(OGDCL) کی ایم ڈی شپ کے لیےعمران عباسی فیورٹ امیدوار بن گئے ہیں۔ان کے مقابل


اسلام آباد( رپورٹ : ناصر جمال) پاکستان آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی سابق سی۔ او۔او ( چیف آپریٹنگ آفیسر) زاہد میر سیکیورٹی کلئیرنس نہ ملنے کے باعث ایم ڈی شپ کی دوڑ سے باہر ہوسکتے ہیں۔جبکہ ندیم باجوہ کوپیشہ وارانہ تجربہ میںکمی کاسامنا درپیش ہے ۔ وفاقی کابینہ کی ہدایت پر بننے والی اعلیٰ سطحی کمیٹی اگلے ہفتےتینوں امیدواروں کا انٹرویو کرے گی ۔ کمیٹی کے نئے سربراہ وزیر دفاع خواجہ آصف ہونگے ۔ معتبر ترین ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے چند روز قبل پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے تیل وگیس کی تلاش اور پیداوار کے شعبہ کی سب سے بڑی پاکستانی کمپنی او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل۔ کے ایم۔ ڈی کی تقرری کے لیے سمری وفاقی کابینہ کو بھجوائی تھی ۔ جہاں وفاقی کابینہ نے تحریک انصاف کے دور میں شروع ہونے والے ایم۔ ڈی کی تقرری کے اس عمل کے تحت آنے والی سمری میںفائنل کیے گئے امیدواروں سے ایک بار پھر انٹرویوزکرنےکامشورہ دیاجس کےبعدوزیراعظم شہباز شریف ، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور سیکرٹری پٹرولیم پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ بعد ازاں وزیراعظم پاکستان کی گوناگوں مصروفیات کے باعث وزیر اعظم نے اپنے نام کی


جگہ پر سینئر وفاقی وزیر خواجہ آصف کو کمیٹی کی سربراہی سونپ دی،کمیٹی میںسابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل ہیں۔ جبکہ سیکرٹری پٹرولیم بلحاظ عہدہ کمیٹی کے ممبر ہیں ۔ اس با ت کا امکان ظاہر کیا جارہا ہےکہ آنے والے ہفتہ میںکمیٹی تینوں امیدواروں سے انٹرویو کرے گی۔ جبکہ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ دو مزید امیدوار بیک اپ میں بھی رکھے گئے ہیں ۔عمران خان کی حکومت نے شاہد سلیم خان کو اکیس جنوری ۲۰۲۰ کو تین سال کے لیے ایم ڈی مقرر کیا تھا۔جبکہ اٹھائیس ستمبر ۲۰۲۱ کو شاہد سلیم نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ انہوںنے اپنے عہدہ سے استعفی ٰ دے دیا ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے انہیں نان کمپلائنس کی متعدد شکایات اور ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہٹایا تھا۔ جس کے بعد او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کے بورڈ نے ممبر بورڈ سید خالد سراج سبحانی کو ایم ڈی کا چارج دیا تھا۔ وہ پچھلے گیارہ ماہ سے قائم مقام ایم ڈی او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔


یہ پٹرولیم ڈویژن کی نالائقی ہے کہ گیارہ ماہ میں وہ ابھی تک ایم ڈی او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کی تقرری کا عمل مکمل نہیں کر سکے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران عباسی سابق وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی کے دور میں او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کے ایم ڈی کے طور پر فائنل ہوئے تھے۔ لیکن عمران عباسی نے ایم ڈی شپ لینے سے معذرت کر لی تھی۔ جس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے امن وامان کے مخدوش حالات کے باعث ان کی فیملی کا دبائو تھا۔ اس وقت ان کی عمر چھپن برس تھی۔ اب وہ باسٹھ برس کے ہیں۔ اور آسٹریلیا میںمقیم ہیں۔ وہ ای اینڈپی سیکٹر کے ماہر جانے جاتے ہیں۔ پاکستان کی پریمیئر ایجنسی نے ا ن کی سیکیورٹی کلیئرنس کر دی ہے ۔ جبکہ دوسرے امیدوار زاہد میر ماضی میں او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کے اندر بطور چیف آپریٹنگ آفیسر آئے تھے۔ دہری شہریت کی وجہ سے انہوں نے اس وقت ایم ڈی شپ قبول نہیںکی۔ انہیں خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان دہری شہریت کے باعث باہر نہ کردے۔ تاہم وہ طویل عرصہ قائم مقام ایم ڈی کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ پاکستان ریفائنری میں ایم ڈی کا عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ جو او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کے مقابلے میں چھوٹی ملازمت تھی ۔ اس کے بعد انہوںنے پی۔ پی۔ ایل اور او۔جی ۔ڈی ۔سی ۔ایل میں اپلائی کیا۔مگر دونوں بار ان کی سیکیورٹی کلیئرنس نہ ہوسکی۔ اور اب تیسری بار وہ پھر سےاپنا نام او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کے حتمی پینل میں شامل کروانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ تاہم اس بار بھی انہیں سیکیورٹی کلئی نس کے حوالے سے ماضی جیسے مسائل درپیش ہیں۔ تیسرے نمبر پر ندیم باجوہ ہیں جو انٹر اسٹیٹ گیس کمپنی کے ایم ڈی ہیں۔ لیکن ان کا اس سیکٹر میں تجربہ ناکافی ہے۔جبکہ پٹرولیم ڈویژن کے ذرائع کا کہنا ہے ان سے پٹرولیم ڈویژن کےبااثر لوگ مطمئن نہیںہیں۔ پاکستان کو اس وقت تیل وگیس کی تلاش میں مقامی سطح پر بحرانی کفیت کاسامنا ہے۔ جس کی بڑی وجہ ای اینڈپی سیکٹر میں گذشتہ پانچ سالوںمیں تیل وگیس کی گرتی ہوئی پیداوار ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اس شعبہ میں کام کرنے والی تمام غیر ملکی کمپنیاں ماسوائے مول پاکستان کے اپنا بزنس سمیٹ کر واپس چلی گئی ہیں۔ اور مقامی کمپنیاں وقت کی ضرورت کےمطابق کام کرنے میںناکام رہی ہیں ۔ نئی اتحادی حکومت اس شعبہ میں تیز رفتاری سے کام کرنےکی خواہاں ہے۔ تاکہ قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوسکے۔ اور ملکی ضرورت کےمطابق تیل و گیس کی پیداور اور امپورٹ میں توازن قائم کیا جاسکے ۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ایم ڈی کے انٹرویوز مکمل ہونے کے بعد او۔جی۔ ڈی۔ سی۔ ایل کی تقرری کا حتمی فیصلہ کمیٹی کی سفارشات کی تناظر میں وفاقی کابینہ کرے گی ۔

====================================