مالی سال 2023ء کے لیے پاکستان کی حکمت عملی: پانچ اہم حقائق وزارت خزانہ اور بینک دولت پاکستان کا مشترکہ بیان

مالی سال 2023ء کے لیے پاکستان کی حکمت عملی: پانچ اہم حقائق
وزارت خزانہ اور بینک دولت پاکستان کا مشترکہ بیان
1۔ پاکستان کے مسائل عارضی نوعیت کے ہیں جن کے حل کے لیے پوری قوت صرف کی جارہی ہے۔
• فروری کے مہنیے سے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کم ہونا شروع ہوئے، جس کی وجہ آمدِ زر کی نسبت انخلائے زر کا زیادہ ہونا ہے۔ آمدِ زر بنیادی طور پر آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک سے کثیر فریقی قرضوں، چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے دوست ممالک سے ڈپازٹس اور قرضوں کی صورت میں دوطرفہ مالی اعانت، یورو بانڈز اور صکوک کے ذریعے غیرملکی بینکوں سے کمرشل قرضوں پر مشتمل ہے۔ آمدِ زر میں بیشتر کمی آئی ایم ایف کے آئندہ جائزے میں تاخیر کی سبب آئی، جو پالیسی میں سقم کے باعث ہوئی۔ دریں اثنا، انخلائے زر کے حوالے سے غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رہا کیونکہ اس عرصے میں یہ رقوم واجب الادا ہوگئی تھیں۔


• اسی موقع پر شرح مبادلہ شدید دباؤ میں آگئی، بالخصوص وسط جون کے بعد سے۔ ایسا ڈالر کے عمومی کساؤ کے باعث ہوا، جو جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے (جو جون میں توانائی کے بھاری بل کی سبب شدت اختیار کرگیا)، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئی ایم ایف پروگرام اور ملکی سیاست میں غیریقینی صورتحال کی وجہ سے احساسات مجروح ہونے کی بنا پر سامنے آیا۔

• تاہم حال ہی میں اہم پیش رفت ہوئی ہے جس سے یہ عارضی مسائل حل ہوجائیں گے۔ 13 جولائی کو آئی ایم ایف کے آئندہ جائزے کی تکمیل ہونے پر اسٹاف کی سطح کے معاہدے کا اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا۔ آج تک اس جائزے کی تکمیل کے لیے تمام پیشگی اقدامات کرلیے گئے ہیں، اور 1.2 ارب ڈالر کی آئندہ قسط کے اجرا کے لیے باضابطہ بورڈ اجلاس آئندہ ہفتوں میں متوقع ہے۔ اسی موقع پر طلبی دباؤ اور جاری کھاتے کا خسارہ کم کرنے کے لیے معاشی پالیسیاں – مالیاتی پالیسی اور زری پالیسی دونوں – مناسب انداز سے سخت کردی گئی ہیں۔ بالآخر حکومت نے یہ واضح طور پر اعلان کردیا گیا ہے کہ وہ اکتوبر 2023ء تک آپنی باقی ماندہ مدت پوری کرنے کی خواہاں ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام کے بقیہ آئندہ 12 مہینوں میں ادارے کے ساتھ طے شدہ تمام شرائط پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار ہے۔

2۔ مالی سال 23ء میں آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کے تحت پاکستان کو درکار خالص قرضوں کی ضرورت مکمل طور پر پوری ہوجائے گی۔

• قرضوں کی ضروریات جاری کھاتے کے خسارے تقریباً 10 ارب ڈالر ہونے اور تقریباً 24 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی اصل رقم کی ادائیگی کے سبب پیدا ہوئیں۔
• پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی حالت کو تقویت دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پاکستان ان ضروریات کی نسبت تھوڑے سے زیادہ قرضے حاصل کرے۔


• نتیجتاً، آئندہ 12 مہینوں کے لیے 4 ارب ڈالر کے اضافی قرضوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اِن رقوم کا انتظام مختلف ذرائع سے کیا جارہا ہے جس میں وہ دوست ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے جون 2019ء میں آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز کے وقت پاکستان کی مدد کی تھی۔

