شادی کی عمر، صحت کا مسئلہ

ڈاکٹر توصیف احمد خان
=====================

کیا دعا زہرا کی شادی برقرار رہے گی؟ کراچی میں ایک مکمل میڈیکل بورڈ نے دعا زہرا کی عمر کا اندازہ پندرہ سال لگایا، یوں دعا کے والدین کا یہ دعویٰ درست ثابت ہوا کہ دعا کی عمر 14 سال ہے۔ وہ نا بالغ ہے اور سندھ میں نافذ شادی کے قانون کے تحت 18سال سے کم عمر لڑکا لڑکی کی شادی نہیں ہوسکتی مگر پنجاب میں 16 سال کی عمر کو پہنچنے والی لڑکی کا نکاح قانونی طور پر ہوسکتا ہے۔

دو ماہ قبل دعا زہرا اور نمرہ کاظمی جو کہ کراچی کے مختلف علاقوں میں رہنے والی تھیں پہلے دعا اچانک اپنے گھر سے لاپتہ ہوئی، کچھ دنوں بعد ہی نمرہ کاظمی کے لاپتہ ہونے کی خبریں ذرائع ابلاغ پر شائع اور نشر ہوئیں۔ بعض حلقوں نے یہ بیانیہ اختیار کیا کہ ایک منظم گروہ بچیوں کے اغوا میں ملوث ہے۔


مگر بعد میں آنے والے حقائق نے اس بیانیہ کو غلط قرار دیا اور یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ دونوں لڑکیاں اپنی مرضی سے اپنے محبوب کی اسیر ہوئیں۔ بعد میں نمرہ کاظمی نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ بالغ ہے اور اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے مگر دعا زہرا کا معاملہ سپریم کورٹ تک گیا۔ متعلقہ مجسٹریٹ کے حکم پر دعا کا پہلا میڈیکل بورڈ ہوا جس کی رپورٹ کے مطابق دعا کی عمر 16 سے 17 سال بتائی گئی تھی۔

پھر دعا کے والد نے سپریم کورٹ میں عرضداشت پیش کی۔ دعا کے وکیل جبران ناصر کی استدعا پر ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جامع میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا۔ اس میڈیکل بورڈ کی حتمی رپورٹ کے مطابق دعا کی عمر 15 سال کے قریب ہے۔ یوں دعا کی حقیقی عمر 14 سال قرار پائی۔ اب دعا کے والد کے وکیل کا کہنا ہے کہ دعا کو اغوا کرنے والے شخص کو (جو بقول دعا زہرا اس کا شوہر ہے) اغوا اور کم سن لڑکی کو ریپ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔


اگرچہ کہ دعا کی جو ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں ان میں وہ مسلسل اپنے شوہر ظہیر کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کرنے کو درست فیصلہ قرار دیتی ہے اور یہ دھمکیاں دیتی ہے کہ والد نے انھیں تنگ کیا تو وہ اپنے گھر اور خاندان سے متعلق ایسے انکشافات کرے گی کہ والدین کو شرمندگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان دونوں معاملات کے پس منظر میں خاندان کا کمزور ہونا، نفسیاتی الجھنیں، گھٹن اور جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اثرات جیسے عوامل سامنے آتے ہیں مگر ایک بنیادی مسئلہ ملک کے مختلف صوبوں میں شادی کے بارے میں متضاد قوانین کا رائج ہونا ہے۔

لاہور کے ایک وکیل جو فیملی معاملات کے ماہر ہیں کا کہنا ہے کہ پنجاب میں میرج ایکٹ کے تحت اگر کسی لڑکے کی عمر 18 سال سے کم اور لڑکی کی عمر 16 سال سے کم ہوگی تو شادی کرنے پر 6 ماہ قید اور 50 ہزار روپے تک جرمانہ کی سزا ہوسکتی ہے۔ کم سن بچیوں کا نکاح پڑھانے پر نکاح خواں اور رجسٹرار بھی فوجداری سزا کے مستحق ہوسکتے ہیں۔

پھر آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم کے تحت یہ معاملات صوبوں کو منتقل ہوئے۔ سندھ نے اس بارے میں ترقی پسندانہ رویہ اختیار کیا۔ سندھ اسمبلی نے 2013 میں میرج ایکٹ میں تبدیلی کی کہ اب اس صوبہ میں 18سال سے کم عمر کے بچوں کی شادی فوجداری جرم ہے۔

