گلوبل وارمنگ ہوگی، ہمارے خطوں میں اتنی زیادہ بارشیں ہوں گی اور پانی کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہے گا، اگر بارشوں کا ڈیٹا دیکھیں تو اضافی بارشیں اسی بات کی دلیل بھی ہیں۔

مون سون کی بارشوں سے ڈیموں میں جمع ہونے والا پانی بھی فراہمی آب کا ایک بڑا ذریعہ ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمارا انحصار صرف مون سون پر ہے، اگر ایسا ہوتا تو یہ خطہ اب تک مٹ چکا ہوتا۔

بھارت کو تین دریا دینے کے بعد پاکستان کو سالانہ 145 ملین ایکڑ فیٹ پانی ملتا ہے، جس میں سے 104 ملین ایکڑ فیٹ پانی ہم فصلوں کی اگائی میں استعمال کرتے ہیں، اس وقت پاکستان جتنا پانی کاشت کاری کے لئے استعمال کررہا ہے، اتنا ہی کیلی فورنیا میں استعمال ہوتا ہے مگر وہاں 50 فیصد زیادہ فصلوں کی پیداوار ہے اور اس کی وجہ ہمارا ایری گیشن سسٹم اچھا نہ ہونا ہے۔


اگر پاکستان اپنا ایری گیشن سسٹم بہتر کرلے تو ہم صرف 50 ملین ایکڑ فیٹ پانی سے موجودہ پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔

عالمی اسٹینڈرڈ کے مطابق ایک گھرانے کو 35 گیلن پانی یومیہ درکار ہوتا ہے، جس میں کھانے، پینے، نہانے اور کپڑے دھونے سمیت دیگر ضروریات پوری کی جاتی ہیں، اگر ہم پاکستان میں رہنے والے ہر فرد تک اس عالمی معیار کے مطابق پانی پہنچائیں تو ہمیں 17 ملین ایکڑ فیٹ پانی درکار ہوگا۔

اس وقت ہماری صنعتیں آٹھ ملین ایکڑفیٹ پانی استعمال کررہی ہیں جبکہ مستقبل میں یہ ضرورت بڑھ کر دس ملین ایکڑفیٹ تک ہوسکتی ہے، گویا ہمارے پاس ہماری ضرورت سے دگنا پانی موجود ہے۔

پاکستان میں پانی کی قلت کے بحران کی وجہ ترسیل کا نظام بہتر نہ ہونا ہے، کاشت کاری میں ضرورت سے تقریبا دگنا پانی ضائع ہورہا ہے۔

پاکستان میں پانی کے بحران کی ایک اور وجہ آلودگی اور کرپشن بھی ہے اور بڑے ڈیم بنانا ان تمام مسئلوں کا حل نہیں ہے۔

بڑے ڈیموں کی تعمیر میں تقریباً ایک دہائی لگتی ہے، ان کی عمر مختصر ہوتی ہے اور مٹی کی سطح بڑھنے پر رفتہ رفتہ یہ ختم ہوجاتے ہیں، اس لئے ماہرین کے مطابق ڈیم پانی کے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔
=============
عثمان غازی

=======================================