3۔ جاری کھاتے کے خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔

• اجناس کی بلند عالمی قیمتوں کے علاوہ مالی سال 22ء میں بھاری جاری کھاتے کے خسارے کا سبب بلند ملکی طلب (مسلسل دو سال تک نمو تقریباً 6 فیصد تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں معیشت کی اوورہیٹنگ ہوئی)، فروری میں سبسڈی پیکیج کے باعث مصنوعی طور پر پست توانائی کی ملکی قیمتیں بحٹ میں غیر شامل شدہ اور موافق گردشی (procyclical) مالیاتی توسیع اور لوڈ شیڈنگ کم کرنے اور انونٹریز بڑھانے کے لیے جون میں توانائی کی بھاری درآمدات تھیں۔
• آئندہ اس خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے پالیسی ریٹ 800 بیسس پوائنٹس بڑھایا گیا، توانائی کی سبسڈی کی پیکیج ختم کردیا گیا اور مالی سال 23ء کے بجٹ میں جی ڈی پی کے تقریباً 2.5 فیصد کے برابر یکجائی (consolidation) کا ہدف رکھا گیا ہے جس میں ٹیکس اضافے جبکہ غریب ترین طبقے کا تحفظ شامل ہے۔ اس سے ملکی طلب بشمول ایندھن اور بجلی کی ملکی طلب کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
• اس کے علاوہ درآمدی بل کو قابو میں کرنے کے لیے عارضی انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں جس میں گاڑیاں، موبائل فون اور مشینری درآمد کرنے سے پہلے پیشگی منظوری کی شرط شامل ہے۔ جب جاری کھاتے کا خسارہ آئندہ مہینوں میں کم ہوگا تو یہ اقدامات نرم کردیے جائیں گے۔

4۔ یہ اقدامات موثر ثابت ہو رہے ہیں: جولائی میں درآمدی بل میں نمایاں کمی واقع ہوئی، کیونکہ توانائی کی درآمدات میں کمی آئی ہے اور غیر توانائی کی درآمدات میں کمی جاری ہے۔

• جولائی میں زرمبادلہ کی ادائیگیاں جون کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم تھیں۔ یہ آئل اور نان آئل دونوں کی ادائیگی کے مطابق ہے۔ مجموعی طور پر، جولائی میں ادائیگیاں 6.1 ارب ڈالر پر مستحکم تھیں جبکہ جون میں یہ 7.9 ارب ڈالر تھیں ۔

• تازہ ترین تجارتی اعداد و شمار کے مطابق نان آئل مصنوعات کی درآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ بالخصوص، مالی سال 22ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران نان آئل کی درآمدات میں سہ ماہی بہ سہ ماہی بنیاد پر 5.7 فیصد کمی ہوئی۔ آگے چل کر ان میں مزید کمی متوقع ہے ۔

• مستقبل میں، ایک بار پھر آئل کے ساتھ ساتھ نان آئل مصنوعات دونوں کے لیے حالیہ ہفتوں کے دوران ایل سی کھولنے میں کافی سست روی دیکھی گئی ہے ۔ مارکیٹ رپورٹس کی بنیاد پر، جون میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی فروخت کے حجم میں ماہ بہ ماہ 11 فیصد کمی واقع ہوئی۔

• جون میں توانائی کی درآمدات میں اضافے کے بعد، اب ملک میں ڈیزل اور فرنس آئل کا ذخیرہ دستیاب ہے جو بالترتیب 5 اور 8 ہفتوں کے لیے کافی ہے، جو کہ ماضی کے 2 تا 4 ہفتوں کی معمول کی حد سے بہت زیادہ ہے یعنی کہ مستقبل میں پیٹرولیم درآمدات کی کم ضرورت پڑے گی۔

• حالیہ بارشوں اور ڈیموں میں پانی کے ذخیرے سے، پن بجلی میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے اور توقع ہے کہ مستقبل میں درآمدی ایندھن سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت کم ہوجائے گی۔

• ان رجحانات کے نتیجے میں، مستقبل میں درآمدی بل میں تخفیف کا امکان ہے اور اگلے ایک سےدو مہینوں میں زرِمبادلہ کی پست ادائیگیوں میں اس کا اور مضبوطی سے اظہار شروع ہوجانا چاہیے۔