جب کہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں چائلڈ میرج ریسٹرین ایکٹ 1929 اب تک نافذ ہے۔ 2019 میں وفاقی وزیر شیری رحمن نے سینیٹ میں ایک بل Child marriage restrain (amendment) bill 2018 پیش کیا۔

اس بل کے ذریعہ پورے ملک میں 18سال سے کم عمر بچوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ علما کرام کے دباؤ پر یہ بل قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں شامل ہی نہ ہوسکا۔ اسلام آباد کے جسٹس بابر ستار کی سربراہی میں بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ 18سال سے کم عمری کی شادی غیر قانونی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ محض دارالحکومت تک محدود ہے، اس بنا پر اس فیصلہ کا اطلاق دارالحکومت کی حدود تک محدود ہے۔ اس فیصلہ میں واضح کہا گیا ہے کہ 18سال سے کم عمر کی لڑکی اپنی شادی کے بارے میں فیصلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ پر اعتراض کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو ایک خط تحریر کیا جس میں کہا گیا کہ اس فیصلہ کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔


شادی ایک مقدس فریضہ ہے۔ مگر پیدا ہونے والے بچوں کی صحت کا انحصار بھی والدین کی صحت سے منسلک ہوتا ہے۔ پھر بچوں کی شادی کے نقصانات کو محسوس کرتے ہوئے 1929 میں چائلڈ میرج ایکٹ نافذ ہوا۔ اس قانون کے تحت شادی کے وقت لڑکی کی عمر کم از کم 16سال ہونا ضروری قرار پائی۔ اس فیصلہ کے خلاف ہندو اور مسلمان علما متحد ہوگئے۔

بیرسٹر محمد علی جناح نے کانگریس سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ وہ واحد رہنما تھے جنھوں نے کم سن بچیوں کی شادی پر پابندی کی حمایت کی۔ جب رتی بائی اور محمد علی جناح ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوئے تو رتی کے والد نے یہ مقدمہ قائم کیا تھا کہ رتی نابالغ ہے اور عدالت کے حکم پر بیرسٹر محمد علی جناح نے ایک سال تک رتی سے رابطہ نہ کیا اور پھر قانون کے مطابق شادی کی تھی۔

پاکستان میں اس وقت زچہ اور بچہ کی اموات کی شرح پڑوسی ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ شہری علاقوں میں عام طور پر اور دیہی علاقوں میں خاص طور پر ماں کو سب سے کم خوراک ملتی ہے، یوں لڑکی شادی سے پہلے خون کی کمی اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پھر اس کی شادی ہو جاتی ہے اور اس ماں کو بچے پیدا کرنے کی مشین بنا دیا جاتا ہے، یوں ماں کی خراب صحت کے اثرات بچوں پر پڑتے ہیں۔

کم سن ماں کا نہ ذہنی ارتقا ہوتا ہے نہ وہ مکمل صحت مند ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زچہ و بچہ کی ہلاکتوں میں کمی نہیں آ رہی ہے۔ پھر آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ نے، بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی ایجنسیوں نے بچیوں کی صحت کے تحفظ کے لیے کنونشنز بنائے۔ پاکستان نے 1990 میں United Nations convention on the rights of child (CRC) کی توثیق کی۔

اس کنونشن میں واضح طور پر تحریر کیا گیا ہے کہ “A child mean every human being below the age of 18″۔ مگر ان بین الاقوامی کنونشنز پر دستخط کرنے کے باوجود تاحال چائلڈ میرج پر مکمل طور پر پابندی نہیں لگ سکی۔ پاکستان ڈیمو گرافک اور ہیلتھ سروے PDHS کی 2017 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 18.35 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 سال یا اس سے کم عمر میں ہو جاتی ہے۔ پھر صحت کے معیار کو بلند کرنے کے لیے ماں اور پیدا ہونے والے بچے کی صحت کا بہتر ہونا ضروری ہے۔ یہ خالصتاً صحت کا معاملہ ہے۔


دعا زہرا اور نمرہ کاظمی کے مقدمات سے قطع نظر یہ حقیقت واضح ہے کہ پورے ملک میں بچیوں کے حقوق کے حوالہ سے بین الاقوامی کنونشنز کے تحت ایک قانون نافذ ہوتا ہے اور یہ قانون 18سال کی عمر سے پہلے شادی پر پابندی کا ہے۔ پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے 1929 میں جو روایت قائم کی ہے اس روایت کی پاسداری سے ہی ترقی ممکن ہے۔

======================================
https://www.express.pk/story/2350651/268/

===========================