بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کا سبق

ڈاکٹر توصیف احمد خان
——————-

سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ تصادم، ہنگاموں، ایک فرد کی ہلاکت اور ایک امیدوار کے بھائی کے قتل پر اختتام پذیر ہوا۔ پیپلز پارٹی نے انتخابات میں اکثر یونین کونسلوں پر اکثریت حاصل کرلی مگر پیپلز پارٹی کی اتحادی جماعتوں سمیت تمام مخالف جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی، پولیس کی جانب داری اور ووٹروں کو زبردستی ووٹ دینے کے الزامات لگائے۔ کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 240 کورنگی کے ضمنی انتخابات بھی ہنگاموں اور دھاندلی کے الزامات کے ساتھ مکمل ہوئے تھے۔

24 جون کو ہونے والے انتخاب میں دھاندلیوں کے الزامات کی نوعیت کا جائزہ لیا جائے تو دو قسم کے الزامات واضح ہوتے ہیں۔ ایک الزام الیکشن کمیشن کی کارکردگی کے حوالہ سے لگایا گیا اور دوسرا الزام پولیس کے جانب دار رویہ سے متعلق ہے۔ الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں 24جون کے دن کا انتخاب کیا تھا۔ سندھ میں جون، جولائی اور اگست موسم گرما کے مہینے ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر جون اور جولائی تو بہت گرم ہوتا ہے۔ 24جون کو بالائی سندھ میں پارہ 42 سینٹی گریڈسے اوپر تھا، گرمی کے ساتھ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بھی انتہا کو پہنچ رہی تھی۔


پیپلز پارٹی سندھ کے سیکریٹری جنرل تاج حیدر کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کم ٹرن آؤٹ کی ایک وجہ شدید موسم تھا۔ انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پولنگ کے وقت میں دو گھنٹے بڑھائے جاتے مگر شاید یہ مطالبہ آخری لمحات میں ہوا۔ دوسرا سب سے اہم مسئلہ ووٹر لسٹوں میں خامیوں کا تھا۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں مخالف امیدواروں نے یہ شکایت کی کہ ان کے ووٹروں کے نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیںکیے گئے۔ شاید ووٹروں کو ان کے پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں آگہی دینے کا کوئی موثر نظام موجود نہیں تھا ۔ ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ نے حلقہ بندیوں میں دھاندلی کی۔


وہ کہتے ہیں کہ شہری علاقوں میں جہاں ان کی جماعت کی اکثریت تھی وہاں زیادہ آبادی پر حلقے بنائے گئے اور جہاں ان کے ووٹروں کی تعدا دکم تھی وہاں کم آبادی والے حلقے ترتیب دیے گئے۔ کئی شہروں میں امیدواروں کے انتخابی نشانات کے بارے میں تنازعات نے جنم لیا۔ ٹنڈو جام میں ایک آزاد امیدوار کا یہ الزام ذرایع ابلاغ کی زینت بنا کہ الیکشن کمیشن نے انھیں جو انتخابی نشان الاٹ کیا تھا بیلٹ بکس پر ان کے نام کے سامنے دوسرا نشان شایع ہوا تھا۔ ایک اہم مسئلہ انتخابی عملہ کی جانب داری کے حوالہ سے بھی خاصا نمایاں ہوا۔

عمومی طور پر سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ انتخابی عملہ کے فرائض انجام دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن دیگر سرکاری محکموں سے بھی ان کے ملازمین کی مدد کے لیے احکامات جاری کرتا ہے۔ سندھ میں اساتذہ کے تقرر میں دھاندلیوں اور اقرباء پروری کے عناصر خاصے نمایاں رہے۔ حکومت نے یونین کونسل کی سطح پر پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے اساتذہ کا تقرر کیا ہے۔ اگرچہ وزراء یہ دعوے کرتے نہیں تھکتے کہ اساتذہ کے تقرر کے تمام مراحل شفاف تھے مگر اس وقت بھی بعض حلقے یہ الزام لگاتے تھے کہ یہ تقرریاں انتخابی حکمت عملی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہیں، یوں بحیثیت پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران ان کا کردار مشتبہ ہوجاتا ہے۔