• مجموعی طور پر، آئندہ مہینوں میں درآمدات میں کمی متوقع ہے جس کی وجہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی، تیل کا زیادہ ذخیرہ، پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی ملکی قیمتوں کے ظاہر ہونے والے اثرات، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ردوبدل، مالی سال 23ء کے بجٹ کے تحت ٹیکس چھوٹ کے خاتمے ، درآمدات کو کم کرنے کے لیے کیے گئے انتظامی اقدامات، اور کی جانے والی زری اور مالیاتی سختی کے تاخیری اثرات ہیں۔

5۔ روپیہ وقتی طر پر قدر میں کم ہوا ہے لیکن توقع ہے کہ اگلے چند ماہ کے دوران معاشی مبادیات کی مطابقت سے اس کی قدر بڑھ جائے گی

• دسمبر 2021ء سے روپے کی قدر میں تقریباً نصف کمی امریکی ڈالر کی عالمی قیمت میں اضافے سے منسوب کی جاسکتی ہے جو فیڈرل ریزرو کی جانب سے تاریخی سختی اور خطرے سے گریز میں اضافے کے بعد ہوئی۔

• بقیہ نصف میں سے کچھ کمی ملکی معاشی مبادیات کی بنا پر ہوئی۔ خاص طور پر جاری کھاتے کے خسارے کے بڑھنے کی وجہ سے، خصوصاً گذشتہ چند ماہ میں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا یہ خسارہ متوقع طور پر آگے چل کر کم ہوگا جب درآمدی بل میں عارضی تیزی قابو میں آئے گی۔ جب یہ ہوگا تو روپیہ متوقع طور پر بتدریج قدر میں مضبوط ہوگا۔

• قدر میں باقی کمی کا محرک احساسات ہیں۔ روپے کی قدر ملکی سیاست اور آئی ایم ایف کے پروگرام کے بارے میں تشویش کی بنا پر کم ہوئی ہے۔ اس بے یقینی کا تصفیہ کیا جارہا ہے، اس طرح کہ روپے کی قدر میں کمی کا وہ حصہ جو احساسات کی وجہ سے پیدا ہوا ہے وہ آنے والی مدت میں درست ہوجائے گا۔

• جہاں مارکیٹ غیرمنظم ہوئی ہے اسٹیٹ بینک نے امریکی ڈالر کی فروخت کے ذریعے کارروائی جاری رکھی ہے تاکہ مارکیٹوں میں سکون آئے، اور مستقبل میں جب ضرورت ہوگی وہ ایسا کرتا رہے گا۔ سٹے سے مقابلہ کرنے ک لیے مضبوط اقدامات بھی کیے گئے ہیں جن میں بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی بغور نگرانی اور معائنے شامل ہیں۔ صورت حال کے مطابق مزید اضافی اقدامات کیے جائیں گے۔

• یہ افواہیں قطعی بے بنیاد ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ایکسچینج ریٹ کی ایک خاص سطح طے پائی ہے۔ ایکسچینج ریٹ لچکدار اور مارکیٹ کے مطابق تعین پاتا ہے اور ایسا ہی رہے گا لیکن غیرمنظم اتار چڑھاؤ سے نمٹا جارہا ہے۔

• آگے چل کر جب جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوگا اور احساسات بہتر ہوں گے تو ہمیں پوری طرح توقع ہے کہ روپے کی قیمت بڑھے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ 2019ء میں آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز میں یہی تجربہ ہوا تھا جب پروگرام سے پہلے کے کچھ عرصے میں روپیہ کمزور ہونے کے بعد کافی مضبوط ہوا تھا۔

• یہ امر واضح ہے کہ روپیہ عارضی طور پر قدر میں کم ہوسکتا ہے جیسا کہ حال میں ہوا ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ یہ دونوں طرف حرکت کرتا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ آنے والے دور میں یہ سلسلہ پھر ہوگا۔ نتیجے کے طور پر جاری کھاتے کے کم خسارے نیز مضبوط احساسات کی شکل میں بہتر معاشی مبادیات سے ہم آہنگ ہوکر روپیہ مضبوط ہوگا۔
=======================================