پولیس کے رویہ پر بہت زیادہ الزامات لگائے گئے۔ مخالف جماعتوں کے رہنماؤں نے بار بار یہ الزام لگایا کہ پولیس کا عملہ حکمراں جماعت کے کارکنوں جیسا کردار ادا کررہا ہے۔ نواب شاہ کے ایک پولنگ اسٹیشن سے پولنگ کا سامان چوری ہوا۔ کشمور میں تو اس سے زیادہ بری صورتحال سامنے آئی۔ اس علاقہ میں ڈاکوؤں نے پولنگ کے عملہ کو اغواء کرلیا مگر چند گھنٹے بعد پولیس عملہ کو بمع سامان واپس لے آئی۔ میرپور خاص کے ریٹرننگ افسر نے ضلع انتظامیہ سے تحریری شکایت کی کہ خاتون پریزائیڈنگ افسر کو ڈرایا گیا۔ عمر کوٹ میں پریزائیڈنگ افسر سے توہین آمیز سلوک کی وڈیو وائرل ہوگئی اور دھاندلی کے الزامات لگے جس کی الیکشن کمیشن نے باقاعدہ تحقیقات کا حکم دیا۔


انتخاب کی رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ انتخابات میں انتظامیہ کے معاملات کا تعلق کراچی میں چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کے دفاتر سے منسلک ہوتا ہے۔ چیف سیکریٹری اور آئی جی وزیر اعلیٰ اور کیبنٹ ڈویژن سے ہدایات حاصل کرتے ہیں۔ سندھ میں رینجرز کے دستے بھی امن و امان کو بہتر بنانے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔

اگر کراچی کے ان دفاتر میں یہ خیال تقویت پاتا ہے کہ حکومت وقت کو کسی مشکل میں نہیں ڈالا جائے گا تو پورے صوبہ میں صورتحال مختلف ہوتی ہے۔ اگر اعلیٰ سطح پر انتخابی عمل میں مکمل غیر جانبداری اور ہر صورت میں امن و امان کو یقینی بنانے کا خیال تقویت پاتا ہے تو پورے صوبہ میں انتخابات پرامن انداز میں ہوتے ہیں۔ سندھ کے امور کے ماہر سینئر صحافی سہیل سانگھی اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنا بیانیہ یوں مرتب کرتے ہیں کہ امن و امان کی صورتحال مجموعی طور پر معمول کے مطابق رہی اور ہر جماعت کے کارکنوں نے موقع ملتے ہی اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کیے۔

ایم کیو ایم کی قیادت کے ذہن میں 14 سال پرانی صورتحال ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خیرپور سے ایک مزدور کی بیٹی کی کامیابی اور اسی طرح دیگر بعض حلقوں میں بعض امیدواران کی کامیابیاں پیپلز پارٹی کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہوسکتی ہیں۔ 1970 سے ہونے والے انتخابات کے بعد سے ہر انتخاب سے ہی مختلف نوعیت کی صورتحال سامنے آتی ہے۔

یہ بھی ایک خیال پایا جاتا ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نگراں حکومت کی نگرانی میں ہوتے ہیں تو عمومی طور پر غیر جانبداری خاصی حد تک یقینی ہوتی ہے، مگر کراچی اور صوبہ کے مختلف علاقوں میں ان انتخابات میں پولنگ اسٹیشن کے گھیراؤ اور عملہ کو یرغمال بنانے، ووٹروں سے بیلٹ پیپرز چھیننے کے واقعات عام تھے۔ 2018 کے انتخابات میں نامعلوم افراد کے نتائج کی فور ی ترسیل کے RTS نظام کی معطلی اور ووٹوں کی گنتی کے وقت امیدواروں کے نمایندوں کی پولنگ اسٹیشن سے بے دخلی کے واقعات پر سابقہ حکومت نے توجہ نہیں دی تھی۔

اب کراچی اور حیدرآباد ڈویژن میں 24 جولائی کو انتخابات ہونگے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کی امتیازی پالیسیوں کی بناء پر کراچی میں نئے تضادات ابھرے ہیں۔ کراچی کی نمایندگی کرنے والی جماعتیں تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کو پہلے مرحلہ پر تحفظات ہیں۔ اس صورتحال میں وزیر اعلیٰ کی ذمے داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ وہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ انھیں اس صورتحال کا ادراک کرنا چاہیے۔

انتظامیہ اور پولیس افسران کو ابھی سے سخت ہدایات جاری ہونی چاہئیں کہ ان انتخابات میں امن و امان کو ہر صورت یقینی بنایا جائے اور انتظامی افسران کو یقین دلایا جائے کہ قانون کے مطابق فرائض انجام دینے والے افسروں کو مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن نے اس صورتحال کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے اور کمیشن کے سندھ میں تعینات افسران سے جواب طلب کرلیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اقدامات سے نہ صرف اس کی ساخت بہتر ہوگی بلکہ اگلا مرحلہ شفاف ہوسکتا ہے۔ حکمراں جماعت کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ شفاف انتخابات سے ہی جمہوری نظام مستحکم ہوتا ہے

====================
https://www.express.pk/story/2343597/268/

==================